Sufinama

بردن بادشاه آں طبیب را بر سر بیمار تا حال او را بہ بیند

رومی

بردن بادشاه آں طبیب را بر سر بیمار تا حال او را بہ بیند

رومی

MORE BYرومی

    بردن بادشاه آں طبیب را بر سر بیمار تا حال او را بہ بیند

    بادشاہ کا غیبی طبیب کو بیمار کے پاس لے جانا

    چوں گذشت آں مجلس و خوان کرم

    دست او بگرفت و برد اندر حرم

    جب وہ مجلس اور خوانِ کرم ختم ہوا

    اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور حرم سرا میں لے کر گیا

    قصہ ای رنجور و رنجوری بہ خواند

    بعد از آں در پیش رنجورش نشاند

    بیمار، اور مرض کا حال سنایا

    اس کے بعد اس کو بیمار کے سامنے بٹھایا

    رنگ رو و نبض و قاروره بدید

    ہم علاماتش ہم اسبابش شنید

    اس نے چہرہ کا رنگ اور نبض اور قارورہ دیکھا

    اس کی علامتیں اور اسباب بھی سنیں

    گفت ہر دارو کہ ایشاں کردہ اند

    آں عمارت نیست ویراں کردہ اند

    اس نے کہا، جو دوا انہوں نے کی ہے

    وہ تعمیر نہیں ہے، انہوں نے ویران کیا ہے

    بے خبر بودند از حال درون

    استعیذ الله مما یفترون

    وہ اندرونی حالات سے لاعلم تھے

    جو انہوں نے غلط بیانی کی ہے ، اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں

    دید رنج و کشف شد بر وے نہفت

    لیک پنہاں کرد و با سلطاں نگفت

    اس نے مرض دیکھا اور راز اس پر کھل گیا

    لیکن اس نے چھپایا اور بادشاہ سے نہ کہا

    رنجش از سودا و از صفرا نبود

    بوۓ ہر ہیزم پدید آید ز دود

    اس کا مرض صفرا اور سودا کی وجہ سے نہ تھا

    لکڑی کی بو ، دھویں سے ظاہر ہوجاتی ہے

    دید از زاریش کو زار دلست

    تن خوشست و او گرفتار دلست‌‌

    اس کی بیماری سے وہ سمجھ گیا کہ وہ دل کی بیمار ہے

    بدن ٹھیک ہے اور وہ دل (کی بیماری) میں گرفتار ہے

    عاشقی پیداست از زاریٔ دل

    نیست بیماری چو بیماری دل

    دل کی بیماری سے عاشقی ظاہر ہے

    دل کی بیماری جیسی کوئی بیماری نہیں ہے

    علت عاشق ز علتہا جداست

    عشق اصطرلاب اسرار خداست

    عاشق کی بیماری، بیماریوں سے جدا ہے

    عشق، خدا کے بھیدوں کا اصطر لاب ہے

    عاشقی گر زیں سر و گر زاں سرست

    عاقبت ما را بداں شہ رہبرست‌‌

    عاشقی خواہ ادھر کی خواہ ادھر کی ہے

    بالآخر، اس شاہ تک ہماری راہ نما ہے

    ہر چہ گویم عشق را شرح و بیاں

    چوں بعشق آیم خجل باشم از آں

    میں عشق کی تشریح اور بیان جو کچھ کرتا ہوں

    جب عشق میں پڑتا ہوں اس سے شرمندہ ہوتا ہوں

    گر چہ تفسیر زباں روشن گرست

    لیک عشق بے زباں روشن ترست‌‌

    اگرچہ زباں کی تشریح روشنی ڈالنے والی ہے

    لیکن بے زبان عشق، زیادہ روشن ہے

    چوں قلم اندر نوشتن می‌‌ شتافت

    چوں بعشق آمد قلم بر خود شگافت‌‌

    جب قلم لکھنے میں مصروف تھا

    جب عشق پر پہونچا خود قلم میں شگاف آ گیا

    عقل در شرحش چو خر در گل بہ خفت

    شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت

    عقل، اس کی شرح میں مٹی میں پھنسے گدھے کی طرح ہوگئی

    عشق اورعاشقی کی شرح بھی عشق نے ہی کی ہے

    آفتاب آمد دلیل آفتاب

    گر دلیلت باید از وے رو متاب

    آفتاب کی دلیل، خود آفتاب بنا

    اگر تجھے دلیل درکار ہے تو اس سے منہ نہ موڑے

    از وے ار سایہ نشانے می دہد

    شمس ہر دم نور جانے می دہد

    سایہ، اگر اس کا پتہ دیتا ہے

    سورج، ہر وقت جان کو نور دیتا ہے

    سایہ خواب آرد ترا ہم چوں سمر

    چوں بر آید شمس انشق القمر

    سایہ، قصہ گوئی کی طرح تجھے سلاتا ہے

    سورج جب نکلتا ہے چاند شق ہوجاتا ہے

    خود غریبے در جہاں چوں شمس نیست

    شمس جاں باقیست او را امس نیست

    دنیا میں سورج جیسا کوئی مسافر نہیں ہے

    روح کا سورج باقی ہے جس کے لئے کل گذشتہ نہیں ہے

    شمس در خارج اگر چہ ہست فرد

    می تواں ہم مثل او تصویر کرد

    سورج ، اگرچہ خارج میں ایک ہی ہے

    اس جیسا بھی تصور کیا جا سکتا ہے

    شمس جاں کو خارج آمد از اثیر

    نبودش در ذہن و در خارج نظیر

    لیکن وہ سورج سے بالا و مست ہے

    اس کی ذہن اورخارج میں کوئی مثال نہیں ہے

    در تصور ذات او را گنج کو

    تا در آید در تصور مثل او

    تصور میں اس کی ذات کی گنجائش کہاں ہے

    کہ تصور میں اس کی مثال آسکے

    چوں حدیث روئے شمس الدیں رسید

    شمس چارم آسماں سر در کشید

    جب شمس الدین کے چہرے کی بات آگئی

    چوتھے آسمان کے سورج نے منہ چھپا لیا

    واجب آید چونکہ آمد نام او

    شرح رمزے گفتن از انعام او

    (اب) جب کہ میں نے ان کا نام لیا ہے تو ضروری ہوگیا

    ان کے انعام کی تھوڑی سی شرح کرنا

    ایں نفس جاں دامنم بر تافتست

    بوۓ پیراہان یوسف یافتست

    برسوں کی صحبت کا حق اد اکرنے کے لیے

    اس خوش احوال کا کچھ حال بیان کر

    از براۓ حق صحبت سالہا

    باز گو حالے از آں خوش حال ہا

    تا کہ زمین اور آسمان ہنس پڑیں

    عقل، روح اور آنکھیں سو گنا ہوجائیں

    تا زمین و آسماں خنداں شود

    عقل و روح و دیده صد چنداں شود

    مجھے مجبور نہ کر میں فنا میں ہوں

    میری سمجھ کند ہے ، میں پوری تعریف نہیں کر سکتا

    لا تکلفنی فانی فی الفنا

    کلت افہامی فلا احصی ثنا

    مدہوش جو بات بھی کہے

    خواہ تکلف کرے یا دراز بیانی مناسب نہیں ہے

    کل شئ قالہ غیر المفیق

    ان تکلف او تصلف لا یلیق‌‌

    میں کیا کہوں؟ میری ایک رگ بھی ہوش میں نہیں ہے

    اس یار کی تفصیل جس کا کوئی شرک نہیں ہے

    من چہ گویم یک رگم ہشیار نیست

    شرح آں یارے کہ او را یار نیست

    اس فراق اورخونِ جگر کی تفصیل

    اب دوسرے وقت کے لیے چھوڑ

    شرح ایں ہجران و ایں خون جگر

    ایں زماں بگذار تا وقت دگر

    اس نے کہا، مجھے کھلا میں بھوکی ہوں

    جلدی کر کہ وقت تیز تلوار ہے

    قال اطعمنی فانی جائع

    و اعتجل فالوقت سیف قاطع

    اے دوست! صوفی ابن الوقت ہوتا ہے

    کل کا حوالہ دینا طریق (سلوک) کے مناسب نہیں ہے

    صوفی ابن الوقت باشد اے رفیق

    نیست فردا گفتن از شرط طریق

    میں نے اس سے کہا کہ یار کا راز چھپا ہوا اچھا ہوتا ہے

    البتہ تو اس کو قصہ کے ضمن میں سن لے

    تو مگر خود مرد صوفی نیستی

    ہست را از نسیہ خيزد نیستی

    بہتر یہی ہوتا ہے کہ معشوقوں کا راز

    دوسروں کے قصہ میں بیان ہوجائے

    گفتمش پوشیدہ خوشتر سر یار

    خود تو در ضمن حکایت گوش دار

    کھلم کھلا، بے پروا اور بے خیانت کے بات کہدے

    دین کا ذکر کھلم کھلم کرنا پوشیدہ طور کر نے سے بہتر ہے

    خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں

    گفتہ آید در حدیث دیگراں

    مراد مانگ، لیکن اندازہ کے مطابق مانگ

    گھاس کا ایک تنکا پہاڑ کو برداشت نہیں کر سکتا

    گفت مکشوف و برہنہ و بے غلول

    باز گو دفعم مدہ اے بوالفضول

    وہ سورج جس سے یہ سارا عالم روشن ہے

    اگر تھوڑا آگے آجائے تو سب کو جلا دے

    پرده بردار و برہنہ گو کہ من

    می‌‌ نخسبم با صنم با پیرہن

    فتنہ و فساد اور تباہی کی کوشش نہ کر

    اور اس سے زیادہ شمس تبریز کے بارے میں جستجو نہ کر

    گفتم ار عریاں شود او در عیاں

    نے تو مانی نے کنارت نے میاں

    آرزو می‌‌ خواه لیک اندازه خواہ

    بر نہ تابد کوہ را یک برگ کاہ

    آفتابے کز وے ایں عالم فروخت

    اندکے گر پیش آید جملہ سوخت

    فتنہ و آشوب و خونریزی مجو

    بیش ازیں از شمس تبریزی مگو

    ایں ندارد آخر از آغاز گو

    رو تمام ایں حکایت باز گو

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے