Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسیں ہو کر

امیر مینائی

ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسیں ہو کر

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسیں ہو کر

    فلک کرتا ہے مجرا تیری چوکھٹ کو زمیں ہو کر

    بچے گی آبرو دنیا میں تو عزلت نشیں ہو کر

    صدف میں بیٹھ رہنا چاہیے در‌ ثمیں ہو کر

    خراش غم نے کیسا میرے دل کا رنگ چمکایا

    زیادہ ہو گیا قیمت میں کندہ یہ نگیں ہو کر

    کلیجا تختہ سوسن کا بنا ہے نیلے داغوں سے

    غضب کی لی ہیں دل میں چٹکیاں پہلو نشیں ہو کر

    کمر کو بال جب میں نے کہا جھنجھلا کے فرمایا

    نہ سمجھے آپ موٹی بات بھی باریک بیں ہو کر

    بڑا ہی فخر قاصد کو ہوا خط پا کے ڈرتا ہوں

    فلک پر اڑ نہ جائے یہ کہیں روح الامیں ہو کر

    تصور ہے وہی پیش نظر ہر دم حسینوں کا

    تماشا ہے رہے محفل میں ہم خلوت نشیں ہو کر

    کمر ہے بال سی اے گل بدن لچکے نہ چلنے میں

    نہ اتنا چاہیے موباف بھاری نازنیں ہو کر

    بتا دے اے فلک توہی تعجب ہم کو آتا ہے

    کہ خوش ہوتا ہے پھر کیوں کوئی اندوہگیں ہو کر

    بہار لالہ و گل پھر کبھی کاہے کو دیکھیں گے

    چلے ہیں اس چمن سے ہم نگاہ واپسیں ہو کر

    ملوں جس دم میں آنکھیں ان کے ساعد سے دم رخصت

    تو رہ جانا وہیں اے پردۂ چشم آستیں ہو کر

    جو دل بھی مہرباں ہو کب زباں ہے ان کے قابو میں

    جو لب تک ہاں بھی آتی ہے نکلتی ہے نہیں ہو کر

    لگایا تو گلے سے پر لگائی تیغ بھی اس نے

    ملا تو عید کے دن وہ مگر چیں بر-جبیں ہو کر

    خدا مومن کی صورت رزق کافر کو بھی دیتا ہے

    کسی کو بھول جائے کیا وہ رب العالمین ہو کر

    جگہ پکڑی ہے کیوں سننے میں دل نے اس سے کیا حاصل

    کسی انگشتری میں اس کو رہنا تھا نگیں ہو کر

    تصور بندھ گیا جس شام کو اس حور طلعت کا

    تو آیا خواب آنکھوں میں پری بن کر حسیں ہو کر

    امیرؔ اک آئینہ خانہ تھا دنیا جس کو کہتے ہیں

    وہی صورت رہی پیش نظر نکلی کہیں ہو کر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے