آموختن وزیر مکر بادشاہ را
بادشاہ کے وزیر کا تفرقہ پھیلانے کے لئے مکر و فریب
او وزیرے داشت گبر و عشوه دہ
کو بر آب از مکر بر بستے گرہ
اس بادشاہ کا ایک مکار اور رہزن وزیر تھا
جو مکاری سے پانی میں گرہ لگاتا تھا
گفت ترسایاں پناه جاں کنند
دین خود را از ملک پنہاں کنند
اس نے کہا،نصرانی اپنی جان کی (اس طرح) حفاظت کریں گے
(کہ) بادشاہ سے اپنے دین کو چھپائیں گے
کم کش ایشاں را کہ کشتن سود نیست
دیں ندارد بوئے مشک و عود نیست
ان کو قتل نہ کر کیونکہ قتل کرنا مفید نہیں ہے ، مذہب میں
خوشبو نہیں ہوتی، وہ مشک اور اگر نہیں ہے
سر پنہانست اندر صد غلاف
ظاہرش با تو چو تو باطن خلاف
وہ سو، غلافوں میں چھپا ہوا راز ہے
اس کا ظاہر تیرے ساتھ ہے اور باطن بر-خلاف ہے
شاہ گفتش پس بگو تدبیر چیست
چارۂ آں مکر و آں تزویر چيست
بادشاہ نے اس سے کہا، تو بتا کیا تدبیر ہے ؟
اور اس مکر و فریب کا کیا علاج ہے ؟
تا نہ ماند در جہاں نصرانیۓ
نے ہویدا دین و نے پنہانیۓ
(میں چاہتا ہوں) کہ دنیا میں کوئی عیسائی نہ بچے
نہ کھلے دین کا اور نہ چھپے دین کا
گفت اے شہ گوش و دستم را ببر
بینی ام بشکاف و لب در حکم مر
اس نے کہا اے بادشاہ! میرے کان اور ہاتھ کاٹ دے
اور کڑوے حکم سے میری ناک اور ہونٹ چیر دے
بعد از آں در زیر دار آور مرا
تا بخواہد یک شفاعت گر مرا
اس کے بعد مجھے سولی کے نیچے لے آ
یہاں تک کہ ایک سفارشی مجھے مانگ لے
بر منادی گاہ کن ایں کار تو
برسر راہے کہ باشد چار سو
تو یہ کام اعلان گاہ پر کر
(اور) اس راستے پر کہ جو چوراہا ہو
آں گہم از خود براں تا شہر دور
تا در اندازم در ایشاں شر و شور
اس وقت مجھے اپنے پاس سے کسی دور شہر میں نکال دے
تاکہ میں ان میں سو فتور ڈال دوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.