پھڑک کر مرغِ بسمل کی طرح عاشق جو مرتے ہیں
پھڑک کر مرغِ بسمل کی طرح عاشق جو مرتے ہیں
یہ مقتل ہیں عروسِ تیغ کے صدقے اترتے ہیں
لگاتے ہیں جو سرمہ آئینہ کو دور دھرتے ہیں
ستم دیکھو وہ اپنی چتونوں سے آپ ڈرتے ہیں
لیا تو میں نے بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں
تسلی خاک ہو وعدوں سے ان کے چتونیں ظالم
اشارہ سے یہ کہتی ہیں کہ دیکھو اب مکرتے ہیں
چمن کی سیر بھی چھوٹے تو پھر جینے سے کیا حاصل
گلا کاٹیں مرا صیاد پر ناحق کترتے ہیں
بھرا ہے حسرتوں سے دل کہاں داغوں کی گنجایش
یہ سب ارمان ہیں جو داغ بن بن کے ابھرتے ہیں
وہ سر سے پاؤں تک تصویر ہیں بے ساختہ بن کے
سنورنے سے بگڑتے ہیں بگڑنے سے سنورتے ہیں
تصور میں بھی بوسہ لوں تو اڑ جاتا ہے رنگ ان کا
بلائیں خواب میں بھی لوں تو بال ان کے بکھرتے ہیں
امیرؔ اس جان کے دشمن سے تم کو ڈر نہیں لگتا
دھڑلے سے تم اس کے منہ پر کہتے ہو کہ مرتے ہیں
- کتاب : Naghma-e-Sheeri'n (Pg. 9)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.