یہ بزم میں جام مئے و ساقی سے واعظا تجھ کو ضد عبث ہے
یہ بزم میں جام مئے و ساقی سے واعظا تجھ کو ضد عبث ہے
کبھی تو کر ان میں ہو کے شامل چراغ روشن مراد حاصل
بہ ایں تجلی و سادہ روئی تو حسن میں گرچہ بے مثل ہے
مگر ہو عارض پہ تیرے اک تل چراغ روشن مراد حاصل
فراغ دل سے خوشی مناؤ لو اب تو گھی کے دیے جلاؤ
کہ آئی عاشق کی چھاتی پہ سل چراغ روشن مراد حاصل
جو کیجیے صیقل طبیعت نکلتا ہے جوہر حقیقت
کہ شمس سے جب کہ اٹھ گیا ظل چراغ روشن مراد حاصل
جمال تنزیہہ بحر ذاتی ہے واں نہ غائب ہے نہ شہادت
جلال تشبیہ موج ساحل چراغ روشن مراد حاصل
امانت حسن و عشق ہرگز اٹھے نہ ارض و سما سے لیکن
ہوا بشر جب کہ اس کا حامل چراغ روشن مراد حاصل
بر آئی خوب آرزوئے گل گیر نکلی پروانہ کی تمنا
موئے یہ ہوتے ہیں پیش محفل چراغ روشن مراد حاصل
تجلیٔ نیر حقیقی سے جب کہ چمکے زمیں کے ذرے
ظہور حق ہو کے پھر تو کامل چراغ روشن مراد حاصل
جلائے لمعات برق وحدت نے خاشاک ہائے کثرت
تجلیٔ حق نے پھونکا باطل چراغ روشن مراد حاصل
تصور یار تھا جو دل میں بھڑک اٹھا مثل نار در خس
جلایا علویؔ کا یہ تن گل چراغ روشن مراد حاصل
- کتاب : خمخانۂ ازلی (Pg. 59)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.