کھڑا ہوں کب سے میں در پر ترے مشتاق درشن کا
کھڑا ہوں کب سے میں در پر ترے مشتاق درشن کا
ادھر بھی اک نگاہ لطف صدقہ اپنے جوبن کا
نمونہ ہے ترا روئے دل آرا صاف گلشن کا
ہے نرگس آنکھ عارض گل دہن غنچہ ہے سوسن کا
یہ ہے حوروں کا طالب وہ بتان سامری فن کا
نہ میں معقول زاہد کا نہ قائل ہوں برہمن کا
دکھا کر روئے انور لے اڑا وہ دل کو پہلو سے
سماعت کیوں نہ ہوگی ہے وقوعہ روز روشن کا
وہ زلفیں عاشق شوریدہ سر کو ڈس گئیں آخر
نہیں آسان ہاتھوں پر کھلانا کالی ناگن کا
ڈریں کیوں اہل عصمت تابش خورشید محشر سے
کہ ہوگا سر پر ان کے سائباں یوسف کے دامن کا
جو دیکھا غور سے شرک خفی اس میں بھی مخفی ہے
کہ کوئی دوست کا ممنوں کوئی شاکی ہے دشمن کا
جو کچھ ملتا ہے انساں کو بقدر ظرف ملتا ہے
کہ شے رکھنے سے پہلے دیکھتے ہیں جوف برتن کا
خدا کی حکمتوں کو کب کوئی پہچان سکتا ہے
کہ کیوں ہے خوشہ چیں کوئی کوئی مالک ہے خرمن کا
جمالیؔ سے تو اے جان جہاں یہ ہو نہیں سکتا
کہ دشمن سے ترا شکوہ کرے اور تجھ سے دشمن کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.