نظر کردن شیر در چاه و دیدن عکس خود را و آں خرگوش را در آب
دلچسپ معلومات
اردو ترجمہ: سجاد حسین
نظر کردن شیر در چاه و دیدن عکس خود را و آں خرگوش را در آب
شیر کا کنویں میں جھانکنا اور اپنے اور اس خرگوش کے عکس کو دیکھنا
چوں کہ شیر اندر بر خویشش کشید
در پناه شیر تا چہ می دوید
جب شیر نے اُس کو اپنی بغل میں لے لیا
شیر کی حفاظت میں وہ کنویں تک دوڑا
چوں کہ در چہ بنگریدند اندر آب
اندر آب از شیر و او در تافت تاب
جب اُنہوں نے کنویں کے پانی میں دیکھا
پانی میں، شیر اور اُس کی جھلک دکھائی دی
شیر عکس خویش دید از آب تفت
شکل شیرے در برش خرگوش زفت
شیر نے گرم مزاجی میں پانی میں اپنا عکس دیکھا
شیر کی شکل اور اُس کی بغل میں موٹا خرگوش
چوں کہ خصم خویش را در آب دید
مرو را بگذاشت و اندر چہ جہید
جب اس نے پانی میں اپنے دشمن کو دیکھا
اس کو چھوڑ دیا، اور کنویں میں دوڑ گیا
در فتاد اندر چہے کوکنده بود
ز انکہ ظلمش در سرش آینده بود
اُس کنویں میں جا گرا جو اُس نے کھودا تھا
کیونکہ ظلم اُس کے سر پڑ نیوالا تھا
چاه مظلم گشت ظلم ظالماں
ایں چنیں گفتند جملہ عالماں
ظالموں کا ظلم اندھیرا کنواں تھا
تمام عالِموں نے یہی کہا ہے
ہر کہ ظالم تر چہش با ہولتر
عدل فرموده ست بتر را بتر
جو زیادہ ظالم ہے، اُسکا کنواں زیادہ خوفناک ہے
اِنصاف نے فرمایا ہے بدتر کو بدتر
اے کہ تو از ظلم چاہے می کنی
از براۓ خویش دامے می کنی
اے وہ کہ تو ظلم کر کے کنواں کھودتا ہے
خود اپنے لئے جال تنتا ہے
گرد خود چوں کرم پیلہ بر متن
بہر خود چہ می کنی اندازہ کن
ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے چاروں طرف نہ تن
تو اپنے لئے کنواں کھود رہا ہے، اندازے سے کھود
مر ضعیفاں را تو بے خصمی مداں
از نبی ذا جاء نصر الله خواں
تو کمزوروں کو بے حمایتی نہ سمجھ
قرآن سے اِذاجاءَ نَصرُاللہِ کو پڑھ
گر تو پیلی خصم تو از تو رمید
نک جزا طیرا ابابیلت رسید
اگر تو ہاتھی ہے، تیرا مدّ مقابل تجھ سے بھاگ گیا
دیکھ! طیراً ابابیل کی سزا تیرے پاس پہنچ گئی ہے
گر ضعیفے در زمیں خواہد اماں
غلغل افتد در سپاه آسماں
اگر کوئی کمزور زمین میں اَمان کا خواہاں ہوتا ہے
آسمان کے سپاہیوں میں شور مچ جاتا ہے
گر بدندانش گزیں پرخوں کنی
درد دندانت بگیرد چوں کنی
اگر تو اُسے دانتوں سے کاٹ کر لہو لہان کر دیگا
تجھے دانتوں کا درد آ پکڑ یگا تو تو کیا کریگا
شیر خود را دید در چہ وز غلو
خویش را نہ شناخت آن دم از عدو
شیر نے اپنے آپ کو کنویں میں دیکھا اور غلو کی وجہ سے
اپنی ذات اور دشمن میں اس وقت امتیاز نہ کر سکا
عکس خود را او عدو خویش دید
لا جرم بر خویش شمشیرے کشید
اُس نے اپنے عکس کو اپنا دشمن سمجھا
لا محالہ اپنے اوپر تلوار سونت لی
اے بسے ظلمے کہ بینی از کساں
کھوئے تو باشد در ایشاں اے فلاں
اے ظالم! ظلم( کی صفت) جو تو لوگوں میں دیکھتا ہے
اے فلاں! وہ اکثر تیری ہی خصلت ان میں ہوتی ہے
اندر ایشاں تافتہ ہستیٔ تو
از نفاق و ظلم و بد مستی تو
ان میں تیری ہستی نمایاں ہو رہی ہے
تیرے نفاق اور تیرے ظلم اور تیری بدمستی سے
آں تویی و آں زخم بر خود می زنی
بر خود آں ساعت تو لعنت می کنی
وہ تو ہی ہے اور وہ زخم تو اپنے آپ پر لگا رہا ہے
اور تو اُس وقت اپنے اوپر لعنت کے تار تن رہا ہے
در خود آں بد را نمی بینی عیاں
ورنہ دشمن بودیی خود را بجاں
تو اِس بدی کو اپنے اندر نمایاں نہیں پاتا ہے
ورنہ تو خود اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے
حملہ بر خود می کنی اے سادہ مرد
ہمچو آں شیرے کہ بر خود حملہ کرد
اے بیوقوف! تو اپنے اوپر حملہ کرتا ہے
اُس شیر کی طرح جس نے اپنے اوپر حملہ کیا
چوں بقعر خوۓ خود اندر رسی
پس بدانی کز تو بود آں ناکسی
جب تو اپنی عادت کی گہرائی پر پہونچیگا
پھر تو جانے گا کہ وہ نالائقی تیری ہی تھی
شیر را در قعر پیدا شد کہ بود
نقش او آں کش دگر کس می نمود
شیر کو گہرائی میں جا کر معلوم ہوا کہ
وہ اُس کا اپنا ہی عکس تھا جو دوسرے کا نظر آرہا تھا
ہر کہ دندان ضعیفی می کند
کار آں شیر غلط بیں می کند
جو کسی کمزور پر ظلم کرتا ہے
وہ اس غلط بیں شیر کا کام کرتا ہے
اے بہ دیدہ عکس بد برروۓ عم
بد نہ عمست آں توئی از خود مرم
اے چچا کے چہرے پر بد نما تِل دیکھنے والے!
وہ تیرے تِل کا عکس ہے، چچا سے نفرت نہ کر
مومناں آیینۂ ہم دیگرند
ایں خبر می از پیمبر آورند
مومن، ایک دوسرے کا آئینہ ہے
یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیان کی ہے
پیش چشمت داشتی شیشہ کبود
زاں سبب عالم کبودت می نمود
تو نے اپنی آنکھوں پر اندھا چشمہ لگایا ہے
اِس وجہ سے تجھے دنیا تاریک نظر آرہی ہے
گر نہ کوری ایں کبودی داں ز خویش
خویش را بد گو مگو کس را تو بیش
اگر تو اندھا نہیں ہے، تو یہ تاریکی اپنی طرف سے سمجھ
اپنے آپ کو بُرا کہہ، آئندہ کسی کو بُرا نہ کہہ
مومن ار ینظر بنور الله نبود
عیب مومن را برہنہ چوں نمود
اگر مومن’’ینظر بنور اللہ‘‘ نہیں تھا
تو اُس نے مومن کا عیب صاف کیسے بتا دیا
چوں کہ تو ینظر بنور الله بدی
نیکوئی را وا نہ دیدی از بدی
چونکہ تو یَنُظُرُ بِنارِ اللہ تھا
(ٓاِس لئے) نیکی کو بدی سے پہچان سکا
اندک اندک آب بر آتش بزن
تا شود نار تو نور اے بو الحزن
آگ پر تھوڑا تھوڑا پانی چھڑک
اے غمگین! تاکہ تیری آگ نور بن جائے
تو بزن یا ربنا آب طہور
تا شود ایں نار عالم جملہ نور
اے ہمارے رب تو پاک پانی چھڑک
تاکہ یہ دنیا کی آگ سب نور بن جائے
آب دریا جملہ در فرمان تست
آب و آتش اے خداوند آن تست
پہاڑ اور دریا سب تیرے حکم کے ماتحت ہیں
اے خدا! پانی اور آگ تیری ملکیت ہے
گر تو خواہی آتش آب خوش شود
ور نہ خواہی آب ہم آتش شود
اگر تو چاہے، آگ عمدہ پانی بن جائے
اگر نہ چاہے تو پانی بھی آگ بن جائے
ایں طلب در ما ہم از ایجاد تست
رستن از بیداد یا رب داد تست
بغیر مانگے تو نے ہمیں مرادیں دی ہیں
اَن گنت اور بے شمار تونے اِنعام فرمائے ہیں
بے طلب تو ایں طلب ماں دادۂ
بے شمار و حد عطاہا دادۂ
یہ ہمارا مانگنا بھی تیری ہی ایجاد ہے
اے خدا! ظلم سے نجات پانا، تیری عطا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.