Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

اعتراض مریداں بر خلوت وزیر

رومی

اعتراض مریداں بر خلوت وزیر

رومی

MORE BYرومی

    اعتراض مریداں بر خلوت وزیر

    وزیر کی خلوت کے متعلق مریدوں کا دو بارہ خوشامد کرنا

    جملہ گفتند اے وزیر انکار نیست

    گفت ما چوں گفتن اغیار نیست

    سب نے کہا اے وزیر! انکار نہیں ہے

    ہماری بات غیروں کی سی بات نہیں ہے

    اشک دیدہ است از فراق تو دواں

    آہ آہست از میان جاں رواں

    تیری جدائی سے آنکھوں کے آنسو بہ رہے ہیں

    جان سے آہ آہ نکل رہی ہے

    طفل با دایہ نہ استیزد و لیک

    گرید او گرچہ نہ بد داند نہ نیک

    بچہ دایہ سے نہیں لڑتا لیکن

    وہ روتا ہے اگرچہ اچھا برا نہیں جانتا ہے

    ما چو چنگیم و تو زخمہ می زنی

    زاری از ما نے تو زاری می کنی

    ہم سارنگی کی طرح ہیں اور تو مضراب مارتا ہے

    رونا ہمارا نہیں ہے تو روتا ہے

    ما چو ناییم و نوا در ما ز تست

    ما چو کوہیم و صدا در ما ز تست

    ہم بانسری کی طرح ہیں اور ہم میں آواز تجھ سے ہے

    ہم پہاڑ کی طرح ہیں اور ہم میں گونج تجھ سے ہے

    ما چو شطرنجیم اندر برد و مات‌‌

    برد و مات‌‌ ما ز تست اے خوش صفات

    ہار جیت میں ہم شطرنج کی طرح ہیں

    اے خوش صفات ! ہماری ہار جیت تیری طرف سے ہے

    ما کہ باشیم اے تو ما را جان جاں

    تا کہ ما باشیم با تو درمیاں

    اے وہ کہ تو ہماری جان کی جان ہے ہم کیا ہوتے ہیں ؟

    تیرے ہوتے ہوئے ، درمیان میں ہم کون ہوتے ہیں

    ما عدمہایئم و ہستی ہاۓ ما

    تو وجود مطلقی فانی نما

    ہم اور ہماری ہستیاں معدوم ہیں

    تو فانی نما ، وجود مطلق ہے

    ما ہمہ شیراں ولے شیر علم

    حملہ شاں از باد باشد دم بدم

    ہم سب شیر ہیں لیکن جھنڈے کے شیر

    جس کا مسلسل حملہ ہوا کی وجہ سے ہوتا ہے

    حملہ شاں پیدا و ناپیداست باد

    آنکہ نا پیداست ہرگز کم مباد

    ان کا حملہ نظروں میں ظاہر ہے اور ہوا نظر سے غائب ہے

    وہ ذات جو کہ نظروں سے غائب ہے کبھی (دل سے) گم نہ ہو

    باد ما و بود ما از داد تست

    ہستی ما جملہ از ایجاد تست‌‌

    ہماری ہوا اور ہمارا وجود تیری عطا سے ہے

    ہم سب کی ہستی تیری ایجاد سے ہے

    لذت ہستی نمودی نیست را

    عاشق خود کردے بودی نیست را

    تو نے معدوم کو وجود کی لذت چکھائی

    تو نے معدوم کو اپنا عاشق بنایا تھا

    لذت انعام خود را وا مگیر

    نقل و باده و جام خود را وا مگیر

    اپنے انعام کی لذت کو واپس نہ لے

    شراب کے نقل اوراپنے جام کو واپس نہ لے

    ور بہ گیری کیست جست و جو کند

    نقش با نقاش چوں نیرو کند

    اور اگر تو لے لے کون ہے جو جستجو کر سکے؟

    نقش، نقاش کے ساتھ کیا زور آزمائی کرے ؟

    منگر اندر ما مکن در ما نظر

    اندر اکرام و سخاۓ خود نگر

    ہمیں نہ دیکھ ، ہم پر نظر نہ کر

    اپنے اکرام اور سخاوت کو دیکھ

    ما نبودیم و تقاضا ماں نبود

    لطف تو نا گفتہ ما می شنود

    نہ ہم تھے نہ ہمارا تقاضا تھا

    تیری مہربانی ہماری ان کہی سنتی تھی

    نقش باشد پیش نقاش و قلم

    عاجز و بستہ چو کودک در شکم

    نقش، نقاش اورقلم کے سامنے ہوتا ہے

    عاجز اورمجبور جس طرح بچہ پیٹ میں

    پیش قدرت خلق جملہ بارگہہ

    عاجزاں چوں پیش سوزن کارگہ

    قدرت کے سامنے ، عالم کی تمام مخلوقات

    عاجز ہیں ، جس طرح سوئی کے سامنے کڑھائی کا کپڑا

    گاہ نقشش دیو و گہ آدم کند

    گاہ نقشش شادی و گہ غم کند

    کبھی شیطان کا ، کبھی آدم کا نقش بناتا ہے

    کبھی خوشی کا اور کبھی غم کا نقش کھینچتا ہے

    دست نے تا دست جنباند بدفع

    نطق نے تا دم زند در ضر و نفع‌‌

    کوئی ہاتھ نہیں جو روکنے کو ہاتھ ہلائے

    گویائی نہیں ، جو نفع اور نقصان پر دم مارے

    تو ز قرآں باز خواں تفسیر بیت

    گفت ایزد ما رميت اذ رمیت‌‌

    تو قرآن سے (اس ) شعر کی تفسیر پڑھ لے

    اللہ نے فرمایا تو نے نہیں پھینکا جب تو نے پھینکا

    گر بپرانیم تیر آں نے ز ماست

    ما کمان و تیر اندازش خداست‌‌

    اگر ہم تیر چلائیں تو وہ ہماری وجہ سے کب ہے؟

    ہم تو کمان ہیں ، اور تیر چلانے والا خدا ہے

    ایں نہ جبر ایں معنی جباریست

    ذکر جباری براۓ زاریست

    یہ جبر نہیں ہے ، یہ جباری کے معنی ہیں

    جباری کا ذکر (انسان کا) عجز ظاہر کرنے کے لئے ہے

    زاری ما شد دلیل اضطرار

    خجلت ما شد دلیل اختیار

    ہمارا عجز، اضطرار کی دلیل ہے

    ہماری شرمندگی ، اختیار کی دلیل ہے

    گر نبودے اختیار ایں شرم چیست

    ویں دریغ و خجلت و آزرم چیست

    اگر اختیار نہوتا تو یہ شرم کیا ہے ؟

    اور یہ افسوس اور شرمندگی اور صلح جوئی کیا ہے ؟

    زجر استاداں و شاگرداں چراست

    خاطر از تدبیر ہا گرداں چراست

    استادوں کی جھڑکی ، شاگردوں کو کیوں ہے

    تدبیروں میں طبیعتیں سرگرداں کیوں ہے

    ور تو گوئی غافلست از جبر او

    ماہ حق پنہاں شد در ابر او

    اگر تو کہے ، وہ جبر سے غافل ہے

    اللہ کا چاند اس کو اپنے ابر میں چھپا دیتا ہے

    ہست ایں را خوش جواب ار بشنوی

    بہ گزری از کفر و در دیں بگروی‌‌

    اگر تو سنے تو اس کا (بھی) اچھا جواب ہے

    تو کفر سے بچ جائے گا اور دین پر مائل ہوجائیگا

    حسرت و زاری گہ بیماریست

    وقت بیماری ہمہ بیداریست

    حسرت اور عاجزی جو بیماری میں ہے

    بیماری کا وقت پوری بیداری ہے

    آں زماں کہ می شوی بیمار تو

    می کنی از جرم استغفار تو

    جس وقت تو بیمار ہوتا ہے

    تو گناہ سے توبہ کرتا ہے

    می نماید بر تو زشتی گنہ

    می کنی نیت کہ باز آیم بہ رہ

    تیرے اوپر گناہ کی برائی کھل جاتی ہے

    تو ارادہ کرتا ہے کہ راہِ راست پر لوٹ آؤں گا

    عہد و پیماں می کنی کہ بعد ازیں

    جز کہ طاعت نبودم کار گزیں

    تو عہد اور پیماں کرتا ہے کہ اس کے بعد

    عبادت کے علاوہ کوئی کام نہ کروں گا

    پس یقیں گشت ایں کہ بیماری ترا

    می ببخشد ہوش و بیداری ترا

    لہٰذا یقین ہوگیا کہ تیری بیمار

    تجھے ہوش اور بیداری بخشتی ہے

    پس بداں ایں اصل را اے اصل جو

    ہر قضا در دست او بردست بو

    اے راز کے طالب، اس حقیقت کو سمجھ لے

    جس میں درد ہے اس کو پتہ مل گیا ہے

    ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

    ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

    جو زیادہ ہوشمند ہے وہی زیادہ پر درد ہے

    جو زیادہ باخبر ہے اس کا چہرہ زیادہ زرد ہے

    گر ز جبرش آگہی زاریت کو

    بینش زنجیر جباریت کو

    اگر تو اس کے جبر کا معتقد ہے تو تیری عاجزی کہاں ہے؟

    تیری مجبوری کی زنجیر کی جھنکار کہاں ہے ؟

    بستہ در زنجیر چوں شادی کند

    کے اسیر حبس آزادی کند

    زنجیر سے جکڑا ہوا، سخاوت کیسے کرتا ہے ؟

    ٹوٹی ہوئی لکڑی ستون کب بن سکتی ہے؟

    ور تو می بینی کہ پایت بستہ اند

    بر تو سرہنگان شہ بہ نشستہ اند

    اگر تو دیکھتا ہے کہ تیرے پیر باندھ دیے ہیں

    تجھ پر بادشاہ کے سپاہی مسلط ہیں

    پس تو سرہنگی مکن با عاجزاں

    زانکہ نبود طبع و خوئے عاجزاں

    لہٰذا تو کمزوروں پر سپاہی نہ بن

    اس لئے کہ یہ عاجزوں کی طبیعت اورعادت نہیں ہوتی ہے

    چوں تو جبر او نمی بینی مگو

    ور ہمی بینی نشان دید کو

    جب تو اس کا جبر نہیں دیکھتا ہے ، تو قائل نہ ہو

    اور اگر تو دیکھتا ہے ، تو دیکھنے کی دلیل کہاں ہے؟

    در ہر آں کاری کہ میلستت بداں

    قدرت خود را ہمی بینی عیاں

    جس کام میں تیرا میلان ہوتا ہے اس میں

    تو اپنی قدرت کو کھلا دیکھتا ہے

    در ہر آنکاری کہ میلت نیست و خواست

    اندراں جبری شدی کیں از خداست

    جس کام میں تیری خواہش اور میلان نہیں ہے

    اس میں تو جبری بنتا ہے کہ یہ خدا کی جانب سے ہے

    انبیا در کار دنیا جبری‌‌ اند

    کافراں در کار عقبی جبری‌‌ اند

    انبیاء دنیا کے کام میں جبری ہیں

    کافر، آخرت کے کام میں جبری ہیں

    انبیا را کار عقبی اختیار

    جاہلاں را کار دنیا اختیار

    انبیاء کے لیے آخرت کے کام اختیاری ہیں

    کافروں کے لئے دنیا کے کام اختیاری ہیں

    زانکہ ہر مرغے بہ سوۓ جنس خویش

    می پرد او در پس و جاں پیش پیش

    کیونکہ ہر پرندہ اپنی جنس کی طرف

    پیچھے پیچھے جاتا ہے اور جان آگے آگے

    کافراں چوں جنس سجین آمدند

    سجن دنیا را خوش آئین آمدند

    کافر، چونکہ سجین کی جنس کے ہیں

    دنیا کے قید خانہ کے قوانین خوب سمجھتے ہیں

    انبیا چوں جنس علییں بدند

    سوئے علیین جان و دل شدند

    انبیاء چونکہ علیین کی جنس کے تھے

    اس لئے وہ دل و جان سے علیین کی طرف متوجہ ہوئے

    ایں سخن پایاں ندارد لیک ما

    باز گوئیم آں تمامی قصہ را

    اس بات کی تو کوئی انتہا نہیں ہے

    لیکن ہم پھر اس باقی قصہ کو سناتے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے