حکایت نے
بانسری کا قصہ
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
بانسری سے سن ! کیا بیان کرتی ہے
وہ جدائیوں کی (کیا) شکایت کرتی ہے !
کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیده اند
کہ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا ہے
میرے نالہ سے مرد و عورت (سب) روتے ہیں
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
میں ایسا سینہ چاہتی ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو
تاکہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے
وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے
من بہر جمعیتے نالاں شدم
جفت بد حالاں و خوش حالاں شدم
میں ہر مجمع میں روئی
خوش اوقات اور بداحوال لوگوں کے ساتھ رہی
ہر کسے از ظن خود شد یار من
از درون من نہ جست اسرار من
ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا یار بنا
اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ کی
سر من از نالۂ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست
میرا راز، میرے نالہ سے دور نہیں ہے
لیکن آنکھ اور کان کے لیے وہ نور نہیں ہے
تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
بدن، روح سے اور روح، بدن سے چھپی ہوئی نہیں ہے
لیکن کسی کے لئے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں ہے
آتشست ایں بانگ نائے و نیست باد
ہر کہ ایں آتش ندارد نیست باد
بانسری کی یہ آواز آگ ہے، ہوا نہیں ہے
جس میں یہ آگ نہ ہو، وہ نیست (ونابود) ہو
آتش عشقست کاندر نے فتاد
جوشش عشقست کاندر مے فتاد
عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے
عشق کا جوش ہے جو شراب میں آیا ہے
نے حریف ہر کہ از یارے برید
پردہا اش پردہاے ما درید
بانسری، اس کی ساتھی ہے جو یار سے کٹا ہو
اس کے راگوں نے ہمارے دل کے پردے پھاڑ دیئے
ہم چو نے زہرے و تریاقے کہ دید
ہم چو نے دمساز و مشتاقے کہ دید
بانسری جیسا زہر اور تریاق کس نے دیکھا ہے ؟
بانسری جیسا ساتھی اور عاشق کس نے دیکھا ہے ؟
نے حدیث راه پر خوں می کند
قصہ ہائے عشق مجنوں می کند
بانسریِ خطرناک راستہ کی بات کرتی ہے
مجنوں کے عشق کے قصے بیان کرتی ہے
محرم ایں ہوش جز بے ہوش نیست
مر زباں را مشتری چوں گوش نیست
اس ہوش کا رازداں بیہوش کے علاوہ کوئی نہیں ہے
زبان کا خریدار کان جیسا کوئی نہیں ہے
در غم ما روزہا بیگاہ شد
روزہا با سوزہا ہم راہ شد
ہمارے غم میں بہت سے دن ضائع ہوئے
بہت سے دن سوزشوں کے ساتھ ختم ہوئے
روزہا گر رفت گو رو باک نیست
تو بماں اے آں کہ چوں تو پاک نیست
دن اگر گزریں تو کہہ دو گذریں پروا نہیں ہے
اے وہ کہ تجھ جیسا کوئی پاک نہیں ہے ، تو رہے!
ہر کہ جز ماہی ز آبش سیر شد
ہر کہ بے روزی است روزش دیر شد
جو مچھلی کے علاوہ ہے اس کے پانی سے سیر ہوا
جو بے روزی ہے اس کا وقت ضائع ہوا
در نیابد حال پختہ ہیچ خام
پس سخن کوتاہ باید والسلام
کوئی ناقص ، کامل کا حال نہیں معلوم کر سکتا
پس بات مختصر چاہئے ، والسلام
بند بہ گسل باش آزاد اے پسر
چند باشی بند سیم و بند زر
اے بیٹا! قید کو توڑ، آزاد ہوجا
سونے ، چاندی کا قیدی کب تک رہےگا؟
گر بریزی بحر را در کوزه ای
چند گنجد قسمت یک روزه ای
اگر تو دریا کو ایک پیالے میں ڈالے
کتنا آئے گا ؟ ایک دن کا حصہ
کوزه چشم حریصاں پر نشد
تا صدف قانع نشد پر در نشد
حریصوں کی آنکھ کا پیالہ نہ بھرا
جب تک سیپ نے قناعت نہ کی موتی سے نہ بھرا
ہر کہ را جامہ ز عشقے چاک شد
او ز حرص و عیب کلی پاک شد
جس کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوا
وہ حرص اور عیب سے بالکل پاک ہوا
شاد باش اے عشق خوش سوداے ما
اے طبیب جملہ علتہاے ما
خوش رہ ، ہمارے اچھے جنون والے عشق !
اے! ہماری تمام بیماریوں کے طبیب
اے دواے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
اے ہمارے تکبر اور عزت طلبی کی دوا!
اے کہ تو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے !
جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد
خاکی جسم عشق کی وجہ سے آسمانوں پر پہنچا
پہاڑ، ناچنے لگا اور ہوشیار ہوگیا
عشق جان طور آمد عاشقا
طور مست و خر موسیٰ صاعقا
اے عاشق! عشق طور کی جان بنا
طور مست بنا اورموسیٰ بیہوش ہو کر گرے
با لب دمساز خود گر جفتمے
ہم چو نے من گفتنیہا گفتمے
اگر میں اپنے یار کے ہونٹ سے ملا ہوا ہوتا
بانسری کی طرح کہنے کی باتیں کہتا
ہر کہ او از ہم زبانے شد جدا
بے نوا شد گرچہ دارد صد نوا
جو شخص دوست سے جدا ہوا
بے سہارا ہوا ، خواہ سو سہارے رکھے
چونکہ گل رفت و گلستاں در گذشت
نشنوی زاں پس ز بلبل سرگذشت
جب پھول ختم ہوا اور باغ ویران ہوگیا
اس کے بعدتو بلبل کی سرگذشت نہ سنے گا
جملہ معشوقست و عاشق پردہ ای
زنده معشوقست و عاشق مردہ ای
تمام کائنات معشوق ہے اور عاشق پردہ ہے
معشوق زندہ ہے اور عاشق مردہ ہے
چوں نباشد عشق را پروئے او
او چو مرغے ماند بے پر واے او
جب عشق کو اس کی پروا نہ ہو
وہ بے پر کے پرندے کی طرح ہے ، اس پر افسوس ہے
من چہ گونہ ہوش دارم پیش و پس
چوں نباشد نور یارم پیش و پس
میں کیا کہوں کہ میں آگے پیچھے کا ہوش رکھتا ہوں
جب کہ میرے دوست کا نور ساتھی نہ ہو
عشق خواہد کائیں سخن بیروں بود
آئینہ غماز نبود چوں بود
عشق چاہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہو
تیرا آئینہ غماز نہ ہو تو کیوں کر ہو؟
آئینہ ات دانی چرا غماز نیست
زانکہ زنگار از رخش ممتاز نیست
تو جانتا ہے تیرا آئینہ غماز کیوں نہیں ہے
اس لئے کہ زنگ اس کے چہرے سے علیحدہ نہیں ہے
بشنوید اے دوستاں ایں داستاں
خود حقیقت نقد حال ماست آں
اے دوستو اس قصہ کو سنو
وہ خود ہمارے موجودہ حال کی حقیقت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.