Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

فوائدالسالکین، دوسری مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

فوائدالسالکین، دوسری مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

MORE BYقطب الدین بختیار کاکی

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : قطب الدین بختیار کاکی جامع : بابا فرید

    ہفتہ کے روز ماہ شوال 584ھ کو پابوسی کا شرف حاصل ہوا، قاضی حمیدالدین ناگوری، مولانا علاؤالدین کرمانی اور مولانا شمس الدین کے علاوہ اور صاحب بھی خدمت میں حاضر تھے، سلوک اور اہل سلوک کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ راہ سلوک کے سالک وہ ہیں جو سر سے پاؤں تک دریائے محبت میں غرق ہیں، کوئی لحظہ اور گھڑی ایسی نہیں گزرتی کہ ان پر عشق کا مینہ نہ برسے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ عارف وہ شخص ہےکہ ہر لحظہ اس میں عالم اسرار سے ہزارہا اسرار پیدا ہوں اور عالم سکر میں رہے اور اگر اس حالت میں اٹھارہ ہزار عالم اس کے سینے میں ڈالے جائیں تو بھی اسے خبر نہ ہو۔

    اس کے بعد اسی موقع پر فرمایا کہ ایک مرتبہ سمرقند میں میں نے ایک درویش کو دیکھا جو عالم تحیر میں تھا، میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کب سے یہ بزرگ عالم تحیر میں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ بیس سال سے، الغرض میں کچھ مدت ان کی خدمت میں رہا، ایک دفعہ اسے عالم صحو میں پاکر اس سے پوچھا کہ جس وقت آپ عالم تحیر میں ہوتے ہیں تو کیا تمہیں آمدو رفت کی خبر بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ درویش نے کہا کہ اے یارو؟ جس وقت درویش دریائے محبت میں غرق ہوتا ہے تو جو کچھ تجلیات کے اسرار اس پر نازل ہوتے ہیں، اسے اٹھارہ ہزار عالم کی بھی خبر نہیں ہوتی، پس یہ عشق بازی کی راہ ہے جس نے اس میں قدم رکھا وہ جان سلامت نہ لے گیا۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ جب مہتر حضرت یحییٰ کے گلے پر چھری پھیری گئی تو انہوں نے چاہا کہ فریاد کرے، حکم ہوا کہ اے یحییٰ ! اگر تونے دم مارا تو یاد رکھ تیرا نام اپنے محبوں سے کاٹ ڈالوں گا پھر یہ حکایت فرمائی کہ جب مہتر حضرت ذکریا کے سر مبارک پر آرہ چلنے لگا تو انہوں نے چاہا کہ فریاد کریں لیکن حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ جناب الٰہی سے یہ حکم ہوا ہے کہ اگر تو نے دم مارا تو تیرا نام پیغمبروں کے دفتر سے مٹا دیا جائےگا۔

    اسی وقت خواجہ صاحب قطب الاسلام آب دیدہ ہوئے اور فرمایا کہ جو شخص محبت کا دعویٰ کرے اور معصیت کے وقت فریاد کرے وہ در حقیقت سچا دوست نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہے اس واسطے کہ دوستی اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ دوست کی طر ف سے آئے اس پر راضی رہے اور لاکھوں شکر بجا لائے اور دوسرے یہ کہ شاید اسی بہانے سے یاد کرے۔

    اس کے بعد اسی موقع پر فرمایا کہ حضرت رابعہ بصری کا یہ طریقہ تھا کہ جب آپ پر کوئی بلا نازل ہوتی تو آپ خوشی مناتیں اور کہتیں کہ آج اس بڑھیا کو دوست نے یاد کیا اور جس روز مصیبت نازل نہ ہوتی تو آپ رو کر کہتیں کہ آج کیا ہوگیا اور مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی کہ دوست نے اس بڑھیا کو یاد نہیں کیا۔

    اس کے بعد فرمایا کہ میں نے شیخ الاسلام شیخ معین الدین کی زبانی سنا ہے کہ راہ سلوک میں یہ بات ہے کہ جو شخص محبت کرے اور محبت کا دعویٰ کرے وہ دوست کی مصیبت کو خواہش سے چاہتا ہے کیونکہ اہل معرفت کے نزدیک دوست کی مصیبت دوست کی رضا ہے۔

    پھر فرمایا کہ جس روز دوست کی مصیبت ہم پر نازل نہیں ہوتی ہے ہم کو معلوم ہوجاتا ہے آج نعمت ہم سے چھن گئی اس واسطے کہ راہ سلوک میں دوست کی رحمت دوست کی مصیبت ہوتی ہے۔

    مردان غیب کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، آپ نے فرمایا کہ جس آدمی سے مردان غیب کی ملاقات ہوتی ہے پہلے وہ اسے آواز دیتے ہیں، جب وہ اس میں پکا ہوجاتا ہے تو پھر اپنے تئیں اس پر ظاہر کرتے ہیں پھر اسے مجلس سے بلالیتے ہیں۔

    فرمایا کہ اس دعاگو کا ایک بار شیخ سنجری جو ہم خرقہ بھی تھا وہ از حد مشغول حق تھا، چنانچہ اس سے ملاقات بھی کرتے تھے، ایک دن وہ یاروں کے ہمراہ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور میں بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے ایک شیخ کے آنے پر لبیک کہا، انہوں نے کہا آتے ہو یا ہم چلے جائیں جونہی کہ اس نے یہ بات سنی مجلس سے اٹھ بیٹھا اور آواز کی طرف چلا گیا ہم سے دور یہاں تک کہ نظر سے غائب ہوگیا، مجھے معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا اور اسے کہاں لے گئے، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ تقواہٗ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ اگر چلنے والا ایک خاص سمت میں چلتا ہے اور اس کا یقین کامل ہے اور کمالیت کی امید رکھتا ہے تو یقینا وہ کمالیت کو پہنچ جاتا ہے۔

    اس کے بعد اسی موقع پر فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اور قاضی حمیدالدین ناگوری خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، وہاں پر شیخ برہان الدین نام ایک بزرگ جو خواجہ ابوبکر شبلی کا غلام تھا اور ازحد بزرگ تھا، خانۂ کعبہ کا طواف کرنے آیا تھا، ہم نے بھی اس کے پیچھے اس طرح طواف کرنا شروع کیا کہ جہاں وہ قدم رکھتا ہم بھی وہیں رکھتے، چونکہ وہ پیر روشن ضمیر تھا سمجھ گیا، اس نے کہا میری ظاہری متابعت کیوں کرتے ہو؟ اگر کرنی ہے تو باطنی کرو اور جو ہمارا عمل ہے اس پر کاربند رہو، ہم دونوں نے اس سے پوچھا کہ آپ کون سا عمل کرتے ہیں، شیخ مذکور نے کہا کہ ہم ایک دن میں بیس ہزار مرتبہ قرآن شریف ختم کرتے ہیں، ہم دونوں نے اس بات سے بڑا تعجب کیا کہ یہ بزرگوار کیا کہتا ہے، ہم نے خیال کیا کہ اس نے شاید ہر سورۃ کا کوئی خاص حصہ زبانی یاد کیا ہوگا، اتنے میں اس نے سر اٹھا کر مجھے کہا خبردار ! ایسا نہیں بلکہ ہم حرف بحرف پڑھتے ہیں، مولانا علاؤالدین کرمانی بھی حاضر مجلس تھے، انہوں نے فرمایا کہ یہ کرامت ہے۔

    خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ تقواہٗ نے فرمایا کہ ہاں ! جو بات عقل میں نہ آسکے وہی کرامت ہوتی ہے، اس کےبعد خواجہ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا کہ جو شخص حقیقت کے مرتبے پر پہنچا ہے اپنی نیک اعمالی کے باعث پہنچا ہے اگر چہ فیض سب پر ہوتا ہے لیکن کوشش لازم ہے۔

    اس کے بعد مجلس میں آنے اور پیر کی خدمت میں با ادب بیٹھنے کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ تقواہٗ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ جب کوئی شخص مجلس میں آئے تو جہاں خالی جگہ دیکھے وہیں بیٹھ جائے کیونکہ آئندہ جگہ بھی اس کی وہی ہے، اس کے بعد فرمایا کہ ایک مرتبہ دعاگو اجمیر میں شیخ معین الدین حسن سنجری کی خدمت میں مولانا صدرالدین کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، مولانا صدرالدین نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے اور اصحاب گردا گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی باہر سے آئے، ایک نے اس حلقہ میں جگہ پائی وہیں بیٹھ گیا، دوسرا جس نے اس حلقہ سے باہر جگہ دیکھی وہ وہیں بیٹھ گیا اور تیسرے نے جگہ نہ پائی تو واپس چلا گیا، اسی وقت حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے حلقہ میں جگہ پائی ہے اس کو ہم نے اپنی پناہ میں لے لیا اور جو طبقے سے پیچھے بیٹھا ہے ہم اس سے بہت شرمندہ ہیں اور قیامت کے دن ہم اسے رسوا نہیں کریں گے اور تیسرا جو چلا گیا ہے وہ ہماری رحمت سے دور ہوگیا اور محروم رہا، قاضی حمیدالدین ناگوری نے عرض کیا جو شخص چلا گیا اگر وہ نہ چلا جاتا تو کیا کرتا۔

    خواجہ قطب الاسلام نے فرمایا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان مجلس میں جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے اور اسی جگہ بیٹھا رہے کیونکہ آئندہ جگہ بھی وہی ہوتی ہے یا حلقہ کے پیچھے بیٹھ جائے لیکن ہر حال میں دائرہ کے درمیان نہ بیٹھے اس واسطے کہ رسول اللہ سے حدیث ہے کہ ابواللیث سمرقندری کی تنبیہ میں لکھی گئی ہے کہ جو شخص مجلس کے درمیان میں بیٹھتا ہے وہ لعنتی ہے، پھر پیر کی دعا اور بددعا کے بارے میں بات شروع ہوئی، آپ نے فرمایا زبان مبارک سے کہ دعا دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نیک اور دوسری بد، کسی کے حق میں بددعا نہیں کرنی چاہئے، فرمایا ایک مرتبہ شیخ معین الدین حسن سنجری قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر تھے، انہوں نے یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک روز میں اپنے پیر شیخ عثمان ہارونی کے سامنے کھڑا تھا کہ شیخ برہان الدین نام ایک درویش جو شیخ معین الدین حسن سنجری کا ہم خرقہ تھا، اپنے ہمسایہ سے تنگ ہوکر اس کا گلہ کرتا ہوا شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا، شیخ نے فرمایا بیٹھ جا، وہ بیٹھ گیا، پھر شیخ نے پوچھا کہ میں تجھے کچھ ملول سا دیکھتاہوں، اس نے سر جھکا کر عرض کیاکہ میرا ہمسایہ ہے، میں اس سے ہمیشہ تنگ رہتا ہوں، اس واسطے کہ اس نے اپنا مکان بلند بنوایا ہے اور ہر بار چھت پر چڑھتا ہے اور اس دعاگو کے گھر کی بے ستری ہوتی ہے جو نہی اس نے یہ عرض کیا فوراً شیخ عثمان نے فرمایا کہ کیا اسے معلوم ہے کہ تم ہم سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں ! خواجہ نے دعا کی کہ کیا وہ چھت سے نہیں گرتا اور اس کی گردن نہیں ٹوٹتی وہ فقیر آداب بجالا کر گھر واپس گیا، ابھی آدھا راستہ گیا ہوگا کہ محلے والوں کا شور سنا کہ درویش کا فلاں ہمسایہ چھت سے گر پڑا ہے اور اس کی گردن ٹوٹ گئی ہے۔

    پھر اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اجمیر میں شیخ معین الدین کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور ان دنوں پتھورا (پرتھوی راج) زندہ تھا اور کہا کرتا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو جو یہ فقیر یہاں سے چلا جائے، یہ بات وہ ہر شخص کو کہا کرتا تھا، ہوتے ہوتے یہ خبر شیخ معین الدین نے بھی سن لی اور دریش بھی اس وقت موجود تھے، آپ اس وقت حالت سکر میں تھے، فوراً آپ نے مراقبہ کیا اور مراقبہ میں ہی آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات نکلے کہ ہم نے رائے پتھورا کو زندہ ہی مسلمان کے حوالے کیا، چنانچہ تھوڑے عرصے بعد سلطان شہاب الدین محمد غوری کا لشکر چڑھ آیا اور شہر کو لوٹ مار کرنے کے بعد پتھورا کو زندہ پکڑ کر لے گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درویش ایک پیالے میں آگ رکھتے ہیں یعنی نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں اور دوسرے میں پانی یعنی نفع پہنچا سکتے ہیں، خواجہ قطب الدین ابھی یہی فوائد بیان کر رہے تھے کہ ملک اختیارالدین اس قصبے کا مالک آیا اور آداب بجا لاکر بیٹھ گیا اور کچھ نقدی خواجہ قطب الدین کی نذر کی لیکن شیخ نے حاضرین کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ہمارے خواجگان کی رسم ہے کہ ہم کسی کی نذر قبول تو کرلیتے ہیں لیکن یہ نقدی اوروں کے لئے ہے، الغرض اس بوریئے کو جس پر کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اٹھایا اور ملک اختیارالدین اور حاضرین کو دکھایا جب انہوں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بوریئے کے نیچے سونے کی تھیلیوں کی نہر جاری ہے، شیخ نے فرمایا کہ اے اختیارالدین ! جس شخص کو الٰہی خزانہ سے اس قدر مال و زر دے وہ اختیارالدین کا زر و مال کس طرح قبول کرسکتا ہے، اے شمس الدین ! جا یہ اسی کو دے دے اور کہہ دے کہ خبردار ! دوبارہ درویشوں کے ساتھ ایسی گستاخی سے پیش نہ آنا نہیں تو نقصان اٹھائے گا۔

    پھر فرمایا کہ ایک دفعہ شیخ معین الدین، شیخ اوحد کرمانی، شیخ شہاب الدین سہروردی اور دعاگو ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ انبیا کا تذکرہ شروع ہوا، اس وقت آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ سلطان شمس الدین خدا اس کی دلیل کو روشن کرے، ابھی بارہ سال کا تھا اور ہاتھ میں پیالہ لئے جارہا تھا، بزرگوں کی نگاہ جب اس پر پڑی تو فوراً شیخ معین الدین کی زبان مبارک سے نکلا کہ یہ لڑکا جب تک دہلی کا بادشاہ نہ ہوگا خدا اسے دنیا سے نہ اٹھائے گا، پھر آپ نے فرمایا کہ نیک دعا بہت اچھی ہوتی ہے خصوصاً جو بزرگوں کی زبان سے نکلے پھر بیعت کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ بیعت دوبارہ ہوسکتی ہے اس واسطے کہ اگر کوئی بیعت سے پھر جائے یا اس میں شک کرے تو ازسرنو بیعت کرلینی جائز ہے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ شیخ الاسلام برہان الملۃ والدین کے روضہ مبارک میں میں نے لکھا ہوا دیکھا ہے کہ خواجہ حسن بصری کی روایت کے مطابق جب حضرت رسالت پناہ نے مکہ فتح کرنے سے پیشتر جب مکے کا ارادہ کیا تو حضرت عثمان ذوالنورین اور حضرت علی عنہ کو بھیجا کہ مکے والوں کی رسالت کرو، اسی اثنا میں دشمنوں نے حضرت رسالت پناہ کی خدمت میں عرض کیا کہ دشمن نے حضرت عثمان ذوالنورین اور حضرت علی کو قتل کر دیا ہے، جب رسول اللہ نے سنا تو سارے اصحاب کو بلاکر فرمایا کہ آؤ ! از سر نوبیعت کریں اور مکہ جائیں اور ہم سب یکساں لڑائی کریں۔

    یاروں نے حکم کے مطابق نئے سرے سے بیعت کی اور اس وقت آپ درخت کے تلے تکیہ لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں، ان میں ایک صحابی تھا جسے ابن رکوع کہتے ہیں وہ بھی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے بھی از سر نو بیعت کرو، پیغمبر نے فرمایا کہ تو نے اس سے پہلے بیعت کی ہوئی ہے، اس نے عرض کیا یا حضرت ! چونکہ اس وقت ہم سب یکساں حرمت سے جاتے ہیں اس لئے واجب ہے کہ آپ نئے سرے سے ہمیں بیعت کریں، پیغمبر نے اسے بیعت سے مشرف فرمایا پھر خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک سے فرمایا کہ یہی سبب ہے جو ازسرنو بیعت کرسکتے ہیں، دعاگو نے التماس کیا کہ اگر پیر نہ ہوتو پھر کیا کرے، آپ نے فرمایا کہ اپنے شیخ کا جامہ ہی سامنے رکھ لے اور بیعت کرلے پھر فرمایا کہ کوئی تعجب نہیں کہ شیخ معین الدین بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے اور اسی سبب سے یہ دعاگو بھی اسی طرح بیعت کرتا ہے۔

    اس کے بعد مریدوں کے حسن اعتقاد کے بارے میں ذکر شروع ہوا، آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک درویش کو بغداد میں کسی قصور کے بدلے پکڑا اور قتل گاہ میں کھڑا کردیا گیا جب جلاد مقتل کی طرف آیا اور چاہا کہ اس پر وار کرے، اس درویش کی نظر پیر کی قبر پر پڑی، فوراً کعبہ سے منہ پھیر کر اپنے شیخ کی قبر کی جانب رخ کیا، جلاد نے اس سے پوچھا کہ تونے قبلہ سے منہ کیوں پھیرا؟ اس نے کہا کہ میرا منہ اپنے قبلہ کی طرف ہےتو اپنا کام کر، درویش اور جلاد میں ابھی یہی گفتگو ہو رہی تھی سردار کا حکم آیا کہ اس درویش کو چھوڑ دو، خواجہ قطب الاسلام نے آب دیدہ ہوکر فرمایا سچا عقیدہ ایسی چیز ہے کہ اس نے درویش کو قتل ہونےسے بچا لیا۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ خواجہ معین الدین اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور سلوک کی باتیں ہورہی تھیں، جب آپ دائیں طرف دیکھتے اٹھ کھڑے ہوتے، تمام لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ شیخ صاحب کس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، چنانچہ اس طرح انہوں نے کئی مرتبہ قیام کیا، الغرض جب سب دوست اور لوگ وہاں سے چلے گئے تو ایک دوست جو شیخ کا منظور نظر تھا، اس لئے موقعہ پاکر عرض کیا کہ آپ جس وقت ترغیب دیتے تھے تو ہر مرتبہ آپ قیام کیوں کرتے تھے اور کس کی تعظیم کے لئے یہ قیام کیا تھا، شیخ معین الدین نے فرمایا کہ اس طرف میرے پیر یعنی عثمان ہارون کی قبر ہے، پس جب اپنے پیر کی قبر کی طرف دیکھتا تھا تعظیم کے لئے اٹھتا تھا، پس میں اپنے پیر کے روضہ کے لئے قیام کرتا تھا پھر فرمایا کہ مرید کو اپنے پیر کی موجودگی اور غیر موجودگی میں یکساں خدمت کرنی چاہئے چنانچہ جس طرح اس کی زندگی میں خدمت کرتا تھا، اسی طرح اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے لئے لازم ہے بلکہ مناسب ہے کہ اس سے بھی زیادہ کرے۔

    پھر سماعت کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ دعاگو کے نزدیک سماع میں کچھ ایسا ذوق ہے کہ مجھے کسی چیز میں لطف نہیں آتا جتنا کہ سماع میں آتا ہے پھر فرمایا کہ صاحب طریقت اور مشتاق حقیقت لوگوں کو سماع میں اس قسم کا ذوق حاصل ہوتا ہے جیسا کہ بدن میں آگ لگ اٹھتی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو لقا کہاں ہوتا اور لقا کا لطف ہی کیا ہوتا اس کے بعد فرمایا کہ میں اور قاضی حمیدالدین ناگوری ایک مرتبہ شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں تھے، وہاں سماع ہو رہا تھا اور قوال یہ قصیدہ گا رہے تھے۔

    کشتگان خنجر تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانے دیگر است

    ترجمہ : خنجر تسلیم کے مقتولوں کو ہر وقت غیب سے ایک اور ہی جان ملتی ہے۔

    ہم دونوں میں اس بیت نے کچھ ایسا اثر کیا کہ ہم تین دن رات اسی بیت میں مدہوش رہے جب ہم گھر آئے پھر بھی قوالوں سے یہی سنتے، چنانچہ تین دن رات اور بھی ہم اس بیت کی حالت میں رہے کہ ہمیں اپنے آپ کی کچھ سدھ بدھ نہ رہی تھی، اس طرح سات دن اور سات راتیں ہم نے اسی بیت میں گزار دیں اور ہر مرتبہ جب گانے والے یہ گاتے تو ہم پر ایک خاص قسم کی حالت طاری ہوتی جس کا بیان نہیں کرسکتے۔

    پھر آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور قاضی حمیدالدین ناگوری ایک شہر میں گئے، وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ بارہ آدمیوں کی ایک جماعت عالم حیرانی میں کھڑی ہوئی ہے اور ان کی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی ہیں وہ دن رات متحیر رہتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز ادا کرکے عالم حیرانی میں محو ہوجاتے پھر خواجہ قطب الدین نے زبان مبارک سے فرمایا کہ ہاں ! اؤلیااللہ کا یہی خاصہ ہوتا ہے جوان میں ہے اگرچہ وہ متحیر تھے وہ نماز کا وقت فوت نہ ہونے دیتے تھے۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ شیخ معین الدین حسن سنجری کے ہمراہ خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے میں سفر کر رہا تھا، چلتے چلتے ہم ایک شہر میں پہنچے وہاں ایک بزرگ کو دیکھا جو ایک کٹیا میں معتکف ہے اور غار کے اندر کھڑا ہوکر دونوں آنکھیں آسمان کی طرف لگائے ہے جسات کہ کوئی سوکھا ہوا دھانچ کھڑا کیا ہوا ہوتا ہے، یہ دیکھ کر شیخ معین الدین حسن سنجری نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ اگر تو کہے تو چند روز یہاں ٹھہر جائیں؟ میں نے عرض کیا بسروچشم ! غرضیکہ ہم تقریباً ایک مہینہ اس کے پاس رہے، اس عرصے میں ایک رو ز وہ بزرگ عالم تحیر سے ہوش میں آیا، ہم نے اٹھ کر سلام علیک کیا، اس نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اے عزیزو ! تم نے تکلیف اٹھائی، خدا تمہیں اس کا اجر دے گا، اس واسطے کہ بزرگوں کا قول ہے کہ جو شخص درویشوں کی خدمت کرتا ہے وہ کسی مرتبے پر پہنچ جاتا ہے پھر فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ! ہم بیٹھ گئے تو حکایت یوں بیان کرنی شروع کی کہ میں شیخ محمد اسلم طوسی کے فرزندوں میں سے ہوں اور قریباً تیس سال سے عالم تحیر میں مستغرق ہوں، مجھے رات دن کی کوئی تمیز نہیں، آج اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے مجھے صحو یعنی ہوش میں لایا، عزیزو ! تم واپس چلے جاؤ، خدا تمہیں اس تکلیف کا اجردے گا لیکن ایک بات فقیر کی یاد رکھنا کہ جب تم نے راہ طریقت میں قدم رکھا ہے تو دنیا اور نفسانی خواہش کی طرف مائل نہ ہونا اور خلقت سے کنارہ کشی کرنا اورجو تمہیں نذر نیاز ملے، اسے اپنے پاس جمع نہ کرنا، اگر ایسا کروگے تو خطا کھاؤ گے جب اس بزرگ نے نصیحت ختم کی تو پھر عالم تحیر میں محو ہوگیا اور ہم وہاں سے واپس چلے آئے جب خواجہ قطب الاسلام نے ان فوائد کو ختم کیا تو عالم سکر میں محو ہوگئے اور دعاگو واپس چلا آیا، ایک ویرانہ میں گھر بنا ہوا تھا وہاں آکر یاد الٰہی میں مشغول ہوا۔

    الحمدللہ علی ذالک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے