Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

جنم کنہیا_جی

نظیر اکبرآبادی

جنم کنہیا_جی

نظیر اکبرآبادی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    ہے ریت جنم کی یوں ہوتی جس گھر میں بالا ہوتا ہے

    اس منڈل میں ہر من بھیتر سکھ چین دوبالا ہوتا ہے

    سب بات بدھا کی بھولے ہیں جب بھولا بھالا ہوتا ہے

    آنند مندیلے باجت ہیں جب بھون اجالا ہوتا ہے

    یوں نیک نچھتر لیتے ہیں اس دنیا میں سنسار جنم

    پر ان کے اور ہی لچھن ہیں جب لیتے ہیں اوتار جنم

    سبھ ساعت سے یوں دنیا میں اوتار گربھ میں آتے ہیں

    جو نار دمن ہیں دھیان بھلے سب ان کا بھید بتاتے ہیں

    وہ نیک مہورت سے جس دم اس سشٹ میں جنمے جاتے ہیں

    جو لیلا رچنی ہوتی ہے وہ روپ یہ جا دکھلاتے ہیں

    یوں دیکھنے میں اور کہنے میں وہ روپ تو بالے ہوتے ہیں

    پر بالے ہی پن میں ان کے اب کار نرالے ہوتے ہیں

    یہ بات کہی جو میں نے اب یوں اس کو تو اب دھیان لگا

    ہے پنڈت پستک بیچ لکھا تھا کنس جو راجا متھرا کا

    دھن ڈھیر بہت بل تیج نپٹ سامان اور ڈیل بڑا

    گج اور ترنگ اچھے نیکے انباری ہووے زین سجا

    جب بن ٹھن اونچے ہستی پر وہ پاپی آن نکلتا تھا

    سب ساز جھلا جھل کرتا تھا اور سنگ کٹک دل چلتا تھا

    ایک روز جو اپنے بھج بل پر وہ کنس بہت مغرور ہوا

    اور ہنس کر بولا دنیا میں ہے دوجا کون بلی مجھ سا

    تھا ایک پرش وہ یوں بولا تو بھولا اپنے بل پر کیا

    جو تیرا مارنہارا ہے سو وہ بھی جنم اب لیوے گا

    وہ بولا متھرا نگری میں ایک روز جنم وہ پاوے گا

    جب سیانا ہوگا ایک پل میں وہ تجھ کو مار گراوے گا

    وہ ایسے ایسے کتنے ہی جو بول گرب کے کہتا تھا

    سب لوگ سبھا کے سنتے تھے کیا تاب جو بولے کوئی ذرا

    تھا ایک پرکھ وہ یوں بولا تو بھولا اپنے بل پر کیا

    جو تیرا مارنہارا ہے سو وہ بھی جنم اب لیوے گا

    تو اپنے بل پر اے مورکھ اس آن عبث بنکار لیا

    وہ تجھ کو مار گرا دے گا یوں جیسے بھنگا مار لیا

    یہ بات سنی جب کنس نے واں تب سن کر اس کے ہوش اڑے

    بھومن کے بھیتر آن بھرا اور بول گرب سگرے بسرے

    یوں پوچھا وہ کس دیس میں ہیں اور کون بھون آ کر جنمے

    کون اس کے مات پتا ہوویں جو پالیں اس کو چاہت سے

    وہ بولا متھرا نگری میں ایک روز جنم وہ پاوے گا

    جب سیانا ہوگا تب تجھ کو ایک پل میں مار گرائے گا

    یہ بات سنائی کنس کو پھر آٹھ لکیریں واں کھینچیں

    بسودیو پتا کا نام کہا اور دیوکی ماتا ٹھہرائی

    ان آٹھ لکیروں کی باتیں پھر کنس کو اس نے سمجھائیں

    سب چھورا چھوری دیوکی کے ہیں جگ میں ہوتے آٹھ یوں ہی

    جو اپنی جان بچانے کا کر سوچ یہ اس نے پھند کیا

    بلوا بسودیو اور دیوکی کو ایک مندر بھیتر بند کیا

    اس بات کو سن کر کنس بہت تب من میں اپنے گھبرایا

    جب نارد من اس کے پاس گئے تب ان سے اس نے بھید کہا

    تب نارد من نے بھی اس کو کچھ اور طرح سے سمجھایا

    پھر کنس کو واں اس بات سوا کچھ اور نہ مارگ بن آیا

    جو اپنی جان بچانے کا کر سوچ یہ اس نے پھند کیا

    بلوا بسودیو اور دیوکی کو اک مندر بھیتر بند کیا

    جب قید کیا ان دونوں کو تب چوکی دار دیے بٹھلا

    ایک آن نہ نکسن پاویں یہ پھر ان سب کو یہ حکم دیا

    سامان رسوئی کا جو تھا سب ان کے پاس دیا رکھوا

    اور دوار دیے اوس مندر کے تب بھاری تالے بھی جڑوا

    ہشیار لگے یوں رہنے واں نت چوکی کے دینے ہارے

    کیا تب جو کوٹھے چھجے پر اک آن پرندہ پر مارے

    بھیے بیٹھا تھا جو کنس کے من وہ بھر کر نیند نہ سوتا تھا

    کچھ بات سہاتی نا اس کو نت اپنی پلک بھگوتا تھا

    اس مندر میں ان دونوں کے جب کوئی بالک ہوتا تھا

    کنس آن اسے جھٹ مارے تھا من مات پتا کا روتا تھا

    ایک مدت تک ان دونوں کا اس مندر میں یہ حال رہا

    جو بالک ان کے گھر جنما سو مارتا وہ چنڈال رہا

    پھر آیا واں ایک وقت ایسا جو آئے گربھ میں من موہن

    گوپال منوہر مرلیؔ دھر شری کرشن کشورن کمل نین

    گھنشیام مراری بنواری گردھاری سندر شیام برن

    پربھو ناتھ بہاری کانہ لال سکھدائی جگ کے دکھ بھنجن

    جب ساعت پرگٹ ہونے کی واں آئی مکٹ دھریا کی

    اب آگے بات جنم کی ہے جے بولو کرشن‌ کنھیا کی

    تھا نیک مہینہ بھادوں کا اور دن بدھ گنتی آٹھن کی

    پھر آدھی رات ہوئی جس دم اور ہوا نچھتر روہینی بھی

    شبھ ساعت نیک مہورت سے واں جنمے آکر کرشن جبھی

    اس مندر کے اندھیارے میں جو اور اجالی آن بھری

    بسودیو سے بولی دیوکی جی مت ڈر بھومن میں گھیر کرو

    اس بالک کو تم گوکل میں لے پہنچو اور مت دیر کرو

    جو اس کے تم لے جانے میں یاں تک ٹک بھی دیر لگاؤ گے

    وہ دشٹ اسے بھی مارے گا پچتاتے ہی رہ جاؤ گے

    اس آن سنبھل کر تم اس کو جو گوکل میں پہنچاؤگے

    اس بات میں یہ پھل پاؤ گے جو اس کی جان بچاؤ گے

    واں گوکل باشی جو اس کو لے اپنی گود سنبھالے گا

    کچھ نام وہ اس کا رکھ لے گا اور مہر دیا سے پائے گا

    جو حال یہ واں جا پہنچے گا تو اس کا جی بچ جاوے گا

    جو کرم لکھی ہے تو پھر بھی مکھ ہم کو آن دکھاوے گا

    جس گھر کے بیچ پلے گا یہ وہ گھر ہم کو بتلاوے گا

    ہم اس سے ملنے جاویں گے یہ ہم سے ملنے آوے گا

    یہ بات نہ تھی معلوم انہیں یہ بالک جگ نستاریے گا

    کب مار سکے گا کنس اسے یہ کنس کو آپی مارے گا

    ہے آدھی رات ابھی تو ہاں لے جاؤ اسے تم اپنے حال ادھر

    لپٹا لو اپنی چھاتی سے دے آؤ جا کے اور کے گھر

    من بیچ انھوں کے تھا ڈر یہ دن ہووے گا تو کنس آ کر

    اک آن میں اس کو مارے گا رہ جاویں گے ہم آنسو بھر

    یہ بات نہ تھی معلوم انہیں یہ بالک جگ نستارے گا

    کب مار سکے گا کنس اسے یہ کنس کو بھی آپی مارے گا

    جب دیوکی نے بسودیو جی سے واں رو رو کر یہ بات کہی

    وہ بولے کیوں کر لے جاؤں ہے باہر تو چوکی بیٹھی

    اور دوار لگے ہیں تالے کل کچھ بات نہیں میرے بس کی

    تب دیوکی بولیں لے جاؤ من ایشور کی رکھ آس ابھی

    وہ بالک کو جب لے نکلے سب سانکڑ پٹ پٹ چھوٹ گئے

    تھے تالے جتنے دوار لگے اس آن جھڑ جھڑ ٹوٹ گیے

    جب آئے چوکیداروں میں تب واں بھی یہ صورت دیکھی

    سب سوتے پائے اس ساعت ہر آن جو دیتے تھے چوکی

    جب سوتا دیکھا ان سب کو ہو نربھے نکلے واں سے بھی

    پھر آئے جمنا پاس جیوں ہیں جمنا جی دیکھی بہت چڑھی

    یہ ساچ ہوا من بیچ انہیں پیر اس جل میں کیسے دھرئیے

    ہے رین اندھیری سنگ بالک اس بپتا میں اب کیا کریے

    یوں من میں ٹھہرا پھر چلیے پھر آپ ہی من مضبوط ہوا

    بھگوان دیا پر آس لگا واں جمنا جی پر دھیان دھرا

    یہ جیوں جیوں پاؤں بڑھاتے تھے وہ پانی چڑھتا آتا تھا

    یہ بات لگی جب ہونے واں بسودیو گیے من میں گھبرا

    تب پاؤں بڑھاوے بالک نے جو آپ سے اور بھیگے جل میں

    جب جمنا نے پد چوم لیے جا پہنچے پار وہ ایک پل میں

    جب آن براجے گوکل میں سب پھاٹک واں بھی پاے کھلے

    تب واں سے چلتے چلتے وہ پھر نند کے دوارے آ پہنچے

    واں نند محل کے دوارے بھی سب دیکھے پٹ پٹ دور کھڑے

    جو چوکی والے سوتے تھے اب کون انہیں روکے ٹوکے

    جب بیچ محل کے جا پہنچے سب سوتے واں گھر والے تھے

    ہر چار طرف اجیالی تھی جیوں سانجھ میں دیوے بالے تھے

    ایک اور اچنبھا یہ دیکھو جو رات جنم شری کرشن کی تھی

    اس رات یشودا کے گھر میں تھی یارو جنمی ایک لڑکی

    واں سوتے دیکھ جسودا کو اور بدلی کر اس بالک کی

    اس لڑکی کو وہ آپ اٹھا لے نکلے آئے متھرا جی

    جب لڑکی لائے مندر میں سب تالے مندر لاگ اٹھے

    جو چوکی دینے والے تھے سو وہ بھی اس دم جاگ اٹھے

    جب بھور ہوئی تب گھبرا کر سدھ کنس نے لی اس مندر کی

    جب تالے کھلوا بیچ گیا تب لڑکی جنمی ایک دیکھی

    لے ہاتھ پھرایا چکر دے تو پٹکے وہ بن پٹکے ہی

    یوں جیسے بجلی کوندے ہے جٹھ چھوٹ ہوا پر جا پہنچی

    یہ کہتی نکلی اے مورکھ کیا تو نے سوچ وچارا ہے

    وہ جیتا اب تو سیس مکٹ جو تیرا مارنہارا ہے

    جب کنس نے واں یہ بات سنی من بیچ بہت سا لجیایا

    جو کارج ہونے والا ہے وہ ٹالے سے کب ہے ٹلتا

    سو فکر کرو سو پیچ کرو سو بات سناؤ حاصل کیا

    ہر آن وہی یاں ہوتا ہے جو ماتھے کے ہے بیچ لکھا

    ہیں کہتے بدھ جسے اب یاں وہ سوچ بڑے ٹھہراتی ہے

    تقدیر کے آگے پر یارو تدبیر نہیں کام آتی ہے

    اب نند کے گھر کی بات سنو واں ایک اچنبھا یہ ٹھہرا

    جو رات کو جنمی تھی لڑکی اور بھور کو دیکھا تو لڑکا

    گھوڑا نعلیں چھوٹیں ناچ ہوا اور نوبت کا گل شور مچا

    پھر کرشن گرگ نے نام رکھا سب کنبے کے مل بیٹھے آ

    نند اور جسودا اور کوات کرنے واں ہیرا پھیر لگے

    پکوان مٹھائی میووں کے ہر ناری آگے ڈھیر لگے

    سب ناری آئیں گونے کی اور پار پڑوسن آ بیٹھیں

    کچھ ڈھول مجیرے لاتی تھیں کچھ گیت جچا کے گاتی تھیں

    کچھ ہر دم مکھ اس بالک کا بلیہاری ہو کر دیکھ رہیں

    کچھ تھال پنجیری کے رکھتیں کچھ سونٹھ سٹھورا کرتی تھیں

    کچھ کہتی تھیں ہم بیٹھے ہیں نیگ آج کا دن کا لینے کو

    کچھ کہتی تھیں ہم تو آئے ہیں نند بدھاوا دینے کو

    کوئی گھٹی بیٹھی گرم کرے کوئی ڈالے اسپند اور بھوسی

    کوئی لائی ہنسلی اور کھڑوے کوئی کرتا ٹوپی میوہ گھی

    کوئی دیکھے روپ اس بالک کا کوئی ماتھا چومے مہر بھری

    کوئی بھوؤں کی تعریف کرے کوئی آنکھوں کی کوئی پلکوں کی

    کوئی کہتی عمر بڑی ہووے اے بیر تہارے بالک کی

    کوئی کہتی بیاہ بہو لاؤ اس آس مرادوں والے کی

    کوئی کہتی بالک خوب ہوا اے بہنا تیری نیک ریتی

    یہ بالے ان کو ملتے ہیں جو دنیا میں ہیں بڑبھاگی

    اس کنبے کی بھی شان بڑھی اور بھاگ بڑے اس گھر کے بھی

    یہ باتیں سب کی سن سن کر یہ بات جسودا کہتی تھی

    اے بیر یہ بالک جو ایسا اب میرے گھر میں جنما ہیں

    کچھ اور کہوں میں کیا تم سے بھگوان کی مو پہ کرپا ہے

    تھی کونے کونے خوش وقتی اور طبلے تال کھٹکتے تھے

    کوئی ناچ رہی کوئی کود رہی کوئی ہنس ہنس کے کچھ روپ سجے

    ہر چار طرف آنندیں تھیں واں گھر میں نند جسودا کے

    کچھ آنگن بیچ براجیں تھی کوئی بیٹھی کوٹھے اور چھجے

    سو خوبی اور خوشحالی ہی دکھلاتی تھی سامان کھڑی

    سچ بات ہے بالک ہونے کی ہے دنیا میں آنند بڑی

    پھر اور خوشی کی بات ہوئی جب ریت ہوئی دکانوں کی

    رکھوائی ودھ کی مٹکی پھر اور ڈالی ہلدی بہتیری

    یہ اس پر پھینکے بھر بھر کر وہ اس پر ڈالے گھڑی گھڑی

    کوئی پوجے مکھ اور باہن کو کوئی سکھرنی پھینکے اور مٹھڑی

    اس ودھ کی بھی رنگ رلیوں میں روپ اور ہوا نر ناری کا

    اور تن کی ابرن یوں بھیگے جوں رنگ ہو کیسر کیاری کا

    سکھ منڈل میں یہ دھوم مچی اور ہر نیگی اور جوگی بھی

    کچھ ناچیں بھانڈ بھیگتے بھی کچھ ہجڑے پاویں بیل بڑی

    آنند بدھاوے باج رہے نرسنگے سرنا اور ترئی

    رنگین سنہرے پالنے بھی لے ہاتھ کھڑے کتنے پربھی

    ہر آن اٹھاتی تھیں مانک کیا گنتی روپے سونے کی

    نند اور جسودا نے ایسی کی شادی بالک ہونے کی

    جو نیگی جوگی تھے ان کو اس آن نپٹ خوش حال کیا

    پہرائے باگے ریشم کے اور زر بھی بخشا بہتیرا

    اور جتنے ناچنے والے تھے اسباب انہیں بھی خوب دیا

    مہمان جو گھر میں آئے تھے سب ان کا بھی آدر مان کیا

    دن رات چھٹی ہونے تک من خوش دل لوگ لگانی کا

    بھر تھال روپے اور مہریں دیں جب نیگ چکایا دائی کا

    نند اور جسودا بالک کو واں ہاتھوں چھاؤں میں رکھتے تھے

    نت پیار کریں تن من واریں ستھرے ابرن گہنے نیکے

    جی بہلاتے من پرچاتے اور خوب کھلونے منگواتے

    ہر آن جھلاتے پالنے میں وہ ایدھر اور ادھر بیٹھے

    کر یاد نظیرؔ اب ہر ساعت اس پالنے اور اس جھولے کی

    آنند سے بیٹھو چین کرو جے بولو کانہ جھنڈولے کی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے