جنم کنہیا_جی
ہے ریت جنم کی یوں ہوتی جس گھر میں بالا ہوتا ہے
اس منڈل میں ہر من بھیتر سکھ چین دوبالا ہوتا ہے
سب بات بدھا کی بھولے ہیں جب بھولا بھالا ہوتا ہے
آنند مندیلے باجت ہیں جب بھون اجالا ہوتا ہے
یوں نیک نچھتر لیتے ہیں اس دنیا میں سنسار جنم
پر ان کے اور ہی لچھن ہیں جب لیتے ہیں اوتار جنم
سبھ ساعت سے یوں دنیا میں اوتار گربھ میں آتے ہیں
جو نار دمن ہیں دھیان بھلے سب ان کا بھید بتاتے ہیں
وہ نیک مہورت سے جس دم اس سشٹ میں جنمے جاتے ہیں
جو لیلا رچنی ہوتی ہے وہ روپ یہ جا دکھلاتے ہیں
یوں دیکھنے میں اور کہنے میں وہ روپ تو بالے ہوتے ہیں
پر بالے ہی پن میں ان کے اب کار نرالے ہوتے ہیں
یہ بات کہی جو میں نے اب یوں اس کو تو اب دھیان لگا
ہے پنڈت پستک بیچ لکھا تھا کنس جو راجا متھرا کا
دھن ڈھیر بہت بل تیج نپٹ سامان اور ڈیل بڑا
گج اور ترنگ اچھے نیکے انباری ہووے زین سجا
جب بن ٹھن اونچے ہستی پر وہ پاپی آن نکلتا تھا
سب ساز جھلا جھل کرتا تھا اور سنگ کٹک دل چلتا تھا
ایک روز جو اپنے بھج بل پر وہ کنس بہت مغرور ہوا
اور ہنس کر بولا دنیا میں ہے دوجا کون بلی مجھ سا
تھا ایک پرش وہ یوں بولا تو بھولا اپنے بل پر کیا
جو تیرا مارنہارا ہے سو وہ بھی جنم اب لیوے گا
وہ بولا متھرا نگری میں ایک روز جنم وہ پاوے گا
جب سیانا ہوگا ایک پل میں وہ تجھ کو مار گراوے گا
وہ ایسے ایسے کتنے ہی جو بول گرب کے کہتا تھا
سب لوگ سبھا کے سنتے تھے کیا تاب جو بولے کوئی ذرا
تھا ایک پرکھ وہ یوں بولا تو بھولا اپنے بل پر کیا
جو تیرا مارنہارا ہے سو وہ بھی جنم اب لیوے گا
تو اپنے بل پر اے مورکھ اس آن عبث بنکار لیا
وہ تجھ کو مار گرا دے گا یوں جیسے بھنگا مار لیا
یہ بات سنی جب کنس نے واں تب سن کر اس کے ہوش اڑے
بھومن کے بھیتر آن بھرا اور بول گرب سگرے بسرے
یوں پوچھا وہ کس دیس میں ہیں اور کون بھون آ کر جنمے
کون اس کے مات پتا ہوویں جو پالیں اس کو چاہت سے
وہ بولا متھرا نگری میں ایک روز جنم وہ پاوے گا
جب سیانا ہوگا تب تجھ کو ایک پل میں مار گرائے گا
یہ بات سنائی کنس کو پھر آٹھ لکیریں واں کھینچیں
بسودیو پتا کا نام کہا اور دیوکی ماتا ٹھہرائی
ان آٹھ لکیروں کی باتیں پھر کنس کو اس نے سمجھائیں
سب چھورا چھوری دیوکی کے ہیں جگ میں ہوتے آٹھ یوں ہی
جو اپنی جان بچانے کا کر سوچ یہ اس نے پھند کیا
بلوا بسودیو اور دیوکی کو ایک مندر بھیتر بند کیا
اس بات کو سن کر کنس بہت تب من میں اپنے گھبرایا
جب نارد من اس کے پاس گئے تب ان سے اس نے بھید کہا
تب نارد من نے بھی اس کو کچھ اور طرح سے سمجھایا
پھر کنس کو واں اس بات سوا کچھ اور نہ مارگ بن آیا
جو اپنی جان بچانے کا کر سوچ یہ اس نے پھند کیا
بلوا بسودیو اور دیوکی کو اک مندر بھیتر بند کیا
جب قید کیا ان دونوں کو تب چوکی دار دیے بٹھلا
ایک آن نہ نکسن پاویں یہ پھر ان سب کو یہ حکم دیا
سامان رسوئی کا جو تھا سب ان کے پاس دیا رکھوا
اور دوار دیے اوس مندر کے تب بھاری تالے بھی جڑوا
ہشیار لگے یوں رہنے واں نت چوکی کے دینے ہارے
کیا تب جو کوٹھے چھجے پر اک آن پرندہ پر مارے
بھیے بیٹھا تھا جو کنس کے من وہ بھر کر نیند نہ سوتا تھا
کچھ بات سہاتی نا اس کو نت اپنی پلک بھگوتا تھا
اس مندر میں ان دونوں کے جب کوئی بالک ہوتا تھا
کنس آن اسے جھٹ مارے تھا من مات پتا کا روتا تھا
ایک مدت تک ان دونوں کا اس مندر میں یہ حال رہا
جو بالک ان کے گھر جنما سو مارتا وہ چنڈال رہا
پھر آیا واں ایک وقت ایسا جو آئے گربھ میں من موہن
گوپال منوہر مرلیؔ دھر شری کرشن کشورن کمل نین
گھنشیام مراری بنواری گردھاری سندر شیام برن
پربھو ناتھ بہاری کانہ لال سکھدائی جگ کے دکھ بھنجن
جب ساعت پرگٹ ہونے کی واں آئی مکٹ دھریا کی
اب آگے بات جنم کی ہے جے بولو کرشن کنھیا کی
تھا نیک مہینہ بھادوں کا اور دن بدھ گنتی آٹھن کی
پھر آدھی رات ہوئی جس دم اور ہوا نچھتر روہینی بھی
شبھ ساعت نیک مہورت سے واں جنمے آکر کرشن جبھی
اس مندر کے اندھیارے میں جو اور اجالی آن بھری
بسودیو سے بولی دیوکی جی مت ڈر بھومن میں گھیر کرو
اس بالک کو تم گوکل میں لے پہنچو اور مت دیر کرو
جو اس کے تم لے جانے میں یاں تک ٹک بھی دیر لگاؤ گے
وہ دشٹ اسے بھی مارے گا پچتاتے ہی رہ جاؤ گے
اس آن سنبھل کر تم اس کو جو گوکل میں پہنچاؤگے
اس بات میں یہ پھل پاؤ گے جو اس کی جان بچاؤ گے
واں گوکل باشی جو اس کو لے اپنی گود سنبھالے گا
کچھ نام وہ اس کا رکھ لے گا اور مہر دیا سے پائے گا
جو حال یہ واں جا پہنچے گا تو اس کا جی بچ جاوے گا
جو کرم لکھی ہے تو پھر بھی مکھ ہم کو آن دکھاوے گا
جس گھر کے بیچ پلے گا یہ وہ گھر ہم کو بتلاوے گا
ہم اس سے ملنے جاویں گے یہ ہم سے ملنے آوے گا
یہ بات نہ تھی معلوم انہیں یہ بالک جگ نستاریے گا
کب مار سکے گا کنس اسے یہ کنس کو آپی مارے گا
ہے آدھی رات ابھی تو ہاں لے جاؤ اسے تم اپنے حال ادھر
لپٹا لو اپنی چھاتی سے دے آؤ جا کے اور کے گھر
من بیچ انھوں کے تھا ڈر یہ دن ہووے گا تو کنس آ کر
اک آن میں اس کو مارے گا رہ جاویں گے ہم آنسو بھر
یہ بات نہ تھی معلوم انہیں یہ بالک جگ نستارے گا
کب مار سکے گا کنس اسے یہ کنس کو بھی آپی مارے گا
جب دیوکی نے بسودیو جی سے واں رو رو کر یہ بات کہی
وہ بولے کیوں کر لے جاؤں ہے باہر تو چوکی بیٹھی
اور دوار لگے ہیں تالے کل کچھ بات نہیں میرے بس کی
تب دیوکی بولیں لے جاؤ من ایشور کی رکھ آس ابھی
وہ بالک کو جب لے نکلے سب سانکڑ پٹ پٹ چھوٹ گئے
تھے تالے جتنے دوار لگے اس آن جھڑ جھڑ ٹوٹ گیے
جب آئے چوکیداروں میں تب واں بھی یہ صورت دیکھی
سب سوتے پائے اس ساعت ہر آن جو دیتے تھے چوکی
جب سوتا دیکھا ان سب کو ہو نربھے نکلے واں سے بھی
پھر آئے جمنا پاس جیوں ہیں جمنا جی دیکھی بہت چڑھی
یہ ساچ ہوا من بیچ انہیں پیر اس جل میں کیسے دھرئیے
ہے رین اندھیری سنگ بالک اس بپتا میں اب کیا کریے
یوں من میں ٹھہرا پھر چلیے پھر آپ ہی من مضبوط ہوا
بھگوان دیا پر آس لگا واں جمنا جی پر دھیان دھرا
یہ جیوں جیوں پاؤں بڑھاتے تھے وہ پانی چڑھتا آتا تھا
یہ بات لگی جب ہونے واں بسودیو گیے من میں گھبرا
تب پاؤں بڑھاوے بالک نے جو آپ سے اور بھیگے جل میں
جب جمنا نے پد چوم لیے جا پہنچے پار وہ ایک پل میں
جب آن براجے گوکل میں سب پھاٹک واں بھی پاے کھلے
تب واں سے چلتے چلتے وہ پھر نند کے دوارے آ پہنچے
واں نند محل کے دوارے بھی سب دیکھے پٹ پٹ دور کھڑے
جو چوکی والے سوتے تھے اب کون انہیں روکے ٹوکے
جب بیچ محل کے جا پہنچے سب سوتے واں گھر والے تھے
ہر چار طرف اجیالی تھی جیوں سانجھ میں دیوے بالے تھے
ایک اور اچنبھا یہ دیکھو جو رات جنم شری کرشن کی تھی
اس رات یشودا کے گھر میں تھی یارو جنمی ایک لڑکی
واں سوتے دیکھ جسودا کو اور بدلی کر اس بالک کی
اس لڑکی کو وہ آپ اٹھا لے نکلے آئے متھرا جی
جب لڑکی لائے مندر میں سب تالے مندر لاگ اٹھے
جو چوکی دینے والے تھے سو وہ بھی اس دم جاگ اٹھے
جب بھور ہوئی تب گھبرا کر سدھ کنس نے لی اس مندر کی
جب تالے کھلوا بیچ گیا تب لڑکی جنمی ایک دیکھی
لے ہاتھ پھرایا چکر دے تو پٹکے وہ بن پٹکے ہی
یوں جیسے بجلی کوندے ہے جٹھ چھوٹ ہوا پر جا پہنچی
یہ کہتی نکلی اے مورکھ کیا تو نے سوچ وچارا ہے
وہ جیتا اب تو سیس مکٹ جو تیرا مارنہارا ہے
جب کنس نے واں یہ بات سنی من بیچ بہت سا لجیایا
جو کارج ہونے والا ہے وہ ٹالے سے کب ہے ٹلتا
سو فکر کرو سو پیچ کرو سو بات سناؤ حاصل کیا
ہر آن وہی یاں ہوتا ہے جو ماتھے کے ہے بیچ لکھا
ہیں کہتے بدھ جسے اب یاں وہ سوچ بڑے ٹھہراتی ہے
تقدیر کے آگے پر یارو تدبیر نہیں کام آتی ہے
اب نند کے گھر کی بات سنو واں ایک اچنبھا یہ ٹھہرا
جو رات کو جنمی تھی لڑکی اور بھور کو دیکھا تو لڑکا
گھوڑا نعلیں چھوٹیں ناچ ہوا اور نوبت کا گل شور مچا
پھر کرشن گرگ نے نام رکھا سب کنبے کے مل بیٹھے آ
نند اور جسودا اور کوات کرنے واں ہیرا پھیر لگے
پکوان مٹھائی میووں کے ہر ناری آگے ڈھیر لگے
سب ناری آئیں گونے کی اور پار پڑوسن آ بیٹھیں
کچھ ڈھول مجیرے لاتی تھیں کچھ گیت جچا کے گاتی تھیں
کچھ ہر دم مکھ اس بالک کا بلیہاری ہو کر دیکھ رہیں
کچھ تھال پنجیری کے رکھتیں کچھ سونٹھ سٹھورا کرتی تھیں
کچھ کہتی تھیں ہم بیٹھے ہیں نیگ آج کا دن کا لینے کو
کچھ کہتی تھیں ہم تو آئے ہیں نند بدھاوا دینے کو
کوئی گھٹی بیٹھی گرم کرے کوئی ڈالے اسپند اور بھوسی
کوئی لائی ہنسلی اور کھڑوے کوئی کرتا ٹوپی میوہ گھی
کوئی دیکھے روپ اس بالک کا کوئی ماتھا چومے مہر بھری
کوئی بھوؤں کی تعریف کرے کوئی آنکھوں کی کوئی پلکوں کی
کوئی کہتی عمر بڑی ہووے اے بیر تہارے بالک کی
کوئی کہتی بیاہ بہو لاؤ اس آس مرادوں والے کی
کوئی کہتی بالک خوب ہوا اے بہنا تیری نیک ریتی
یہ بالے ان کو ملتے ہیں جو دنیا میں ہیں بڑبھاگی
اس کنبے کی بھی شان بڑھی اور بھاگ بڑے اس گھر کے بھی
یہ باتیں سب کی سن سن کر یہ بات جسودا کہتی تھی
اے بیر یہ بالک جو ایسا اب میرے گھر میں جنما ہیں
کچھ اور کہوں میں کیا تم سے بھگوان کی مو پہ کرپا ہے
تھی کونے کونے خوش وقتی اور طبلے تال کھٹکتے تھے
کوئی ناچ رہی کوئی کود رہی کوئی ہنس ہنس کے کچھ روپ سجے
ہر چار طرف آنندیں تھیں واں گھر میں نند جسودا کے
کچھ آنگن بیچ براجیں تھی کوئی بیٹھی کوٹھے اور چھجے
سو خوبی اور خوشحالی ہی دکھلاتی تھی سامان کھڑی
سچ بات ہے بالک ہونے کی ہے دنیا میں آنند بڑی
پھر اور خوشی کی بات ہوئی جب ریت ہوئی دکانوں کی
رکھوائی ودھ کی مٹکی پھر اور ڈالی ہلدی بہتیری
یہ اس پر پھینکے بھر بھر کر وہ اس پر ڈالے گھڑی گھڑی
کوئی پوجے مکھ اور باہن کو کوئی سکھرنی پھینکے اور مٹھڑی
اس ودھ کی بھی رنگ رلیوں میں روپ اور ہوا نر ناری کا
اور تن کی ابرن یوں بھیگے جوں رنگ ہو کیسر کیاری کا
سکھ منڈل میں یہ دھوم مچی اور ہر نیگی اور جوگی بھی
کچھ ناچیں بھانڈ بھیگتے بھی کچھ ہجڑے پاویں بیل بڑی
آنند بدھاوے باج رہے نرسنگے سرنا اور ترئی
رنگین سنہرے پالنے بھی لے ہاتھ کھڑے کتنے پربھی
ہر آن اٹھاتی تھیں مانک کیا گنتی روپے سونے کی
نند اور جسودا نے ایسی کی شادی بالک ہونے کی
جو نیگی جوگی تھے ان کو اس آن نپٹ خوش حال کیا
پہرائے باگے ریشم کے اور زر بھی بخشا بہتیرا
اور جتنے ناچنے والے تھے اسباب انہیں بھی خوب دیا
مہمان جو گھر میں آئے تھے سب ان کا بھی آدر مان کیا
دن رات چھٹی ہونے تک من خوش دل لوگ لگانی کا
بھر تھال روپے اور مہریں دیں جب نیگ چکایا دائی کا
نند اور جسودا بالک کو واں ہاتھوں چھاؤں میں رکھتے تھے
نت پیار کریں تن من واریں ستھرے ابرن گہنے نیکے
جی بہلاتے من پرچاتے اور خوب کھلونے منگواتے
ہر آن جھلاتے پالنے میں وہ ایدھر اور ادھر بیٹھے
کر یاد نظیرؔ اب ہر ساعت اس پالنے اور اس جھولے کی
آنند سے بیٹھو چین کرو جے بولو کانہ جھنڈولے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.