بیان خسارت وزیر در ایں مکر
اس مکر و فریب میں وزیر کے خسارہ اٹھانے کا بیان
ہمچو شہ نادان و غافل بد وزیر
پنجہ می زد با قدیم ناگزیر
وزیر، بادشاہ کی طرح نادان اور غافل تھا
جو واجب الوجود اور قدیم سے پنجہ لڑاتا تھا
با چناں قادر خدائے کز عدم
صد چو عالم ہست گرداند بدم
ایسے قادر خدا سے کہ جو عدم سے
اس عالم جیسے سوعالم ایک دم میں پیدا کردیتا ہے
صد چو عالم در نظر پیدا کند
چونکہ چشمت را بہ خود بینا کند
اس عالم جیسے سو عالم ایک نظر میں پیدا کردے
جب تیری آنکھوں کو اپنے معاملہ میں بینا کردے
گر جہاں پیشت بزرگ و بے بنیست
پیش قدرت ذرۂ می داں کہ نیست
اگرچہ عالم تیرے نزدیک بڑا اور وسیع ہے
سمجھ لے ، قدرت کے آگے ایک ذرہ بھی نہیں ہے
ایں جہاں خود حبس جانہاۓ شماست
ہیں روید آں سو کہ صحرائے شماست
یہ عالم تمہاری جانوں کا قید خانہ ہے
خبر دار ! اس جانب دوڑو جو خدا کا میدان ہے
ایں جہاں محدود و آں خود بیحدست
نقش و صورت پیش آں معنی سدست
یہ عالم محدود اور وہ غیر محدود ہے
نقش اور صورت اس معنی کے سامنے آڑ ہیں
صد ہزاراں نیزۂ فرعون را
در شکست از موسیٰ با یک عصا
فرعون کے لاکھوں نیزے
موسیٰ نے ایک لاٹھی سے توڑ دیے
صد ہزاراں طب جالینوس بود
پیش عیسی و دمش افسوس بود
جالینوس کی لاکھوں طبیں تھیں
(حضرت) عیسٰ اور ان کی پھونک کے سامنے بیکار تھیں
صد ہزاراں دفتر اشعار بود
پیش حرف امیش آں عار بود
اشعار کے لاکھوں دیوان تھے
جو اس کے امی (محمد) کے کلام کے سامنے موجب ننگ تھے
با چنیں غالب خداوندے کسے
چوں نمیرد گر نباشد او خسے
ایسے غالب خدا کے آگے کوئی
کیسے نہ مرے ، اگر وہ کمینہ نہیں ہے !
بس دل چوں کوہ را انگیخت او
مرغ زیرک با دو پا آویخت او
پہاڑ جیسے بہت سے دلوں کو اس نے اکھاڑ دیا
چالاک، پرندے کو دو پیروں ہوتے ہوئے ہوا میں لگا دیا
فہم و خاطر تیز کردن نیست راه
جز شکستہ می نہ گیرد فضل شاه
عقل اور طبیعت کو تیز کرلینا راہ نہیں ہے
شاہ کا فضل، عاجز کے سوا کسی کی دستگیری نہیں
اے بسا گنج آگنان کنج کاو
کاں خیال اندیش را شد ریش گاو
اے (مخاطب) بہت سے گنج گاؤ جیسے خزانے جمع کرنے والے
عقلمندوں کے لئے سامان تمسخر بن گئے
گاؤ کہ بود تا تو ریش او شوی
خاک چہ بود تا حشیش او شوی
بیل کیا چیز ہے ؟ کہ تو اس کی ڈاڑھی بنے
خاک کیا ہے ؟ کہ تو اس کی گھاس بنے
چوں زنے از کار بد شد روۓ زرد
مسخ کرد او را خدا و زہره کرد
جب عورت بدکاری کی وجہ سے زرد رو ہوئی
اس کو خدا نے مسخ کر دیا اور زہرہ بنا دیا
عورتے را زہره کردن مسخ بود
خاک و گل گشتن چہ باشد اے عنود
عورت کو زہرہ بنا دینا تو مسخ تھا
کیا پانی اورمٹی ہوجانا مسخ نہیں ہے ،اے سرکش!
روح می بردت سوۓ چرخ بریں
سوۓ آب و گل شدی در اسفلیں
روح تو تجھے عرش بریں کی طرف لے جاتی (لیکن)
تو پانی اور مٹی کی طرف نچلے درجوں میں آگیا
خویشتن را مسخ کردی زیں سفول
ز آں وجودے کہ بد آں رشک عقول
تونے اپنے آپ کو اس پستی کی وجہ سے مسخ کر لیا
حالانکہ وہ جو عقولِ عشرہ کے لیے باعث رشک تھا
پس ببیں کیں مسخ کردن چوں بود
پیش آں مسخ ایں بغایت دوں بود
اس سے بدتر مسخ کرنا کیا ہوگا ؟
بلکہ اس مسخ کے بالمقابل یہ مسخ گرا ہوا ہے
اسب ہمت سوۓ اختر تاختی
آدم مسجود را نشناختی
تو نے ہمت کا گھوڑا ستاروں کی طرف تو دوڑایا
لیکن مسجدو، آدمؑ کو تو نہ پہچانا
آخر آدم زادۂ اے نا خلف
چند پنداری تو پستی را شرف
اے نا خلف! آخر تو آدمؑ کی اولاد ہے
ذلت کو شرافت کب تک سمجھے گا؟
چند گوئے من بگیرم عالمے
ایں جہاں را پر کنم از خود ہمے
کب تک کہیگا؟ میں تمام دنیا کو فتح کروں گا
اور اس دنیا کو اپنے سے بھر دوں گا
گر جہاں پر برف گردد سربسر
تاب خور بگدازدش بایک نظر
اگر پوری دنیا بالکل برف سے بھر جائے
سورج کی گرمی ایک نظر میں اس کو پگھلا دے
وزر او و صد وزیر و صد ہزار
نیست گرداند خدا از یک شرار
اس (وزیر) کے بوجھ اور اس جیسے لاکھوں کے بوجھ کو
خدا ایک چنگاری سے نیست و نابود کردے
عین آں تخییل را حکمت کند
عین آں زہر آب را شربت کند
بعینہٖ ان خیالات کو دانائی بنا دے
اور اس زہریلے پانی کو شربت بنا دے
آں گماں انگیز را سازد یقیں
مہر ہا رویاند از اسباب کیں
وہ گمان پیدا کرنے والی بات کو یقین بنا دیتا ہے
اور کینہ کے اسباب سے، محبتیں اگا دیتا ہے
پرورد در آتش ابراہیم را
ایمنی روح سازد بیم را
حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پال دیتا ہے
اور خوف کو روح کے اطمینان کا ذریعہ بنا دیتا ہے
از سبب سوزیش من سوداییم
در خیالاتش چو سوفسطاییم
اس کی علت آفرینی سے میں دیوانہ ہوں
اور اس کی سبب سوزی سے میں سو فسطائی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.