Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دامنوں کا نہ پتا ہے نہ گریبانوں کا

امیر مینائی

دامنوں کا نہ پتا ہے نہ گریبانوں کا

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    دامنوں کا نہ پتا ہے نہ گریبانوں کا

    حشر کہتے ہیں جسے شہر ہے عریانوں کا

    گھر ہے اللہ کا گھر بے سر و سامانوں کا

    پاسبانوں کا یہاں کام نہ دربانوں کا

    خاطر رنج و غم و دور سے فرصت ہی نہیں

    میزباں ہو کے ہوا میں انہیں مہمانوں کا

    کب کسی اور کی جم سکتی ہے اس پر پٹری

    توسن ناز ہے خود کردہ تری رانوں کا

    گور کسریٰ و فریدوں پہ جو پہنچوں پوچھوں

    تم یہاں سوتے ہو کیا حال ہے ایوانوں کا

    ان کے حکموں کی ہو تعمیل کہاں تک مجھ سے

    ڈھیر سقوں کا ہے انبار ہے پروانوں کا

    کون گل چہرۂ رنگیں کا نہیں دیوانہ

    باغ غنچہ ہے ترے چاک‌ گریبانوں کا

    قحط روزی یہ جہاں میں ہے کہ کہتے ہیں ہنود

    رمضاں خوب مہینہ ہے مسلمانوں کا

    کیا لکھیں یار کو نامہ کو نقاہت سے یہاں

    فاصلہ خامۂ کاغذ میں ہے میدانوں کا

    مانع بادہ کشی مجھ کو ہیں نا حق واعظ

    خرچ کیا ہوتا ہے ان حلق کے دربانوں کا

    سبزہ خط نے گھٹا دی ترے عارض کی بہار

    تھا جو لالے کا چمن کھیت ہے اب دھانوں کا

    حشر میں قفل بھی رضواں نے نہ کھولا تھا ابھی

    جا پڑا خلد میں ڈاکا مرے ارمانوں کا

    موجیں دریا میں جو اٹھتی ہوئی دیکھیں سمجھا

    یہ بھی مجمع ہے ترے چاک گریبانوں کا

    سننے والوں کے نہ کس طرح پھنسیں طائر دل

    دام صیاد کا لچھا ہے تری تانوں کا

    عرصۂ ہستی و طول شب گور و محشر

    بعد ہے بندہ و رب میں ابھی میدانوں کا

    تیر پر تیر لگاتا ہے کماندار فلک

    خانۂ دل میں ہجوم آج ہے مہمانوں کا

    در جاناں سے نکل کر میں پھنسا زنداں میں

    گرد حلقہ پے انعام ہے دربانوں کا

    عشق رخسار میں اقبال سکندر پایا

    آئینہ دست نگر ہے ترے حیرانوں کا

    لال موباف صنم گیسوئے شب گوں میں نہ ڈال

    خون ہو جائے گا دو چار مسلمانوں کا

    توڑ کر بال و پر اس کے جو بنایا ہے چنور

    ہے ہوا خواہ ہما تیرے مگس رانوں کا

    بسملوں کی دم رخصت ہے مدارات ضرور

    زہرہ پانی ہوا جاتا ہے نمک دانوں کا

    آدمی غیروں کے اغوا نے نہ رکھا ان کو

    کھیل سارا ہے بگاڑا انہیں شیطانوں کا

    بے خودی آٹھ پہر گم یہ مجھے رکھتی ہے

    دن کو شب رات کو ہوں خواب نگہبانوں کا

    میرے اعضا نے پھنسایا ہے مجھے عصیاں میں

    شکوہ آنکھوں کا کروں یا میں گلا کانوں کا

    قدر داں چاہیے دیوان ہمارا ہے امیرؔ

    منتخب مصحفیؔ و میرؔ کے دیوانوں کا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے