یہ کس بے درد کس ظالم پر اپنا دم نکلتا ہے
یہ کس بے درد کس ظالم پر اپنا دم نکلتا ہے
یہ رہ رہ کر کلیجا چٹکیوں سے کون ملتا ہے
ترے بیمار کا کام اب بڑی مشکل سے چلتا ہے
کہ درد اٹھ کر بدلواتا ہے تب کروٹ بدلتا ہے
بہار آ پہنچی ہے شاید کہ دامان و گریباں میں
بہم یہ بحث ہے دیکھیں کہ کون آگے نکلتا ہے
ضرور آفت کوئی آئی ہے دل پر ورنہ اے ہمدم
تڑپتا لوٹتا کیوں آنکھ سے آنسو نکلتا ہے
ترا بیمار اے عیسیٰ نفس بگڑا ہے اب ایسا
سنبھالا بھی سنبھالے آ کے تو وہ کب سنبھلتا ہے
ہمیں دھڑکا ہے ایسا اس کے اٹھ جانے کا محفل سے
بدل جاتا ہے رنگ اپنا جو وہ زانو بدلتا ہے
حنا کیوں دیکھ کر اس کو پسی جاتی ہے گلشن میں
لہو عشاق کا ملتا ہے مہندی کب وہ ملتا ہے
چھڑکتے ہیں وہ افشاں گیسوؤں پر خیر ہو دل کی
مسافر چھاؤں میں تاروں کے گھر سے چل نکلتا ہے
خدا بھی عاجزوں کی عاجزی سنتا ہے محشر میں
بڑی سرکار میں دربار میں یہ عذر چلتا ہے
رلا دیتی ہیں ہنستی صورتیں ان خوب رویوں کی
یہ طفل اشک انہیں پیارے کھلونوں پر مچلتا ہے
یہ کس کی گرمیوں سے پھنک رہی ہے شمع محفل میں
کہ پروانہ پروں سے شب کو پنکھا روز جھلتا ہے
ذرا سی جان ہے پر دل جگر پروانے کا دیکھو
کہ جلتی آگ میں کس شوق سے گر گر کے جلتا ہے
جو کہتا ہوں کہ میرا دم نکلتا ہے تو کہتے ہیں
ہمارے وصل کا ارمان تو یونہی نکلتا ہے
تمہاری گرمیاں آفت ہیں ہجر و وصل دونوں میں
کوئی دوزخ میں پھکتا ہے کوئی جنت میں جلتا ہے
عجب تقدیر پائی ہے امیرؔ اس دار دنیا نے
نہیں آتا پھر اس گھر میں جو اس گھر سے نکلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.