ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسیں ہو کر
ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسیں ہو کر
فلک کرتا ہے مجرا تیری چوکھٹ کو زمیں ہو کر
بچے گی آبرو دنیا میں تو عزلت نشیں ہو کر
صدف میں بیٹھ رہنا چاہیے در ثمیں ہو کر
خراش غم نے کیسا میرے دل کا رنگ چمکایا
زیادہ ہو گیا قیمت میں کندہ یہ نگیں ہو کر
کلیجا تختہ سوسن کا بنا ہے نیلے داغوں سے
غضب کی لی ہیں دل میں چٹکیاں پہلو نشیں ہو کر
کمر کو بال جب میں نے کہا جھنجھلا کے فرمایا
نہ سمجھے آپ موٹی بات بھی باریک بیں ہو کر
بڑا ہی فخر قاصد کو ہوا خط پا کے ڈرتا ہوں
فلک پر اڑ نہ جائے یہ کہیں روح الامیں ہو کر
تصور ہے وہی پیش نظر ہر دم حسینوں کا
تماشا ہے رہے محفل میں ہم خلوت نشیں ہو کر
کمر ہے بال سی اے گل بدن لچکے نہ چلنے میں
نہ اتنا چاہیے موباف بھاری نازنیں ہو کر
بتا دے اے فلک توہی تعجب ہم کو آتا ہے
کہ خوش ہوتا ہے پھر کیوں کوئی اندوہگیں ہو کر
بہار لالہ و گل پھر کبھی کاہے کو دیکھیں گے
چلے ہیں اس چمن سے ہم نگاہ واپسیں ہو کر
ملوں جس دم میں آنکھیں ان کے ساعد سے دم رخصت
تو رہ جانا وہیں اے پردۂ چشم آستیں ہو کر
جو دل بھی مہرباں ہو کب زباں ہے ان کے قابو میں
جو لب تک ہاں بھی آتی ہے نکلتی ہے نہیں ہو کر
لگایا تو گلے سے پر لگائی تیغ بھی اس نے
ملا تو عید کے دن وہ مگر چیں بر-جبیں ہو کر
خدا مومن کی صورت رزق کافر کو بھی دیتا ہے
کسی کو بھول جائے کیا وہ رب العالمین ہو کر
جگہ پکڑی ہے کیوں سننے میں دل نے اس سے کیا حاصل
کسی انگشتری میں اس کو رہنا تھا نگیں ہو کر
تصور بندھ گیا جس شام کو اس حور طلعت کا
تو آیا خواب آنکھوں میں پری بن کر حسیں ہو کر
امیرؔ اک آئینہ خانہ تھا دنیا جس کو کہتے ہیں
وہی صورت رہی پیش نظر نکلی کہیں ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.