تصور میں جو پھولوں کا سماں ہے
تصور میں جو پھولوں کا سماں ہے
قفس کی شام صبح گلستاں ہے
جگر کا خون آنکھوں سے رواں ہے
محبت ایک رنگیں داستاں ہے
مری فریاد دل کی داستاں ہے
مرا نالہ محبت کی زباں ہے
تصور عیش کا راحت نشاں ہے
مگر اتنی مجھے فرصت کہاں ہے
تکلم ہے کہ موجوں کی روانی
تبسم ہے کہ صبح گلستاں ہے
جوانی اور پھر تیری جوانی
ترے صدقے میں اک دنیا جواں ہے
جھکی پڑتی ہیں سجدے میں جبینیں
خدا جانے یہ کس کا آستاں ہے
وہ شاخیں جن پہ میرا آشیاں تھا
وہاں اب بجلیوں کا آشیاں ہے
بہت سے دہر میں قاتل ادا ہیں
تمہیں سے کیوں زمانہ بد گماں ہے
نہ پوچھو شام تنہائی کا عالم
تمہاری یاد بھی دامن کشاں ہے
تری بیداد کا شکوہ نہیں ہے
مری فطرت ہی مجبور فغاں ہے
خدا وہ دن نہ لائے جو کہوں میں
گناہوں میں بھی اب لذت کہاں ہے
ارے اک ساغر صہبا کا عالم
ابھی میکش کہاں تھا اور کہاں ہے
مرا افسانۂ پر درد ماہرؔ
بہ عنوان حدیث دیگراں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.