مژده بردن خرگوش سوۓ نخچیراں کہ شیر در چاہ افتاد
خرگوش کا شکاروں کے پاس خوشخبری لے جانا کہ شیر کنویں میں گرگیا ہے
چوں کہ خرگوش از رہائی شاد گشت
سوۓ نخچیراں دواں شد تا بدشت
خرگوش جب رہائی سے خوش ہوا
جنگل میں شکاروں کی طرف روانہ ہوا
شیر را چوں دید در چہ کشتہ زار
چرخ می زد شادماں تا مرغزار
اُس نے جب شیر کو اپنے ظلم میں مبتلا دیکھا
وہ تیز اپنی قوم کی طرف بھاگا
دست میزد چوں رہید از دست مرگ
سبز و رقصاں در ہوا چوں شاخ و برگ
جب موت کے پنجے سے چھوٹا، تالیاں بجاتا تھا
جس طرح شاخ اور پتّے ہوا میں سبز اور رقصاں ہوتے ہیں
شاخ و برگ از حبس خاک آزاد شد
سر بر آورد و حریف باد شد
شاخ اور پتّے مِٹّی کی قید سے آزاد ہوئے
تو سر اُبھارا اور ہوا کے دوست ہوگئے
برگ ہا چوں شاخ را بشکافتند
تا ببالاۓ درخت اشتافتند
پتّوں نے جب شاخ کو چیرا
یہاں تک کہ درخت کے اوپر تک چڑھ گئے
با زبان شطاہ شکر خدا
می سراید ہر بر و برگے جدا
’’شطاءۃ‘‘ کی زبان سے خدا کا شکر
ہر برگ و بار الگ الگ ادا کر رہا ہے
کہ بپرور اصل ما را ذو العطا
تا درخت استغلظ آمد واستویٰ
عطا کرنے والے نے ہماری جڑ کی پرورش کی
یہاں تک کہ درخت موٹا ہوگیا، پھر سیدھا ہوگیا
جان ہاۓ بستہ اندر آب و گل
چوں دہند از آب و گلہا شاد دل
پانی اور مٹّی میں مقیّد، جانیں
جب پانی اور مٹی سے خوشی کے ساتھ رہا کیجاتی ہیں
در ہواۓ عشق حق رقصاں شوند
ہمچو قرص بدر بے نقصاں شوند
اللہ کے عشق کی ہوا میں ناچتی ہیں
چودھویں رات کے چاند کی طرح بے نقصان ہو جاتی ہیں
جسم شاں در رقص و جانہا خود مپرس
وانکہ گرد جان ازانہا خود مپرس
انکے جسم رقص کرتے ہیں جانوں کے متعلّق تو نہ پوچھ
اور جو (مجسّم) جان بن جاتے ہیں ان کے بارے میں بھی نہ پوچھ
شیر را خرگوش در زنداں نشاند
ننگ شیرے کو ز خرگوشے بہ ماند
شیر کو خرگوش نے قید خانہ میں ڈال دیا
شیر کیلئے شرمناک بات ہے کہ وہ ایک خرگوش سے عاجز ہوگیا
در چناں ننگی و آنگہ ایں عجب
فخر دیں خواہد کہ گویندش لقب
تو اِیسے ہی ننگ میں (ممتلا) ہے اور پھر تعجّب ہے
تو چاہتا ہے کہ تجھے فخر دیں کا لقب دیں
اے تو شیری در تک ایں چاہ فرد
نفس چوں خرگوش خونت ریخت و خورد
اے (غافل) تو زمانہ کے اِس کنویں کی گہرائی میں شیر کی
تیرا نفس خرگوش کی طرح ہے جو قہر سے تیرا خون بہاتا ہے
نفس خرگوشت بہ صحرا در چرا
تو بقعر ایں چہ چوں و چرا
تیرا خرگوش (صفت) نفس جنگل کے اندر چرنے میں مشغول ہے
اور تو چوں وچرا کے اس کنویں کی گہرائی میں ہے
سوۓ نخچیراں دوید آں شیر گیر
کابشروا یا قوم اذ جاء البشیر
وہ شیر کو پھانسنے والا، شکاروں کی طرف دوڑا
کہ اے قوم خوشخبری حاصل کر لو جبکہ خوشخبری دینے والا آ گیا
مژده مژده اے گروه عیش ساز
کآں سگ دوزخ بدوزخ رفت باز
مُبارک، مُبارک اے عیش منانیوالے گروہ
وہ دوزخ کا کتّا پھر دوزخ میں چلا گیا
مژده مژده کآں عدو جانہا
کند قہر خالقش دندانہا
مُبارک مُبارک کہ تقدیر سے ظالم، کنویں میں
گرگیا، خدا کے انصاف اور مہربانی سے
آنکہ از پنجہ بسے سرہا بکوفت
ہمچو خس جاروب مرگش ہم بروفت
وہ جس نے پنجے سے بہت سے سر توڑ ڈالے
موت کی جھاڑو نے اسکو بھی کوڑے کی طرح جھاڑ دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.