Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دم تری الفت پوشیدہ کا بھرنے والے

امیر مینائی

دم تری الفت پوشیدہ کا بھرنے والے

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    دم تری الفت پوشیدہ کا بھرنے والے

    دل جلے سینہ جلے اف نہیں کرنے والے

    عشق میں جی سے گزرتے ہیں گزرنے والے

    موت کی راہ نہیں دیکھتے مرنے والے

    داغ دل سے مرے کہتا ہے یہ اس کا جوبن

    دیکھ اس طرح ابھرتے ہیں ابھرنے والے

    بزم ماتم میں کبھی شب ہی کو آ جا چھپ کر

    او مرے سوگ کے پردے میں سنورنے والے

    پھر بہار آئی ہے پھر ہم کو جنوں ہوتا ہے

    کیا دن آئے ہیں فراغت سے گزرنے والے

    دیدہ و دل میں رقیبوں کے بسے ہیں جا کر

    میری آنکھوں سے مرے دل میں اترنے والے

    آخری وقت بھی پورا نہ کیا وعدۂ وصل

    آپ آتے ہی رہے مر گئے مرنے والے

    پھر کھچے گی مئے گل رنگ چڑھیں گے نشے

    خوشے انگور کے رندو ہیں اترنے والے

    اٹھے اور کوچۂ محبوب کو پہنچے عاشق

    یہ مسافر نہیں رستے میں ٹھہرنے والے

    بام پر کھول کے زلفوں کو وہ خود کہتے ہیں

    راستہ بند یہی سانپ ہیں کرنے والے

    بحر ہستی میں جو ڈوبے تو عدم میں نکلے

    پار اتر جاتے ہیں یوں پار اترنے والے

    نزع میں ہم ہیں غم عشق یہ چلاتا ہے

    دیکھ غربت میں مجھے چھوڑ نہ مرنے والے

    دل بے تاب مگر آہ کوئی کی تونے

    رو اٹھے چیخ کے کیوں بات نہ کرنے والے

    اب مزے اٹھیں گے اٹھتی ہے جوانی ان کی

    نخل امید سے دو پھل ہیں اتر نے والے

    کیوں رقیبوں سے جلوں میں کہ یہ سب ہیں اے ترک

    ذکر میرا تری سرکار میں کرنے والے

    وقت انکار زباں چلتی ہے خنجر کی طرح

    خون اقرار کا کرتے ہیں مکرنے والے

    جان دینے کو کہا ان سے تو ہنس کر بولے

    تم سلامت رہو ہر روز کے مرنے والے

    آب خنجر کو بھی قاتل نے مجھے ترسایا

    نہ دیے حلق سے دو گھونٹ اترنے والے

    مردے پر مردے مزاروں میں گڑیں گے تا حشر

    لاکھ مہمان ہوں یہ گھر نہیں بھرنے والے

    تیغ و خنجر سے نہ جھگڑا سر و گردن کا مٹا

    چل دیے موڑ کے منہ فیصلہ کرنے والے

    نزع میں کیا نظر آتا ہے کوئی برق جمال

    آنکھیں کر لیتے ہیں کیوں بند یہ مرنے والے

    کبھی داغوں کے چمن پر بھی نظر حسرت سے

    او مرے پھولوں میں پھولوں سے سنورنے والے

    جب میں کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو کہتی ہے اجل

    مر بھی چک اب کہیں او روز کے مرنے والے

    نزع کا وقت جو گزرا تو خوشی کیا اس کی

    ایسے صدمے ابھی کتنے ہیں گزرنے والے

    آسماں پر جو ستارے نکل آئے تو امیرؔ

    یاد آئے مجھے داغ اپنے ابھرنے والے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے