دلیل العارفین، مجلس (۹)
دلچسپ معلومات
ملفوظات : خواجہ معین الدین چشتی جامع : قطب الدین بختیار کاکی
دولت قدم بوسی میسر ہوئی۔
شیخ اُحد کرمانی اور واحد برہان غزنوی اور خواجہ سلیمان اور شیخ عبدالرحمٰن اور بہت سے صوفیائے عظام حاضر خدمت تھے، گفتگو سلوک میں واقع ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ بعض مشائخ نے سلوک کے سو درجہ رکھے ہیں، اس میں ستر درجہ طے کرنے کے بعد مرتبہ کشف و کرامت کا ہے جو شخص آپ کو اس درجہ میں ظاہر نہ کرے گا وہ تراسی مرتبہ اور طے کر جاوے گا پس سالک کو لازم ہے کہ اپنی ذات کو مرتبہ ہفدہم میں نہ چھوڑے، پورے سو درجہ حاصل کرے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بعضوں کے نزدیک سلوک کے پندرہ درجہ میں پانچواں درجہ کشف و کرامت کا ہے، ہمارے مشائخ نے وصیت کی ہے کہ سالک کو لازم نہیں کہ وہ اپنی ذات کو مرتبہ پنجم میں رکھے بلکہ اسے لازم ہے کہ پورے پندرہ درجہ حاصل کرے بعدہ اپنی ذات کو ظاہر کرے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک دفعہ چند لوگوں نے مجتمع ہوکر خواجہ جنید بغدادی سے پوچھا کہ آپ خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز طلب کیوں نہیں کرتے اگر طلب کریں ہر آئینہ خدائے بزرگ آپ کو عنایت فرماوے، آپ نے جواب دیا میں سب چیز چاہتا ہوں مگر ایک چیز نہیں چاہتا اور وہ چیز یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے چاہی وہ انہیں روزی نہ ہوئی اور حضرت محمد مصطفیٰ کو بلا طلب روزی ہوئی، بدہ کو مانگنے اور طلب کرنے سے کیا کام اگر وہ لائق اس کے ہوگیا ہے خدائے تعالیٰ بے طلب عنایت کرتا ہے، مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، بعدہ اس کے گفتگو دربارہ عشق ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا دل عاشق کا آتش کدۂ محبت ہے جو چیز اس میں پڑیں گی وہ جل جاویں گی، کسی قسم کی آنچ آتش محبت سے زیادہ تیز نہیں ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا حضرت بایزید بسطامی کو درجہ قرب حاصل ہوا، ہاتف نے آواز دی مانگ کیا مانگتا ہے، آج جو مانگے گا وہی تجھے عنایت ہوگا، آپ نے سر سجدہ میں رکھا اور عرض کیا بندہ کو مانگنے سے کیا سروکار جو کچھ بارگاہ الٰہی سے عنایت ہو، وہی بسرو چشم منظور ہے، آواز آئی اے بایزید ! ہم نے آخرت تجھے بخشی، حضرت نے عرض کیا کہ آخرت زندان خانہ دوستاں ہے مجھے نہیں چاہئے پھر آواز آئی اے بایزید ! اگر تو اس پر راضی نہیں ہے ہم نے بہشت، دوزخ ،عرش اور کرسی جو کچھ ہمارے ید قدرت میں ہے عنایت فرمائی، جواب دیا خیراً، پھر ہاتھ نے آواز دی مقصود تمہارا کیا ہے؟ جو تمہیں دیا جاوے، آپ نے عرض کیا خداوندا تو جانتا ہے جو میرا مقصود ہے، آواز آئی اے بایزید ! کیا تو ہم کو طلب کرتا ہے، اگر ہم تجھے طلب کریں پھر تو کیا کرے، جب یہ جواب ملا حضرت بایزید نے قسم کھائی کہ مجھے تیرے عزوجلال کی قسم ہے اگر تو مجھ کو طلب کرے کل کے روز قیامت میں آگ دوزخ کے آگے کھڑا ہوکر ایسی آہ کروں گا کہ تمام دوزخ کی آنچ سرد ہو جاوے گی اور کچھ باقی نہ رہے گی کیونکہ وہ آگ آتش محبت کے آگے کچھ بنیاد نہیں رکھتی، جوں ہی حضرت بایزید نے یہ فرمایا ہاتف نے آواز دی اے بایزید ! جو تیرا مقصد تھا حاصل کیا، اس کے بعد فرمایا ایک شب حضرت رابعہ بصری پر عالم شوق و اشتیاق کا بہت غلبہ ہوا، آپ بیتاب ہوگئے اور زور زورر سے آواز الحریق الحریق، اہل بصرہ نے جب یہ آواز سنی پانی مٹکے لے لے کر دوڑے تاکہ وہ آگ بجھاویں، ایک بزرگ ان کے درمیان میں تھے، انہویں نے کہا کیا نادانی کرتے ہو، رابعہ کی آگ آتشِ دنیا نہیں ہے جو پانی سے سرد ہوجاوے اسے آتش عشق خدا ہے جس نے اس کے دل میں قرار پکڑا ہے، اس وقت اسے ضبط کی طاقت نہ رہی جو فریاد الحریق الحریق کی اور یہ وصال دوست ہونے پر فرو ہوجائے گی، اس کے بعد ارشاد فرمایا منصور حلاج سے پوچھا گیا کہ کما لیت عشق کیا ہے، آپ نے جواب دیا جب معشوق ظلم و ستم پر کمر کسے اور عاشق تمام بلائیں سہتا رہے اور اس حال میں بھی اپنے قاعدہ قدیم پر قائم ہو اور ہمیشہ رضائے معشوق چاہے اور اس کے مشاہدہ میں حد درجہ مستغرق ہو کہ اگر وہ اسے کھولے، باندھے اور مارے تو بھی اسے خیر نہ ہو تو کہا جاوے گا کہ اسے کمالیت عشق حاصل ہے، اس کے بعد حضرت خواجہ بزرگ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور یہ شعر پڑھا۔
خو برویاں چو بندہ بر گیرند
عاشقاں پیش شاں چنیں میرند
اس کے بعد اردشاد فرمایا بغداد میں قبہ بازار پر ایک عاشق کو باندھا اور ہزار کوڑے لگوائے، اس نے ہنگام کوڑا مارنے کے اپنے ہاتھ اور پیروں کو نہ مارا، اس سے اس کا سبب دریافت کیا جواب دیا، میں مشاہدہ جمال دوست میں مصروف تھا، مجھے ضرب کی کچھ خبر نہیں ہوئی، اس کے بعد ارشاد فرمایا حجۃ الاسلام امام محمد عزالی نے اپنی کسی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیار کو بازار بغداد میں دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھے اور قطع کر ڈالے میں اور وہ مطلق نہ رویا بلکہ ہنستا رہا، ایک آدمی نے دریافت کیا تجھے اس چوٹ کا درد محسوس نہیں ہوتا، بوقت تکلیف ہنسنے کا کیا کام ہے، اس نے جواب دیا کہ میں اس وقت دیدار دوست میں محو ہو رہا تھا، مجھے درد تکلیف محسوس نہیں ہوا، خواجہ بزرگ یہ بیان فرما کر رونے لگے اوریہ بیت زبان مبارک سے ارشاد فرمایا۔
او درپے قتل و من در و حیرانم
کان راندن بتعیش چہ نکومی آید
اس کے بعد گفتگو اہل سلوک اور عارفان الٰہی کے بارے میں واقع ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامی مناجات میں مشغول تھے، ناگاہ ان کی زبان مبارک سے یہ کلمات نکلے کیف السلوک الیک، ہاتف نے آواز دی کہ اے بایزید ! طلق نفسک ثلاثا ثم قل ھواللہ یعنی طلاق دے اپنے نفس کو تین مرتبہ اور بعد ازاں میرا بیان اور میری طلب کر۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا طریقت کے راہ چلنے والے کو لازم ہے کہ اول دنیا کو اور بعد اس کے اس چیز کو جو اس دنیا میں ہے ثم ذٰلک اپنے نفس کو طلاق دے، تب اہل سلوک کے راستہ میں قدم رکھے، ورنہ جھوٹا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک بزرگ اہل طریقت اور صاحب عشق تھے، ایک دفعہ مناجات میں گڑ گڑا کر یہ کہنے لگے الٰہی اگر تو مجھ سے حساب میری عمر کا جو ستر برس کی ہے طلب کرے گا میں تجھ سے حساب ستر برس روز الست کا چاہوں گا، یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسی الستُ بربکم کی وجہ سے ہے، اس کا جواب فوراً ہاتف سے سنا۔ تمہاری خواہش سے جواب دیا جاتا ہے، میں سات امتوں سے سب کے ذرے ذرے کروں گا اور ہر ذرہ کو دکھلاؤں گا، حساب ستر ہزار برس کا کنارہ رکھ دیا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک عارف ہر روز یہ سخن کہا کرتا تھا ہر کوئی اپنے کام میں مشغول ہے مجھے کوئی کام نہیں، مجھ سے اب تک یہ نہ ہوسکا کہ اپنی ذات کو فدائے حق سبحانہ کرتا مگر یہ میں کبھی اپنی خواہش سے نہ کروں گا، اگر میں چاہوں ساتوں زمینوں کو الٹ دوں، اس کے بعد فرمایا ایک بزرگ غلبات شوق میں کہتے تھے، اس نے مجھے دیکھنا چاہا دیکھ لیا، میں نے کبھی یہ نہ چاہا کہ اسے دیکھوں کیونکہ بندہ کو چاہنے سے کیا کام، ایک دفعہ ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ مانگنے سے کچھ نہیں ملتا، جب آدمی اس لائق ہو جاوے مل جاتاہے، پیک حق فوراً پہنچا دیتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک بزرگ فرماتے تھے کہ جب آدمی آپے سے باہر ہوا، غور کر دیکھا عشق، عاشق اور معشوق سب ایک ہیں، اس کے بعد ارشاد فرمایا بندہ جب کامل ہوجاتا ہے مقامات سلوک اس سے طے ہوجاتے ہیں، وہ اپنا کام بہت کرنے لگتا ہے، اگر اس نے کل مقامات طے کئے راہ پر ایک مقام حیرت ہے وہاں رہ جاتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ خواجہ بایزید فرماتے ہیں کہ تیس برس تک میں حق کے ساتھ رہا اور حق میرے ساتھ، اب میں اپنی ذلت کا آئینہ ہوں یعنی جو کچھ میں تھا نہیں رہا، تمام کبرومنی اٹھ گئی اب جبکہ میں ہی نہیں حق تعالیٰ خود آئینہ ذات خویش ہے، جو کچھ میں کہتا ہوں آئینہ خویش ہوں یعنی حق تعالیٰ مجھ سے کہلواتا ہے، میں اپنی جانب سے کچھ نہیں کہتا، اس کے بعد ارشاد فرمایا خواجہ بایزید بسطامی فرماتے ہیں میں مدتوں تک مجاور بارگاہ رہا کچھ حاصل نہ ہوا، اب جو یہاں پہنچا ہوں کوئی زحمت نہیں، اہل دنیا دنیا کے کام میں مشغول، اہل آخرت آخرت کے سر انجام میں مصروف، مدعی اپنے دعوے میں مالوف، صاحب تقوی تقوی میں گرفتار، بہت سے لوگ کھانے پینے راگ ناچ میں گرفتار، مگر وہ قوم جو آگے شاہنشاہ کے ہے دریائے عجز میں ڈوبی ہوئی ہے، اس کے بعدیہ حکایت بیان فرمائی کہ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں مدت سے میں گرد خانہ کعبہ کے طواف کر رہا ہوں، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ خواجہ بایزید فرماتے ہیں جب میں واصل بحق ہوا ایک رات عرض کیا بایزید دل صادق طلب کرتا ہے صبح کے وقت آواز آئی اے بایزید میرے سوائے دوسری چیز بھی طلب کرتا ہے اگر میری طلب میں ہے تجھے دل سے کیا کام، بعد اس کے ارشاد فرمایا ادنیٰ درجہ عالم ان کا یہ ہے کہ اس عالم کو اپنی دو انگلیوں کے حلقہ میں دیکھے، بعدہ فرمایا خواجہ بایزید بسطامی سے پوچھا گیا کہ آپ نے طریقت میں کہاں تک دستگاہ حاصل کی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا میرا رتبہ یہاں تک پہنچا ہے کہ اس دنیا کو اپنی دو انگلیوں کے حلقہ میں دیکھتا ہوں، بعد اس کے ارشاد فرمایا، طاعت الٰہی میں عجیب مراتب ہیں، یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طاعت کرنے والا طاعت میں شاداں و فرحاں رہے، اسے خوش رہنے سے قرب کے درجہ طے ہوں گے، اس کے بعد ارشاد فرمایا سب سے کمتر درجہ عارفوں کا یہ ہے کہ صفات الٰہی کا ان میں ظہور ہو، حضرت رابعہ بصری فرمایا کرتی تھیں الٰہی اگر خلق مجھے آتش سوزاں سے سر تا پا جلاوے اور میں اس پر صبر کروں تو ترے دعویٰ محبت میں دروغ گو ہوں، اگر تمام خلق کے گناہ معاف ہو جاویں تو یہ تیری رحمت کے آگے کچھ مال نہیں، اس کے بعد ارشاد فرمایا، عجب کرنا اہل سلوک کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے بلکہ گناہ کبیرہ سے زیادہ بدتر ہے، بعدہ ارشاد فرمایا کمال درجہ عارف کا محبت الٰہی میں یہ ہے اول اپنے دل میں نور پیدا کرے اگر کوئی شخص کرامت کا سوال کرے اسے کرامت باذن حق دکھلانی چاہئے، اس کے بعد ارشاد فرمایا میں اور خواجہ عثمان ہرونی اور شیخ اُحد الدین کرمانی مسافرت مدینہ طیبہ میں ہم سفر تھے، شہر دمشق میں پہنچے، جامع مسجد دمشق کے آگے بارہ ہزار پیغمبروں کا روضہ ہے زیارت کی، چند روز ٹھہرے، مسجد میں خواجہ محمد عارف نام ایک بزرگ کامل رہتے تھے، ایک روز ہم ان کی مجلس میں بیٹھے تھے۔
حکایت اس امر میں ہوئی کہ جب کوئی کسی خیر کا دعویٰ کرے اور اظہار اس کا نہ کرے کون تعین کرے گا، اس کے بعد خواجہ محمد عارف نے فرمایا بروز قیامت حضرات صوفیا عذر کریں گے اور تونگر اور دیگر لوگوں کو عذاب و عقاب ہوگا، اس مقولہ میں خواجہ محمد عارف اور کسی دوسرے شخص سے بحث ہوئی، اس نے دریافت کیا یہ بات کس کتاب میں لکھی ہے، خواجہ عارف کو نام کتاب کا یاد نہ تھا، تھوڑی دیر سوجا، اس مرد نے کہا جب تک مجھے کتاب میں لکھا نہ دکھاؤ گے میں یقین نہیں کروں گا، آپ نے سر آسمان کی جانب اٹھا یا اور کہا مجھے نام کتاب کا یاد نہیں رہا، بار الہا اسے وہ نوشتہ کتاب دکھلا دے، فی الفور فرشتوں کو حکم ہوا، فرشتوں نے وہ کتاب جس میں وہ نوشتہ تھا کھول کر اور وہ مقام جہاں وہ بات لکھی تھی نکال کر دکھا دیا، جو ان اپنے اعتراض کرنے سے بہت نادم ہوکر خواجہ عارف کے قدموں پر گرا اور مرید ہوا، بعد اس کے خواجہ عارف نے فرمایا جو واصل الی اللہ اس مجلس میں ہو اسے لازم ہے کوئی کرامت دکھلائے، فی الفور حضرت مخدومنا و مخدوم الکل خواجہ عثمان ہرونی اٹھے اور ہاتھ زیر مصلیٰ ڈال کر کئی اشرفیاں نکالیں، ایک فقیر حاضر تھا، اس سے کہا یہ اشرفیاں لے جاؤ اور درویشوں کے واسطے نان و شوربا لاؤ، جب خواجہ عثمان ہرونی کرامت دکھلاچکے حضرت شیخ احدالدین کرمانی کھڑے ہوئے، آپ کے متصل چوب خشک کھڑی تھی گڑی ہوئی، آپ نے اس پر ہاتھ مارا، بمجرد ہاتھ مارنے کے وہ خالص سونے کی ہوگئی جب ہر دو حضرات کرامات دکھلا چکے صرف میں (جامع ملفوظات قطب الدین بختیار اپنی ذات سے مراد لیتے ہیں) باقی رہ گیا، میں نے پیر کے آداب سے یہ نہ چاہا کہ اظہار کرامت کیا جاوے، حضرت مرشدی فوراً میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا تم کیوں خاموش ہو وہاں ایک بھوکا فقیر بیٹھا ہوا تھا،
میں نے اپنے خرقہ میں ہاتھ ڈالا اور چار روٹیاں نکالیں اور فقیر کو دیں حالانکہ میرے کملا میں ایک بھی روٹی نہ تھی۔ وہ درویش اور خواجہ محمد عارف کہنے لگے جب تک درویش کو اس قدر استطاعت نہ ہو اسے درویش نہ کہنا چاہئے۔ اس کے بعد فرمایا ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے جیسے میں نے دنیا کو دشمن سمجھا اس سے کنارہ کیا اور خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اس قدر محبت مجھ پر مستولی ہوئی کہ مجھے اپنے وجود سے بھی دشمنی ہوگئی اور موت کو درمیان سے اٹھادیا۔ یعنی اس حدیث موتوا قبل ان تموتوا پرعمل کرکے انس بقا اور لطف حق حاصل کیا۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا،قیامت کے روز عاشقوں کے ایک گروہ کو حکم ہوگا بہتا میں جاؤ۔ وہ عرض کریں گے یا الٰہی ہم بہشت کا کیا کریں۔ بہشت اس کو عطا فرما جس نے تیری عبادت بہشت کے واسطے کی ہو۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا جو عاشق ذات الٰہی ہے اسے بہشت سے کیا کام ۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا۔ گناہ سے اس قدر تم کو نقصان نہ پہنچے گا جتنا ایک مسلمان بھائی کو خوار اوربے حرمت کرنے سے پہنچے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک بزرگ کہا کرتے تھے اہل دنیا معذور اور اہل آخرت درمیان دوستی حق کے مسرور ہیں اور اہل معرفت کا کیا کہنا ہے وہ تو نورٌ علی نور ہیں۔ اس رمز سلوک خوب جانتے ہیں اور عبادت اہل معرفت کی پاس انفاس ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا عارف ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ خدائے بزرگ کی طرف رجوع کررہاہے۔ جب آنکھ بند کرے گا طلب حق میں یہاں تک مشغول رہے گا کہ صور اسرافیلؑ پھونکے جانے سے اسے خیر نہ ہوگی۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا خواجہ ذوالنون مصری قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ علامت شناخت حق کی یہ ہےکہ دنیا سے بھاگے اور خاموشی اختیار کرے ۔جب وہ خدا کو پہچانے گا گااسے خلق سے نفرت آوے گی ۔بعد اس کے ارشاد ہوا جویہ دعوے کرے کہ مجھے معرفت حق حاصل ہوئی اور اس نے دنیا سے تنہائی حاصل نہ کی جانو کہ وہ جھوٹا ہے۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا عارف وہ ہوتاہے جو دل سے ماسوائے اللہ باہر نکالے اور حصے بیگانہ ہو۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا کمالیت عارف کی یہ ہے کہ راہ دوست میں جل بجھے ۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا عارف اسی قدر سخنان معرفت کہہ سکتاہے جس قدر اس کو عبور ہے۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا سوز اور فریاداہل عشق کی اس وقت تک رہتی ہے جب تک وصال معشوق کا نہ ہوجاوے۔عارف کو کچھ سوز وغیرہ نہیں ہوتا کیونکہ معرفت اسے حاصل ہوچکی ہے۔ اور فرمانے لگے جس طور دریائے رواں کے پانی میں بہنے کی آواز آتی ہے اور جب اس دریا کا پانی دوسرے دریا میں مل جاتاہے اسے فریاد سے سروکار نہیں رہتا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے زبانی حضرت خواجہ عثمان ہرونی قدس سرہٗ کے سنا ہے کہ دنیا میں کس قدر محبان الٰہی ایسے ہوتے ہیں جس کے سبب سے وجود اس عالم کا ہے۔ اگر وہ نہ ہو دین عالم ناپید ہوجاوے اور اہل عالم عبادت نہ کریں۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا، ایک بار خواجہ عبداللہ خفیف بھولے سے کار دنیا میں مصروف ہوگئے۔ فوراً یاد آیا یہ بات خلاف وعدہ دوست ہے۔ اس کے بعد قسم کھائی جب تک جیوں گا کوئی کام دنیا کا نہ کروں گا۔ اس کے بعد پچاس برس تک زندہ رہے اور کوئی کام دنیا کا نہ کیا۔ بعد اس کے ولولہ عشق حضرت بایزید بسطامی ؒ کی حکایت کی کہ ہر روز بعد نماز صبح ایک پاؤں سے کھڑے ہوتے اور فریاد کرتے۔ ایک وقت یہ آواز آئی یوم تبدل الارض یعنی یاد کر وہ وقت جب کہ اس زمین کو لپیٹیں گے اور دوسری زمین لاویں گے اور فراق وصال سے بدل ہوگا۔ اس کے بعد اس طرح کی دوسری روایت بیان فرمائی کہ ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامی نے صحرائےبسطام میں وضو کیا اور فریاد کرنے لگے جہاں تک مجھے دیکھتاہے معلوم ہوتاہے کہ اس صحرا میں عشق برسا ہے۔ ہر چند میں قدم باہر نکالنا چاہتاہوں نہیں نکلتا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا عشق اور محبت کی راہ جدا گانہ ہے جو کوئی اس راستہ میں آیا گمنام ہوا اور فرمایا اہل عرفان کی زبان سے سوائے ذکر حق کے دوسری بات نہیں نکل سکتی۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا کم تر درجہ عارفوں کا یہ ہے کہ جو کچھ انہیں مال ومتاع سے پہنچے سب پر تبرّا کریں۔ یہ فرماکر حضرت خواجہ آب دیدہ ہوئے اور فرمایا کہ کم تر درجہ عارفوں کا یہ ہے اگر وہ دونوں جہانوں سے ان چیزوں کو جو انہیں عاصل ہو بذل حق کریں تو بھی تھوڑا ہے۔بعد اس کے ارشاد فرمایا اہل محبت اگر چہ مہجور ہیں مگر کام ان کا اور طرح کاہے۔اگر وہ سوئے ہیں یا جاگتے ہیں طالب و مطلوب ہیں اور طلبگاری اور دوست داری اپنے سے فارغ ہیں اور مشاہدہ میں مشغول ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوا خواجہ سمنون محب نے فرمایا ہے کہ اولیاؤں کے دل مطلع ہیں دلہائے دید سے کہ انہوں نے بار محبت کے اٹھانے میں کوتاہی نہ کی دنیا سے باز رہے اور مشغول عبادت میں ہوئے۔ پس بار کرنا خاص امر کا نہیں اٹھا سکتا کہ ملال مجاہدات اور ریاضات کا ہوتاہے۔ اس کے بعدارشاد فرمایا عارف وہ ہے جو کہ کوشش کرکے ایک دم حاصل کرے اور عارف دم وہ ہے کہ ذکر خدائے تعالیٰ کرے اور اپنی تمام عمر فدا اس دم کی کرے اگر ایسا دم پایا جاوے کیا کہنا ہے برسوں زمین وآسمان میں ڈھونڈھنے سے ایسا دم حاصل ہونا مشکل ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا میں نے زبانی اپنے پیر حضرت خواجہ عثمان ہرونی قدس سرہ کے سنا ہے کہ جو شخص مندرجہ ذیل تین خصلتیں رکھتاہو، خدائے تعالیٰ اسے دوست رکھتاہے ۔اول سخاوت مانند دریا کے ،دوم شفقت مانند آفتاب کے، سوم تواضع مثل زمین کے۔ بعدہ فرمایا درمیان اہل سلوک کے ایسا علم ہے اگر ہزارہا عالم جاننا چاہیں انہیں اس علم سے ذرہ کے برابر واقفیت نہیں ہوسکتی اور زہد ایک طاعت ہے اس سے زاہدوں کو بھی خبر نہیں بالکل بےخرل اور غافل ہیں اور یہ اسرار الٰہی ان کو سوائے اہل محبت اور اہل عشق کے اور کوئی نہیں جانتا اور یہ سر دو نوں عالم سے باہر ہیں۔ بعد ارشاد فرمایا جو شخص ان دونوں عالم میں ثابت رہا انہیں جانے گا۔ فقط۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.