Sufinama

حکایت مرد بقال و طوطی و روغن ریختن طوطی در دکان

رومی

حکایت مرد بقال و طوطی و روغن ریختن طوطی در دکان

رومی

MORE BYرومی

    حکایت مرد بقال و طوطی و روغن ریختن طوطی در دکان

    ایک بنئے اور طوطی کا قصہ اور طوطی کا دکان کے اندر تیل بہانا

    بود بقالے و وے را طوطیے

    خوش نواۓ سبز گویا طوطیے

    ایک بنیا تھا اور اس کی ایک طوطی تھی

    جو خوش آواز ، سبز رنگ اور بولنے والی طوطی تھی

    در دکاں بودے نگہبان دکاں

    نکتہ گفتے با ہمہ سوداگراں

    (یہ طوطی) دکان پر دکان کی حفاظت کرتی تھی

    اور تمام سوداگروں سے دلچسپ باتیں کرتی تھی

    در خطاب آدمی ناطق بدے

    در نواۓ طوطیاں حاذق بدے

    وہ آدمیوں سے خطاب کرنے میں ان جیسی باتیں کرتی

    اور طوطیوں کے ساتھ نوا سنجی میں ماہر تھی

    جست از سوۓ دکان سوۓ گریخت

    شیشہ ہائے روغن گل را بریخت‌‌

    بھاگنے کے لیے دکان کی بیچ میں کودی

    (اور) روغن گل کی شیشیاں بہا دیں

    از سوۓ خانہ بیامد خواجہ اش

    بر دکاں بہ نشست فارغ خواجہ وش

    اس کا مالک گھر سے (واپس) آیا

    (اور) خوش خوش، اطمینان سے دکان پر بیٹھ گیا

    دید پر روغن دکان و جامہ چرب

    بر سرش زد گشت طوطی کل ز ضرب‌‌

    (لیکن) دکان کو تیل سے پر اور کپڑوں کو چکنا دیکھ کر

    اس کے سر پر ایسی مار لگائی کہ طوطی گنجی ہو گئی

    روز کے چندے سخن کوتاہ کرد

    مرد بقال از ندامت آہ کرد

    چند دن تک (طوطی) نے بات کرنی چھوڑ دی

    بنئے نے ندامت و افسوس سے آہ کی

    ریش بر می کند و می‌‌ گفت اے دریغ

    کافتاب نعمتم شد زیر میغ‌‌

    وہ (اپنی) داڑھی کو نوچتا اور کہتا تھا ہائے افسوس

    میری نعمت کا سورج بدلی میں آگیا

    دست من بشکستہ بودے آں زماں

    چوں زدم من بر سر آں خوش زباں

    اس وقت میرے ہاتھ ٹوٹ گئے ہوتے

    جب میں نے اس خوش زبان (طوطی) کے سر پر ضربیں ماری تھیں

    ہدیہ ہا می داد ہر درویش را

    تا بیابد نطق مرغ خویش را

    وہ ہر فقیر کو تحفے تقسیم کر رہا تھا

    تاکہ اپنے طوطی کی گویائی کو پا لے

    بعد سہ روز و سہ شب حیران و زار

    بر دکاں بہ نشستہ بد نومید وار

    تین دن اور تین رات کے بعد حیران و بدحال

    مایوسی کی حالت میں دکان پر بیٹھا تھا

    می نمود آں مرغ را ہر گوں شگفت

    تا کہ باشد کاندر آید او بگفت

    ہر قسم کی انوکھی چیزیں اس پرندے کو دکھاتا تھا

    اور پھر تعجب سے اپنے ہونٹ کاٹتا تھا

    جولقی سر برہنہ می گذشت

    تا سر بے مو چو پشت طاس و طشت‌‌

    اتفاقاً ایک گدڑی پوش ادھر سے گذر رہا تھا

    جس کا سر پرات اور طشت کی پشت کی طرح (بالوں) سے صاف تھا

    طوطی اندر گفت آمد در زماں

    بانگ بر درویش زد کہ ہے فلاں

    طوطی (اس کو دیکھ کر) فوراً بول پڑی

    اس کو پکارا اور عقلمندوں کی طرح (سوال کیا)

    از چہ اے کل با کلاں آمیختی

    تو مگر از شیشہ روغن ریختی

    اے گنجے ! تو گنجوں میں کیوں شامل ہوا ؟

    شاید تو نے بھی شیشی سے تیل گرایا ہے

    از قیاسش خندہ آمد خلق را

    کو چو خود پنداشت صاحب دلق را

    اس کے اس قیاس سے لوگ ہنس پڑے

    کہ اس نے گدڑی والے کو اپنا جیسا سمجھا

    کار پاکاں را قیاس از خود مگیر

    گرچہ ماند در نبشتن شیر و شیر

    پاک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کر

    اگرچہ لکھنے میں شیر(درندہ) اور شیر(دودھ) یکساں ہوتا ہے

    جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد

    کم کسے ز ابدال حق آگاہ شد

    اس وجہ سے پورا عالم گمراہ ہو گیا

    بہت کم کوئی خدا کے ابدال سے واقف ہوا

    ہمسری با انبیاء برداشتند

    اولیا را ہمچو خود پنداشتند

    (انہوں نے) نبیوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ کھڑا کر دیا

    اور اولیا کو اپنا جیسا سمجھ لیا

    گفتہ ایں کہ ما بشر ایشاں بشر

    ما و ایشاں بست‍ۂ خوابیم و خور

    یہ کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہیں

    ہم اور وہ سونے اور کھانے کے پابند ہیں

    ایں ندانستند ایشاں از عمیٰ

    ہست فرقے درمیاں بے منتہا

    اندھے پن سے وہ یہ نہ سمجھے

    کہ ان دونوں میں بے انتہاء فرق ہے

    ہر دو گوں زنبور خوردند از محل

    لیک شد زاں نیش و زیں دیگر عسل

    دونوں قسم کی بھڑوں نے ایک ہی جگہ سے کھایا

    لیکن اس سے ڈنک اور اس سے شہد بنا

    ہر دو گوں آہو گیا خوردند و آب

    زیں یکے سرگیں شد و زاں مشک ناب

    دونوں قسم کے ہرنوں نے گھاس، اور پانی کھایا پیا

    اس ایک کا گوبر بنا اور دوسرے کا خالص مشک

    ہر دو نے خوردند از یک آب خور

    ایں یکے خالی و آں دیگر شکر

    دونوں نرسلوں نے ایک گھاٹ سے پانی پیا

    لیکن ایک کھوکھلی اور دوسری شکر سے بھری ہوئی ہے

    صد ہزاراں ایں چنیں اشباہ بیں

    فرق شاں ہفتاد سالہ راه بیں

    اس طرح کی لاکھوں مثالیں تیرے سامنے ہیں

    (لیکن) ان میں ستر سالہ راہ کا فرق دکھائی دیتا ہے

    ایں خورد گردد پلیدی زو جدا

    آں خورد گردد ہمہ نور خدا

    یہ کھاتا ہے تو نجاست اس سے نکلتی ہے

    اور وہ جو کچھ کھاتا ہے ، سب خدا کا نور بن جاتا ہے

    ایں خورد زاید ہمہ بخل و حسد

    آں خورد زاید ہمہ عشق احد

    یہ کھاتا ہے تو سراسر بخل اور حسد پیدا ہوتا ہے

    اور وہ کھاتا ہے تو سب خدا کا عشق بن جاتا ہے

    ایں زمین پاک و آں شورست و بد

    ایں فرشتۂ پاک و آں دیوست و دد

    یہ پاک زمین ہے اور وہ شور اور خراب

    یہ پاک فرشتہ ہے اور وہ بھوت اور درندہ

    ہر دو صورت گر بہم ماند رواست

    آب تلخ و آب شیریں را صفاست

    دونوں صورتیں اگر ایک جیسی ہیں، ٹھیک ہے

    نمکین اور شیریں پانی میں صفائی موجود ہے

    جز کہ صاحب ذوق کے شناسد بیاب

    او شناسد آب خوش از شوره آب

    سوائے صاحبِ ذوق کے کوئی نہیں پہچان سکتا ہے ، سمجھ لے

    کہ وہی میٹھے اور کھارے پانی کو پہچانتا ہے

    سحر را با معجزه کردہ قیاس

    ہر دو را بر مکر پندارد اساس

    جادو کو معجزہ پر قیاس کر کے

    دونوں کی بنیاد مکر و فریب پر سمجھتا ہے

    ساحران موسیٰ از استیزه را

    بر گرفتہ چوں عصاۓ او عصا

    جادوگروں نے موسیٰؑ سے لڑائی کے لیے

    ان کی لاٹھی جیسی لاٹھی اٹھائی

    زیں عصا تا آں عصا فرقیست ژرف

    زیں عمل تا آں عمل راہے شگرف‌

    (لیکن) اس لاٹھی اور اس لاٹھی میں گہرا فرق ہے

    اس کام میں اور اس کام میں بڑا فاصلہ ہے

    لعنۃ الله ایں عمل را در قفا

    رحمۃ الله آں عمل را در وفا

    اس کام کے پیچھے اللہ کی لعنت ہے

    اس کام میں اللہ کی رحمت شاملِ حال ہے

    کافراں اندر مرے بوزینہ طبع‌‌

    آفتے آمد درون سینہ طبع‌‌

    کافر لوگ جھگڑا کرنے میں بندر کی خصلت رکھتے ہیں

    (اور ان کی یہ خصلت) سینہ میں چھپی ہوئی ایک آفت ہے

    ہر چہ مردم می کند بوزینہ ہم

    آں کند کز مرد بیند دمبدم

    جو کچھ انسان کرتا ہے بندر بھی کرتا ہے

    جو انسان سے پے در پے دیکھتا ہے وہ کرتا ہے

    او گماں برده کہ من کردم چو او

    فرق را کہ داند آں استیزه رو

    اس نے گمان کیا کہ میں نے اس کی طرح کیا

    وہ لڑاکا فرق کو کب دیکھتا ہے؟

    ایں کند از امرو او بہر ستیز

    بر سر استیزه رویاں خاک ریز

    یہ (مومن) حکم خداوندی سے کرتا ہے اور وہ (کافر) جھگڑے کے لیے

    جھگڑا کرنے والوں کے سر پر خاک ڈال

    آں منافق با موافق در نماز

    از پۓ استیزه آید نے نیاز

    وہ منافق مومن کے ساتھ، نماز میں

    مقابلہ کے لیے آتا ہے نہ کہ نیاز مندی کے لیے

    در نماز و روزه و حج و زکات

    با منافق مومناں در برد و مات‌‌

    نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ میں

    مومن، منافق کے ساتھ جیت اورہار میں ہیں

    مومناں را برد باشد عاقبت

    بر منافق مات اندر آخرت

    انجام کار مومنوں کی جیت ہوگی

    آخرت میں منافق کو ہار ہوگی

    گرچہ ہر دو بر سر یک بازیند

    ہر دو باہم مروزی و رازیند

    اگرچہ دونوں ایک بازی لگائے ہوئے ہیں

    لیکن یہ دونوں مرد اور رے کے باشندوں کی طرح (باہم مختلف) ہیں

    ہر یکے سوۓ مقام خود رود

    ہر یکے بر وفق نام خود رود

    ہر ایک اپنے مقام کی طرف جاتا ہے

    ہر ایک اپنے نام کے مطابق کام کرتا ہے

    مومنش خوانند جانش خوش شود

    ور منافق گویے پر آتش شود

    تو اس کو مومن کہے تو اس کی روح خوش ہوتی ہے

    اور اگر منافق کہے تو مشعلی اور آگ سے پر ہوجاتا ہے

    نام او محبوب از ذات ویست

    نام ایں مبغوض از آفات ویست‌‌

    اس کا نام اس کی ذات کی وجہ سے پیارا ہے

    اور اس کانام اس کی آفتوں کی وجہ سے موجب بغض و عداوت ہے

    میم و واو و میم و نوں تشریف نیست

    لفظ مومن جز پئے تعریف نیست

    میم اور واؤ اور میم اور نون میں کوئی شرافت نہیں ہے

    لفظ مومن پہچان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے

    گر منافق خوانیش ایں نام دوں

    ہمچو کژدم می خلد در اندروں

    اگر اس کو منافق کہے تو یہ ذلیل نام

    بچھو (کے ڈنک) کی طرح اس کے دل میں چبھتا ہے

    گر نہ ایں نام اشتقاق دوزخست

    پس چرا در وے مذاق دوزخست‌‌

    اگر وہ نام دوزخ سے نہیں بنا ہے

    پھر اس میں دوزخ کا ذائقہ کیوں ہے ؟

    زشتی آں نام بد از حرف نیست

    تلخی آں آب بحر از ظرف نیست

    برے نام کی برائی حروف کی وجہ سے نہیں ہے

    اور اس سمندری پانی کی کڑواہٹ برتن کی وجہ سے نہیں ہے

    حرف ظرف آمد درو معنی چو آب

    بحر معنی عند ام الکتاب‌‌

    حروف برتن ہیں اور ان میں معنی پانی کی طرح ہیں

    معنی کا سمندر وہ ہے جس کے پاس ام الکتاب ہے

    بحر تلخ و بحر شیریں در جہاں

    درمیاں شاں برزخ لا یبغیاں

    میٹھا اور شور دریا ساتھ ساتھ رواں ہے

    اور ان کے درمیاں ایک آڑ ہے ، یہ ایک دوسرے سے چڑھتے نہیں

    دانکہ ایں ہر دو ز یک اصلے رواں

    بر گزر زیں ہر دو رو تا اصل آں

    جان لے کہ یہ دونوں ایک ہی اصل سے رواں ہیں

    دونوں سے گذر کر ان کی اصل تک پہنچ گیا

    زر قلب و زر نیکو در عیار

    بے مہک ہرگز ندانے ز اعتبار

    کھوٹا سونا اور کھرا سونا پرکھنے میں

    بغیر کسوٹی کے ہرگز قابلِ اعتبار نہیں

    ہر کہ را در جاں خدا بنہد محک

    ہر یقیں را باز داند او ز شک

    خدا جس کے دل میں کسوٹی رکھ دیتا ہے

    بلاشبہ وہ یقین کو شک سے جدا کر لیتا ہے

    در دہان زنده خاشاکی جہد

    آنگہ آرامد کہ بیرونش نہد

    زندہ کے منہ میں اگر تنکا گر جائے

    تو اس کو چین اسی وقت آتا ہے جب اس کو باہر نکال دے

    در ہزاراں لقمہ یک خاشاک خرد

    چوں در آمد حس زنده پے بہ برد

    ہزاروں لقموں میں ایک چھوٹا سا تنکا

    جب آیا تو زندہ کی حس نے اس کاپتہ لگا لیا

    حس دنیا نردبان ایں جہاں

    حس دینی نردبان آسماں

    دنیا کا احساس، اس جہاں کی سیڑھی ہے

    اور آخرت کا احساس، آسمان کی سیڑھی ہے

    صحت ایں حس بجوئید از طبیب

    صحت آں حس بخواہید از حبیب

    اس حس کی تندرسی طبیب سے معلوم کرو

    اور اس حس کی تندرستی محبوب سے معلوم کرو

    صحت ایں حس ز معموری تن

    صحت آں حس ز ویرانے بدن

    اس حس کی تندرستی بدن کی تندرستی سے ہے

    اور اس حس کی تندرستی بدن کی شستگی سے ہے

    راہ جاں مر جسم را ویراں کند

    بعد ازاں ویرانی آباداں کند

    روح کا بادشاہ، جسم کو ویران کرتا ہے

    اور اس کی ویرانی کے بعد اس کو آباد کرتا ہے

    کرد ویراں خانہ بہر گنج زر

    وز ہماں گنجش کند معمور تر

    سونے کے خزانہ کے لیے اس نے اپنے گھر کو ویران کیا

    اور اسی خزانہ سے پھر اس کو بہت زیادہ آباد کردیتا ہے

    آب را ببرید و جو را پاک کرد

    بعد ازاں در جو رواں کرد آب خورد

    اس نے پانی کو بند کیا اور نہر کو پاک کیا

    پھر اس نے نہر میں پینے کا پانی چھوڑ دیا ہے

    پوست را بشگافت و پیکاں را کشید

    پوست تازه بعد ازانش بر دمید

    کھال میں شگاف کیا ، تیر کو کھینچا

    اس کے بعد نئی کھال اس سے پیدا ہوگئی

    قلعہ ویراں کرد و از کافر ستد

    بعد ازاں بر ساختش صد برج و سد

    اس نے قلعہ کو ویران کیا اور کافر سے چھینا ہے

    اس کے بعد اس پر سینکڑوں برج اور فصیلیں بنائی ہیں

    کار بے چوں را کہ کیفیت نہد

    ایں کہ گفتم ہم ضرورت می دہد

    یکتا کے کام کی کیفیت کون بیان کرے ؟

    یہ جو کچھ میں نے کہا ہے بضرورت کہا ہے

    گہ چنیں بنماید و گہ ضد ایں

    جز کہ حیرانی نباشد کار دیں

    کبھی یوں جلوہ آرا ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس

    دین کا کام حیرت کے بغیر نہیں ہے

    نے چناں حیراں کہ پشتش سوئے اوست

    بل چنیں حیران و غرق و مست دوست

    نہ ایسے حیران کہ ان کی پشت اس کی طرف ہو

    بلکہ ایسے حیران کہ ان کا چہرہ اس کے سامنے ہے

    آں یکے را روئے او شد سوئے دوست

    واں یکے را روئے او خود روئے دوست

    اس ایک کا رخ دوست کی جانب ہوا

    اور اس ایک کا اپنا رخ خود دوست کا رخ ہے

    روۓ ہر یک می نگر می دار پاس

    بو کہ گردی تو ز خدمت روشناس

    ہر ایک کے رخ کو دیکھ اور ادب کر

    ہو سکتا ہے کہ تو خدمت سے صاحبِ معرفت بن جائے

    چوں بسے ابلیس آدم روئے ہست

    پس بہر دستے نشاید داد دست

    چونکہ بہت سے شیطان انسانی چہرے کے ہیں

    اس لئے ہر ہاتھ میں ہاتھ نہ پکڑا نا چاہئے

    ز انکہ صیاد آورد بانگ صفیر

    تا فریبد مرغ را آں مرغ گیر

    شکاری پرندے جیسی آواز اس لئے نکالتا ہے

    تاکہ وہ پکڑنے والا ، پرندے کو دھوکا دے

    بشنود آں مرغ بانگ جنس خویش

    از ہوا آید بیابد دام و نیش

    وہ پرندہ اپنے ہم جنس کی آواز سنتا ہے

    (اور) فضا سے اترتا ہے تو جال اورڈنک پاتا ہے

    حرف درویشاں بدزدد مرد دوں

    تا بخواند بر سلیمے زاں فسوں

    کار مرداں روشنی و گرمیست

    کار دوناں حیلہ و بے شرمیست

    شیر پشمیں از براۓ گد کنند

    بو مسیلم را لقب احمد کنند

    بو مسیلم را لقب کذاب ماند

    مر محمد را اولو الالباب ماند

    آں شراب حق ختامش مشک ناب

    بادہ را ختمش بود گند و عذاب‌‌

    کمینہ آدمی فقراء کے کلمات چرا لیتا ہے

    تاکہ کسی بھولے بھالے پر وہ منتر پڑھے

    مردوں کا کام روشنی اور گرمی (پہنچانا) ہے

    (اور) کمینوں کا کام (دھوکا دینا) اور بے شرمی ہے

    گدا گری کے لیے اون کا شیر بناتے ہیں

    مسیلمہ(کذاب) کو احمد کا لقب دیتے ہیں

    مسیلمہ کا لقب کذاب رہا

    اور (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا صاحب عقل رہا

    وہ حق کی شراب ہے جس کی مہر خالص مشک کی ہے

    (اور) شراب کی مہر گندگی اور عذاب ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے