دلیل العارفین (مجلس ۴)
دلچسپ معلومات
ملفوظات :- خواجہ معین الدین چشتی جامع :- قطب الدین بختیار کاکی
روز دو شنبہ سعادت قدم بوسی میسر ہوئی۔
اس روز شیخ شہاب الدین عمر خواجہ اجل شیرازی اور شیخ سیف الدین باخرزی واسطے ملاقات کے تشریف لائے تھے، گفتگو اس بارے میں ہوئی کہ صادق محبت میں کون ہے، آپ نے ارشاد فرمایا صادق محبت میں وہ ہے کہ جب بلا دوست کی جانب سے آوے اسے نہایت خوشی سے قبول کرے، بعد اس کے شیخ شہاب الدین عمر سہروردی نے کہا کہ عالم شوق و اشتیاق کا اس پر اس طرح سے غالب ہوکہ ہزارہا تیغ اس کے سر پر ماریں تو خبر نہ ہو، اس کے بعد خواجہ اجل شیرازی نے فرمایا صادق دوستی مولا میں وہ ہے کہ اگر ذرہ ذرہ کرکے جلایا جاوے یہاں تک کہ راکھ ہو جاوے اور دم نہ مارے وہی صادق ہے، بعد اس کے شیخ سیف الدین باخرزی نے فرمایا صادق دوستی مولا میں وہ ہے کہ ہمیشہ اسے خبریں پہنچتی رہیں اور مشاہدہ دوست میں سب کو بھولا رہے اور کوئی اثر اس پر پیدا نہ ہو، اس کے بعد حضرت خواجہ بزرگ ادام اللہ تقواہٗ نے ارشاد فرمایا کہ یہ قول آخری شیخ سیف الدین باخرزی کا مشابہ بقول دوم شیخ شہاب الدین ہے کیونکہ میں نے آثار اؤلیا میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ رابعہ بصری اور حسن بصری اور مالک بن دینار اور خواجہ شفیق بلخی بصرہ میں ایک جا متمکن تھے اور یہی ذکر ہورہا تھا، حضرت مالک بن دینار نے فرمایا صادق دوستی مولیٰ میں وہ ہے جو بلا اور جفا دوست کی طرف سے پہنچے وہ اس میں راضی رہے، رابعہ بصری نے فرمایا اس سے زیادہ اور ہونا چاہئے تب خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ دوستی مولیٰ میں صادق وہ شخص ہے اگر اسے ماریں اور ذرہ ذرہ کر ڈالیں تو بھی اسے خبر نہ ہو، پھر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ صادق دوستی مولیٰ میں وہ ہے کہ جب اسے دکھ یا درد پہنچے وہ اس پر صبر کرے، رابعہ بصری نے فرمایا اے خواجہ ! اس سے بوئے مِنّی آتی ہے، بعد اس کے حضرت رابعہ بصری نے فرمایا دوستی مولیٰ میں صادق وہ ہے جب اسے دکھ یا درد پہنچے وہ اس میں بھی اسے نہ بھولے بڑا صادق ہے، تب خواجہ حسن نے فرمایا مجھے بھی یہی اقرار ہے اور شیخ سیف الدین باخرزی نے کہا سخن محبت میں یہی ہے، اس کے بعد گفتگو خندہ کرنے کے بارے میں واقع ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اصل خندہ قہقہہ ہے کہ ایک گناہان کبیرہ میں سے ہے اور درمیان اہل سلوک کے خندہ قہقہہ کو کہتے ہیں، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا اول بازی خندہ اور قہقہہ ہے اور قبرستان میں ہنسنا منع آیاہےکہ وہ جگہ عبرت کی ہے نہ کھیل اور کود کی، پیغمبر خدا نے فرمایا ہےکہ جب آدمی کا گذر قبرستان میں ہوتا ہے مردے زبان حال سے کہتے ہیں کہ اے غافل ! اگر تجھے وہ بات معلوم ہوتی جو ہم پر گذری اور تجھ پر پیش آنے والی ہے ہر آئینہ گوشت و پوست تیرا پگھل جاتا، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت میں ملک کرمان میں شیخ احد الدین کرمانی کے ہمراہ مسافرت میں تھا، ایک بزرگ کو دیکھا جوبڑے صاحب نعمت اور مشغول تھے، میں نے ایسا مشغول کسی اور کو نہیں دیکھا۔
الغرض ہم ان کے پاس گئے، سلام عرض کیا، دیکھا تو ان کے بدن میں صرف روح ہی باقی تھی، گوشت و پوست بالکل نہ تھا وہ باتیں بہت کم کرتے تھے، ہم نے ارادہ کیا کہ ان سے دریافت حال کریں کہ ایسا حال کیوں ہوا ہے، انہوں نے روشن ضمیری سے ہمارا ارادہ دریافت کیا اور ہمارے سوال کرنے سے پہلے اپنا حال بیان کرنا شروع کیا کہ اے درویش ! ایک روز میں مع اپنے ایک دوست کے قبرستان میں گیا، میں اور وہ متصل ایک قبر کے ٹھہرے، قضارا اس جوان سے کوئی بات لہو ولعب کی سرزد ہوئی، مجھے ہنسی آئی، بمجرد ہنسنے کے اس قبر میں سے جس پر بیٹھا تھا آواز آئی کہ اے غافل ! جس کو ایسا سخت مکان درپیش ہو اور جس کا حریف ملک الموت ہو اور اس خاک میں جس میں سانپ اور اژدھے اس کا گھر ہو اسے ہنسنے سے کیا سروکار۔ جیوں ہی میں نے یہ بات سنی آہستہ سے اٹھا اور اپنے دوست کو وداع کیا، وہ اپنے گھر گیا ،میں اس غار میں آیااور سکونت اختیار کی، اس روز سے مجھے بڑی ہیبت ہے اور اس خوف سے میری جان گھلی جاتی ہے، آج چالیس برس ہوئے کہ نہ میں ہنسا ہوں اور نہ شرمندگی سے سر اٹھاکر آسمان دیکھا ہے، کل روز قیامت ہوگا وہاں کیونکر منہ دکھلاؤں گا، اس کے بعد فرمایا ایک بزرگ عطاء سلمی نام تھے، چالیس برس انہوں نے بھی آسمان نہ دیکھا تھا، شب و روز زار و قطار روتے تھے، لوگوں نے سبب اس قدر رونے کا دریافت کیا، آپ نے جواب دیا قبر اور قیامت کے ڈر سے میرا یہ حال ہے، اس کے بعد پوچھا کہ آسمان کیوں نہیں دیکھتے، فرمایا مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے گناہ بہت کئے اور مجالس میں قہقہہ بہت مارے ہیں، اس سبب سے آسمان نہیں دیکھا، اس کے بعد آپ نے حضرت خواجہ فتح موصلی کی حکایت بیان فرمائی کہ وہ بڑے بزرگ علامۃ الدہر تھے، آٹھ سال سے اس قدر روتے تھے کہ گوشت ان کے رخساروں کا بہہ گیا تھا، جب انہوں نے انتقال فرمایا لوگوں نے خواب میں دیکھا۔ پوچھا خدائے تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ،فرمایا مجھے بخش دیا ۔جس وقت مجھے اوپر عرش کے تلے لے گئے میں نے نہایت ادب سے ڈرتے اور کانپتے ہوئے سجدہ کیا ۔خطاب ہوا اے فتح موصلی اتنا کیوں روتا تھا، کیا مجھے غفار نہ جانتا تھا، میں نے پھر سجدہ کیا اور عرض کیا کہ اے بار الٰہی وہ کون شخص ہے جو تجھے غفار نہ جانتا ہو مگر میں ضغطہ گور و ہیبت قبر اور سخن ملک الموت کی وجہ سے روتا تھا کہ اس تنگ گڑھے میں نہ معلوم میرا کیا حال ہوگا، اس کے بعد حق سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہوا کہ جب تو ان امور سے ڈرا ہم نے تجھے سب خوف کے مقامات سے پناہ دی، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بیچ ملک سیوستان کے ہمراہی حضرت خواجہ عثمان ہرونیؒ کے مسافرت میں تھا۔ ایک روز ہم ایک صومعہ میں پہنچے، اس میں شیخ صدرالدین محمد احمد سیوستانی رہتے تھے، حد سے زیادہ مشغول تھے، میں کئی روز ان کی خدمت میں آیا جو کوئی ان کے صومعہ میں آتا محروم نہ جاتا، آپ اندر تشریف لے جاکر کوئی شے لاکر دیتے اور فرماتے کہ میرے حق میں دعائے خیر کرو کہ ایمان اپنا بسلامت گور میں لے جاؤں۔
الغرض وہ بزرگوار جب حال سختی قبر وموت کا سنتے بید کے موافق کانپتے اور آنکھوں سے خون رواں ہونے لگتا، گویا چشمہ پانی کا ہے، آپ کا گریہ دیکھ کر سات راندن بند نہ ہوتا۔ آپ آسمان کو دیکھ دیکھ کر روتے تھے، ان کے رونے سے رونا آتا تھا، جب رونے سے فارغ ہوئے اور سکون پکڑا میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے عزیز ! جس کو موت آنے والی ہو اور حریف اس کا مانند ملک الموت کے ہو اسے سونے، ہنسنے خوش دل رہنے سے کیا کام، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اے عزیز اگر تمہیں حال ان لوگوں کا جو زیر خاک سوئے ہیں اور ایسی کوٹھری جس میں سانپ بچھو بھرے ہوئے ہیں اور وہ اس میں قید ہیں، معلوم ہو جاوے تو اس کے دریافت کرتے ہی ایسے پگھل جاؤگے جس طرح نمک پانی میں گل جاتاہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک وقت میں اور ایک بزرگ کامل شہر بصرہ کے قبرستان میں بیٹھے تھے، ہمارے متصل ایک مردہ کو سخت عذاب گور ہورہاتھا۔ اس بزرگ نے جب یہ حال دیکھا زور سے نعرہ مار کر زمین پر گر پڑے، ہم نے اٹھانا چاہا معلوم ہوا کہ جان قالب سے پرواز کر گئی ہے] پھر تھوڑی دیر میں بدن ان کا پانی ہوکر ناپیدا ہوگیا، میں نے جیسا خوف ان میں دیکھا تھا کسی اور میں نہیں دیکھا اور نہ سنا، اس کے بعد ارشاد فرمایا مجھے بھی اس روز سے سخت خوف اور دہشت دامن گیر ہے، یہ حکایت تیس برس کے بعد تم لوگوں سے بیان کی، اے عزیزو ! دنیا سے اتنا مشغول مت ہو کہ حق سے باز رہو جب یہ فرماچکے دو خرما جو آپ کے سامنے تھے مجھے عنایت فرمائے اور آپ رونے لگے، جب ہیبت کا غلبہ زیادہ ہوا حضرت خواجہ بزرگ نے چینخیں مار کر رونا شروع کیا، اس کے بعد ارشاد فرمایا یہ معاملہ نہایت سخت ہے جو بچا بچا، اس کے بعد ارشاد فرمایا قبرستان میں قصداً روٹی کھانا یا پانی پینا یا کسی قسم کا فواکہ کھانا گناہ کبیرہ ہے، اس کے بعد آپ نے امر مذکورہ کے مطابق حکایت بیان فرمائی کہ کتاب روضہ مصنفہ حضرت امام یحییٰ حسن زندوسی میں لکھا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے مَنْ اَکَلَ فِیْ المقابر طَعَاماً اَوْ شَرَباً فَھُوا مَلْعُوْنٌ اَوْ مُنَافِقُ یعنی جس شخص نے کھایا قبرستان میں کھانا یا پیا پانی وہ ملعون ہے یا منافق ہے، اس کے بعد حضرت خواجہ حسن بصری کی حکایت بیان فرمائی کہ آپ نے قبرستان میں ایک طائفہ مسلمانوں کا دیکھا جو کھانا کھا رہے تھے اور پانی پی رہے تھے، آپ ان کے نزدیک تشریف لے گئے اور کہا اے ! لوگوں تم منافق ہو یا مسلمان، یہ بات انہیں گراں معلوم ہوئی، چاہا کہ آپ کو ایذا پہنچاویں، آپ نے فرمایا بات میں نے اپنے دل سے نہیں کہی، پیغمبر خدا نے فرمایا ہے جو شخص قبرستان میں کھانا کھاوے یا پانی پیوے وہ منافق ہے کس واسطے کہ قبرستان مقام ہیبت و عبرت ہے، اس خاک میں کتنے مثل تمہاے اور کتنے تم سے افضل مدفون ہیں، چیونٹیوں نے انہیں کھا لیا ہے ان کی خوبصورتی خاک میں خاک سے یکساں ہوگئی ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم تم زندوں نے اپنے ہاتھ سے زمین میں سونپا ہے پھر تمہارا دل کیونکہ گوارا کرتاہے کہ ایسی جگہ میں کھاؤ پیو، آپ یہ فرماکر خاموش ہو رہے، ان باتوں کا اثر ان لوگوں کے دلوں پر کچھ ایسا پڑا کہ فی الفور توبہ کی اور گستاخی معاف کرائی اور مدت العمر اپنی توبہ پر ثابت رہے، اس کے بعد دوسری حکایت متضمن اسی معنی کے بیان فرمائی کہ کتاب ریاحین میں لکھا کہ ایک مرتبہ پیغمبر کا گذر ایسی قوم پر ہوا جو ہنسی اور ٹھٹھہ میں مشغول تھی، پیغمبر نے توقف فرمایا اور سلام کیا وہ لوگ آپ کو دیکھتے ہی واسطے تعظیم کے کھڑے ہوگئے، آپ نے ان سے فرمایا کہ اے بھائیو ! کیا تم موت سے نڈر ہوگئے ہو، سب نے متفق اللفظ ہوکر بیان کیا ،خیر یا رسول اللہ، موت سے کون نڈر ہوسکتا ہے، آپ نے فرمایا جو موت سے ڈرے اسے ہنسنے اور قہقہہ مارنے سے کیا کام، یہ نصیحت رسالت پناہ کی ان لوگوں پر ایسی کار گر ہوئی کہ آئندہ کسی نے ان کو ہنستے نہ دیکھا، اس کے بعد حضرت خواجہ بزرگ نے بیان فرمایا کہ اس قدر انبیا اور اولیاء نے جو دنیا کو ہیچ جانا اس پر لعنت کی، اس کا سبب یہ ہے کہ ہیبت گور اور خوف مرگ ان پر طاری تھا۔ا س کے بعد ارشاد فرمایا تیسرا مرتبہ جس کو اہل سلوک گناہ کبیرہ تحریر فرماتے ہیں ایک بھائی مسلمان کو ایذا پہنچاناہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں۔ چنانچہ قران شریف میں حق تعالیٰ فرماتاہے وَالَّذِیْنَ یُوْذوَن الْمُوْمِنِیْنَ والمُومِنَات بِغَیْرِمَااکْتَسِبُوْ فَقَدْ اَحْتمِلُوْبُھْتَاناًوَاِثْماً مبیناً یعنی جولوگ ایذا دیتے ہیں مسلمانوں کو ناحق پس تحقیق وہ باندھتے ہیں بہتان اور گناہ بڑا بہتان باندھنا یعنی بلا وجہ ایذا دہی بھائی مسلمان کو موجب سخت ناراضگی خدا کا ہے، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا ایک بادشاہ نے دروازہ ظلم اور تعدی کا بندگان خدا پر کھولا تھا، یہاں تک کہ بلا وجہ ہلاک کرتا اور عذاب دیتا، مدت بعد وہی بادشاہ ظالم مسجد کنکری واقع بغداد کے متصل نظر پڑا سر کے بال بکھرے، خاک ان میں پڑی، دولت و حشمت بالکل اس سے برگشتہ تھی، ایک شخص نے اس کو پہچان کر پوچھا کیا تو وہی بادشاہ ہے جو مکہ شریف میں لوگوں پر ظلم وستم کرتاتھا۔ اس نے شرمندہ ہوکر کہا ہاں میں وہی ہوں ۔تم نے مجھے کیونکر پہچا نا۔ جواب دیا میں نے تجھے اس وقت حالت دولت و نعمت میں دیکھا تھا اس وقت تونے دروازہ ظلم و تعدی کا لوگوں پر کھول رکھا تھا، خدا کا خوف مطلق نہ کرتا تھا، ملک نے جواب دیا بیشک میں اس وقت بے موجب بندگان خدا کو ستاتا تھا اور ان پر ظلم روا رکھتا تھا، یہ اسی ظلم کی سزا ہے، اس کے بعد آپ نے حکایت بیان فرمائی کہ جس وقت میں بغدا میں تھا دجلہ کے کنارے ایک صومعہ میں گیا۔اس میں ایک بزرگ مقیم تھے۔ میں نے سلام کیا ۔انہوں نے اشارہ سے جواب دیا ۔بیٹھ جانے کو ارشاد فرمایا۔ میرے بیٹھ جانے پر تھوڑی دیر بعد مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا مجھےپچاس سال ہوئے کہ خلق سے تنہائی اختیار کرکے یہاں بیٹھا ہوں ،جیسے تم مسافرت کرتے پھرتے ہو اس طرح میں مسافری کرتا تھا، اثناء مسافرت میں میرا گذر ایک شہر میں ہوا، ایک مالدار شخص کو دیکھا بازاروں میں کھڑا ہوا خلق سے بھاؤ تاؤ کرتا تھا اور نہایت سخت گیری عمل میں لاتا تھا اور اپنے گاہکوں کو بہت تکلیف دیتا تھا، میں اس پر سے گذرا، خاموش چلا گیا، اسے کچھ نہ کہا، ہاتف غیب نے آواز دی کیا ہو جاتا اگر تو خدا کے واسطے اس کو دنیائے مردار سے باز رکھتا اور جھڑک دیتا کہ ایسا کام نہ کر، شاید وہ تیرا کہا مان جاتا اور ظلم سے باز آجاتا جس روز سے میں نے یہ آواز سنی ہے نہایت شرمندہ ہوں اور اس صومعہ میں مسکن ہے۔ کبھی اس سے باہر قدم نہیں نکالا، مجھے اس بات کا بڑا خوف ہے کہ روز حشر جب اس معاملہ سے پوچھا جاوے گا تو کیا جواب دوں گا، بس میں نےاس تاریخ سے قسم کھائی کہ کہیں نہ جاوں گا جو مجھے کوئی چیز نظر پڑے اور میں اس کی گواہی میں پکڑا جاوں، جب شام ہوئی غیب سے آبخورہ اور دو جو کی روٹیاں آئیں، یہ چیزیں ہمارے سامنے ہوا میں پیدا ہوئیں، میں نے اور اس بزرگ نے باہم بیٹھ کر افطاری کی، جب میں روانہ ہونے لگا اس بزرگ نے دو سیب مصلی کی نیچے سے نکال کر حوالہ کئے، میں روانہ ہو کر بغداد واپس آیا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا چوتھا مرتبہ جس کو اہل سلوک گناہ کبیرہ تحریر فرماتے ہیں یہ ہے کہ جب بندہ نام باری تعالیٰ کا سنے یا کلام اللہ پڑھے اور اس کا دل نرم نہ ہو اور زیادتی ایمان کی اس کو حاصل نہ ہو، ایسا ضرور ہونا چاہئے اگر وہ عیاذاً باللہ لہو ولعب میں مشغول ہو تو نہایت درجہ خرابی کی بات ہے، قرآن مجید میں آیا ہے اِنَّمَا الْمُوْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبَھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیَاتہ زَادَتَھُمْ اِیْمَا ناً وَعَلیَ ربھم یَتَوَکَّلوُن، امام زاہد نے اس کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ مومن حقیقت میں وہ لوگ ہیں کہ نام خدا کا سن کر ان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے، اعتقاد بڑھتا ہے اور جو شخص قرآن شریف پڑھنے میں ہنستا ہے اسے تم تحقیق جانو کہ وہ منافق ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ پیغمبر خدا صلعم نے فرمایا کہ ایک رو ز میں ایک طایفہ پر گذرا، وہ ذکر خدائے تعالیٰ کا کررہے تھے اور ہنستے جاتے تھے، ان کا دل خدائے تعالیٰ کا نام سننے سے نرم نہ ہوتاتھا۔ میں ٹھہر گیا اور کہا یہ تیسرا گروہ منافقوں کا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا خواجہ ابراہیم خواص ایسی جماعت پر گذرے جو بیٹھے ہوئے ذکر خدائے تعالیٰ کا کررہے تھے، آپ نے نام خدا کا لیا، بمجرد سننے کے ایسا شوق پیدا ہوا کہ سات رات دن تک وجد میں بیہوش رہے، وجود کی بالکل خبر نہ تھی، جب ہوش آتا پھر خدا کا نام منہ پر لاتے یعنی زبان سے کہتے اور پھر بیہوش ہوجاتے، سات رات دن یہی کیفیت رہی، جب ہوش آیا تجدید وضو کی، دو گانہ نماز پڑھی۔ سر سجدہ میں رکھ کر یا اللہ کہا اور پھر بیہوش ہو گئے اور جان بحق ہوئے ۔یہ ذکر فرما کر حضرت خواجہ بھی آنکھوں میں آنسوں بھرلائے اور یہ دو بیتیں پڑھیں۔
عاشق بہوائے دوست بیہوش بود
وزیاد محبت خویش مد ہوش بود
فردا کہ بحشر خلق حیران ماند
نام تو دران سینہ و گوش بود
اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ خانقاہ خواجہ ناصرالدین ابی یوسف چشتی میں کئی درویش صاحب کمال آئے ہوئے تھے، اس زمانہ میں میں بھی وہیں تھا، ایک روز مجلس سماع میں قوالوں نے ان ہی دو بیتوں کو کہنا شروع کیا، مجھے اور ان لوگوں کو سننے اس رباعی سے ایسا اثر ہوا کہ سات روز تک ہم سب بیہوش رہے، جب قوال چاہتے کہ کچھ اور چھیڑیں، ہم منع کرتے اور یہی رباعی کہلواتے، ہنگام وجد میں دو درویش ان صاحب کمالوں میں سے زمین پر گرے، خرقہ زمین پر پڑا رہا اور جسم ان کا غائب ہوگیا، بعد بیان فرمانے ان بے بہا موتیوں کے حضرت خواجہ مشغول بتلا وت ہوئے، خلق اور دعا گو اپنے اپنے مقام پر واپس گئے۔
الحمد للہ علی ذٰلک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.