Sufinama

خلوت طلبیدن آں ولی از پادشاہ جہت دریافتن رنج کنیزک‌‌

رومی

خلوت طلبیدن آں ولی از پادشاہ جہت دریافتن رنج کنیزک‌‌

رومی

MORE BYرومی

    خلوت طلبیدن آں ولی از پادشاہ جہت دریافتن رنج کنیزک‌‌

    لونڈی کا مرض معلوم کرنے کے لیے طبیب کا بادشاہ سے لونڈی کے ساتھ تنہائی چاہنا

    گفت اے شہ خلوتی کن خانہ را

    دور کن ہم خویش و ہم بیگانہ را

    بولا، اے بادِ شاہ! گھر کو خالی کر دے

    اپنے اور غیر کو ہٹا دے

    کس ندارد گوش در دہلیزہا

    تا بپرسم زیں کنیزک چیزہا

    دہلیزوں میں کوئی کان نہ لگائے

    تاکہ میں کنیز سے کچھ باتیں پوچھوں

    خانہ خالی ماند و یک دیار نے

    جز طبیب و جز ہماں بیمار نے

    گھر خالی کر دیا، اور کوئی گھر والا نہ رہا

    سوائے طبیب، اور سوائے بیمار کے کوئی نہ رہا

    نرم نرمک گفت شہر تو کجاست

    کہ علاج اہل ہر شہرے جداست

    آہستگی و نرمی سے (طبیب نے) کہا تیرا شہر کہاں ہے؟

    کیونکہ ہر شہر والے کا علاج جداگانہ ہے

    وندر آں شہر از قرابت کیستت

    خویشی و پیوستگی با چیستت‌‌

    اور اس شہر میں تیرا رشتہ دار کون ہے ؟

    اپنائیت اور تعلق کس سے ہے ؟

    دست بر نبضش نہاد و یک بہ یک

    باز می پرسید از جور فلک

    ہاتھ اس کی نبض پر رکھا اورایک ایک

    آسمان کے ظلم کا حال پوچھ رہا تھا

    چوں کسے را خار در پایش جہد

    پاۓ خود را برسر زانو نہد

    جب کسی کے پیر میں کانٹا چبھتا ہے

    اپنا پیر ران پر رکھ لیتا ہے

    وز سر سوزن ہمی جوید سرش

    ور نیابد می کند با لب ترش‌‌

    اس کا سرا سوئی کی نوک سے تلاش کرتا ہے

    اور اگر نہیں ملتا تو اسے لب سے تر کرتا ہے

    خار در پا شد چنیں دشوار یاب

    خار در دل چوں بود وادہ جواب

    پیر کا کانٹا پانا جب اس قدر دشوار ہے

    دل کے کانٹے کا کیا حال ہوگا؟ جواب دے

    خار دل را گر بدیدے ہر خسے

    دست کہ بودے غمان را بر کسے

    دل کا کانٹا اگر ہر شخص دیکھ سکتا

    تو غموں کو کسی پر کب قابو ہوتا ؟

    کس بزیر دم خر خارے نہد

    خر نداند دفع آں بر می جہد

    کوئی گدھے کی دم کے نیچے کانٹا رکھ دیتا ہے

    گدہے کو اس کے دورکرنے کا طریقہ نہیں معلوم، وہ کودتا ہے؟

    بر جہد واں خار محکم تر زند

    عاقلے باید کہ خارے بر کند

    وہ گدھا کودتا ہے اور اس کانٹے کو اورمضبوط کر دیتا ہے

    کوئی عقلمند چاہئے جو کانٹے کو نکالے

    خر ز بہر دفع خار از سوز و درد

    جفتہ می انداخت صد جا زخم کرد

    سوزش اور درد کی وجہ سے گدھے نے کانٹے کو دور کرنے کے لیے

    دو لتیاں پھینکیں اور سو جگہ زخم کر لیے

    آں حکیم خار چیں استاد بود

    دست میزد جا بجا می آزمود

    وہ کانٹا نکالنے والا طبیب، استاد تھا

    جا بجا ہاتھ مارتا تھا اور آزماتا تھا

    زاں کنیزک بر طریق داستاں

    باز می پرسید حال دوستاں

    اس لونڈی سے سچوں کی طرح

    گذشتہ حالات کے بارے میں پوچھتا تھا

    با حکیم او قصہ ہا می گفت فاش

    از مقام و خواجگاں و شہر تاش

    طبیب سے وہ راز کی باتیں کھل کر کہتی تھی

    مقام ، اور آقاؤں اور بستی والوں کے متعلق

    سوۓ قصہ گفتنش می داشت گوش

    سوۓ نبض و جستنش می داشت ہوش

    وہ اس کی قصہ گوئی پر کان لگائے تھا

    نبض اور اس کی حرکات پر پوری طرح متوجہ تھا

    تا کہ نبض از نام کے گردد جہاں

    او بود مقصود جانش در جہاں

    تاکہ (یہ جان لے کہ) کس نام پر اس کی نبض پھڑکتی ہے

    دنیا میں اس کا جانی محبوب وہی ہوگا

    دوستان شہر او را بر شمرد

    باد ازاں شہرے دگر را نام برد

    (پہلے) اس نے اپنے شہر کے دوستوں کو گنا

    اس کے بعد دوسرے شہر کا نام لیا

    گفت چوں بیروں شدی از شہر خویش

    در کدامیں شہر بودستی تو بیش

    (طبیب نے) کہا جب تو اپنے شہر سے نکلی

    زیادہ کس شہر میں رہی تھی

    نام شہرے گفت و زاں ہم در گذشت

    رنگ رو و نبض او دیگر نگشت‌‌

    اس نے ایک شہر کا نام لیا اور آگے بڑھی

    چہرہ کا رنگ اور اس کی نبض نہ بدلی

    خواجگان و شہرہا را یک بیک

    باز گفت از جائے و از نان و نمک

    آقاؤں اور شہر کا ایک ایک کر کے

    نام بتایا پھر مقام اور کھانے پینے کا ذکر کیا

    شہر شہر و خانہ خانہ قصہ کرد

    نے رگش جنبید و نے رخ گشت زرد

    ایک ایک شہر اور ایک ایک گاؤں کا ذکر کیا

    نہ اس کی نبض پھڑکی، نہ چہرہ زرد پڑا

    نبض او بر حال خود بد بے گزند

    تا بپرسید از سمرقند چو قند

    اس کی نبض بلا تکلف اپنی حالت پر تھی

    یہاں تک کہ (طبیب نے) شکر جیسے سمرقند کا حال پوچھا

    نبض جست و روئے سرخ و زرد شد

    کز سمرقندی زرگر فرد شد

    نبض پھڑکی اور اس کا لال چہرہ زرد ہوگیا

    اس لئے کہ سمر قندی سنار سے جدا ہوگئی

    چوں ز رنجور آں حکیم ایں راز یافت

    لعل آں درد‌ و بلا را باز یافت

    اس طبیب نے جب بیمار سے یہ راز لیا

    اس درد اور مصتبی کی جڑ معلوم کر لی

    گفت کوئے او کدام اندر گزر

    او سر پل گفت و کوۓ غاتفر

    اس (طبیب نے) کہا اس کا کوچہ اور راستہ کونسا ہے ؟

    اس (لونڈی) نے کہا (راستہ) سر پل اور کوچہ غاتفر ہے

    گفت دانستم کہ رنجت چیست زود

    در خلاصت سحرہا خواہم نمود

    چونکہ میں سمجھ گیا ہوں تیرا مرض کیا ہے جلد

    تیرے علاج میں جادو دکھاؤں گا

    شاد باش و فارغ و ایمن کہ من

    آں کنم با تو کہ باراں با چمن

    خوش اور مطمئن اور فارغ البال رہ کہ میں

    تیرے ساتھ وہ کچھ کرونگا جو بارش چمن سے کرتی ہے

    من غم تو می خورم تو غم مخور

    بر تو من مشفق‌‌ ترم از صد پدر

    میں تیرا غمخوار ہوں تو غم نہ کر

    سو باپوں سے بڑھ کر میں تجھ پر مہربان ہوں

    ہاں و ہاں ایں راز را با کس مگو

    گرچہ از تو شہ کند بس جستجو

    خبردار، خبردار، یہ راز کسی سے نہ کہنا

    اگرچہ بادشاہ بھی تجھ سے دریافت کرے

    گور خانۂ راز تو چوں دل شود

    آں مرادت زود‌ تر حاصل شود

    جب تیرا راز دل، میں چھپا ہوگا

    تیری وہ مراد بہت جلد تجھ کو حاصل ہوجائیگی

    گفت پیغمبر کہ ہر کہ سر نہفت

    زود گردد با مراد خویش جفت

    پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے

    جس شخص نے اپنا راز چھپایا یابہت جلد اپنی مراد سے وابستہ ہوا

    دانہ ہا چوں در زمیں پنہاں شود

    سر آں سر سبزی بستاں شود

    دانہ جب زمین میں چھپتا ہے

    اس کے بعد باغ کی سرسبزی (کا سبب) بنتا ہے

    زر و نقره گر نبودندی نہاں

    پرورش کے یافتندے زیر کاں

    سونا اور چاندی اگر چھپے نہ ہوتے

    تو کان میں پرورش کیسے پاتے

    وعده‌‌ ہا و لطفہاۓ آں حکیم

    کرد آں رنجور را ایمن ز بیم

    اس طبیب کے وعدوں اور مہربانیوں نے

    اس بیمار کو خوف سے مطمئن کر دیا

    وعده‌‌ ہا باشد حقیقی دل پذیر

    وعده‌‌ ہا باشد مجازی تا سہ گیر

    سچے وعدے دل پسند ہوتے ہیں

    (اور) جھوٹے وعدے پریشان کرتے ہیں

    وعدۂ اہل کرم نقد رواں

    وعدۂ نا اہل شد رنج رواں

    اہل کرم کا وعدہ جاری خزانہ ہے

    اور نا اہل کا وعدہ عذاب جان ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے