خلیفہ کے لیلیٰ کو دیکھنے کا قصہ
گفت لیلیٰ را خلیفہ کاں توئی
کز تو مجنوں شد پریشان و غوی
خلیفہ نے لیلیٰ سے کہا کیا تو وہی ہے
کہ تیری وجہ سے مجنوں پریشان اور دیوانہ ہوا ہے
از دگر خوباں تو افزوں نیستی
گفت خامش چوں تو مجنوں نیستی
تو دوسرے حسینوں سے بڑھ کر تو نہیں ہے
اس نے کہا خاموشِ رہ چونکہ تو مجنوں نہیں ہے
ہر کہ بیدارست او در خواب تر
ہست بیداریش از خوابش بتر
جو بیدار ہے ، وہ زیادہ نیند (غفلت) میں ہے
اس کی بیداری، نیند سے بدتر ہے
چوں بحق بیدار نبود جان ما
ہست بیداری چو در بندان ما
جب ہماری جان خدا کے معاملے میں بیدار نہ ہو
تو ہماری بیداری قید خانے کی بیداری کی طرح ہے
جاں ہمہ روز از لگد کوب خیال
وز زیان و سود وز خوف زوال
پورے دن جان،خیالات کی پائمال
اور نقصان و نفع اور زوال کے خوف سے
نے صفا می ماندش نے لطف و فر
نے بسوۓ آسماں راہ سفر
نہ اس میں صفائی رہتی ہے نہ پاکیزگی اور قوت
نہ آسمان کی طرف سفر کا راستہ
خفتہ آں باشد کہ او از ہر خیال
دارد اومید و کند با او مقال
سویا ہوا وہ ہے جو ہر خیال سے
امید وابستہ کرے اور اس کے متعلق گفتگو کرے
دیو را چوں حور بیند او بہ خواب
پس ز شہوت ریزد او با دیو آب
وہ خواب میں شیطان کو حور دیکھتا ہے
پھر شہوت سے اس ہم بستری کرتا ہے
چونکہ تخم نسل را در شوره ریخت
او بخویش آمد خیال از وے گریخت
جیسے ہی نسل کا بیج اس نے شور زمین میں ڈالا
وہ بیدار ہوا اور خیال اس سے روانہ ہوا
ضعف سر بیند از آن و تن پلید
آہ از آں نقش پدید ناپدید
اس کی وجہ سے سر کی کمزوری محسوس کرتا ہے اور جسم پلید
اس ظاہری اور معدوم نقش پر افسوس ہے
مرغ بر بالا پران و سایہ اش
میدود بر خاک پراں مرغ وش
پرندہ اوپر اڑ رہا ہے اور اس کاسایہ
پرندہ کی طرح زمین پر اڑان کر رہا ہے
ابلہے صیاد آں سایہ شود
میدود چنداں کہ بے مایہ شود
بیوقوف، اس سایہ کا شکاری بنتا ہے
اتنا دوڑتا ہے کہ بے طاقت ہو جاتا ہے
بے خبر کاں عکس آں مرغ ہواست
بے خبر کہ اصل آں سایہ کجاست
اس سے غافل ہے کہ وہ ہوا کے پرندہ کا عکس ہے
اور اس سے بے خبر ہے کہ اس سایہ کی اصل کہاں ہے
تیر اندازد بسوۓ سایہ او
ترکشش خالی شود از جستجو
وہ سایہ کی طرف تیر اندازی کرتا ہے
(اور) جستجو ہی میں اس کا ترکش خالی ہو جاتا ہے
ترکش عمرش تہی شد عمر رفت
از دویدن در شکار سایہ تفت
اس کی عمر کا ترکش خالی ہوا، عمر (برباد) گئی
سایہ کے شکار میں دوڑنے سے جل بھن گیا
سایۂ یزداں چو باشد دایہ اش
وارہاند از خیال و سایہ اش
جب اللہ کا سایہ اس کی دایہ ہو
تو اس کو سایہ کے خیال سے نجات دے دیگا
سایۂ یزداں بود بندۂ خدا
مردۂ ایں عالم و زندۂ خدا
خدا کا بندہ اس کا سایہ ہوتا ہے
وہ اس دنیا کا مردہ اور خدا کا زندہ ہوتا ہے
دامن او گیر زوتر بے گماں
تا رہی در دامن آخر زماں
اس کا دامن شک و شبہ کے بغیر جلد تھام لے
تاکہ آخرت کی مصیبت سے تو چھوٹ جائے
کیف مد الظل نقش اولیاست
کو دلیل نور خورشید خداست
کیف مد الظل اولیاء کا وجود ہے
جو اللہ کے آفتاب کے نور کے رہنما ہیں
اندریں وادی مرو بے ایں دلیل
لا أحب الآفلیں گو چوں خلیل
اس وادی میں بغیر رہنما کے نہ چل
خلیل اللہ کی طرح کہہ دے میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں
رو ز سایہ آفتابے را بیاب
دامن شہ شمس تبریزی بتاب
جا، سایہ کے ذریعہ آفتاب کو حاصل کر لے
اور شاہ شمس تبریزی کا دامن تھام لے
رہ نہ دانی جانب ایں سور و عرس
از ضیا الحق حسام الدیں بپرس
اس جشن اور شادی کا اگر تجھے راستہ معلوم نہیں ہے
تو ضیاء الحق حسام الدین سے پوچھ لے
ور حسد گیرد ترا در رہ گلو
در حسد ابلیس را باشد غلو
اگر راستہ میں حسد تیرا گلا دبائے
حسد میں شیطان کو غلو ہے
کو ز آدم ننگ دارد از حسد
با سعادت جنگ دارد از حسد
اس لئے کہ وہ حسد کی وجہ سے آدم سے ذلت محسوس کرتا ہے
اور حسد کی وجہ سے نیک بختی سے جنگ کرتا ہے
عقبۂ زیں صعب تو در راه نیست
اے خنک آنکش حسد ہمراہ نیست
راستہ میں اس سے سخت گھاٹی نہیں ہے
وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جس کے ساتھ حسد نہیں ہے
ایں جسد خانہ حسد آمد بداں
کز حسد آلودہ باشد خانداں
یہ جسم حسد کا گھر ہے، سمجھ لے
حسد میں پورا خاندان مبتلا ہو جاتا ہے
گر جسد خانہ حسد باشد ولیک
آں جسد را پاک کرد الله نیک
اگرچہ جسم حسد کا گھر ہوسکتا ہے ، لیکن
جسم کو اللہ نے خوب پاک کر دیا ہے
طہرا بیتی بیان پاکیست
گنج نورست ار طلسمش خاکیست
تم دونوں میرے گھر کو پاک کرو، پاکی کا بیان ہے
نور کا خزانہ ہے اگرچہ اس کا نقش مٹی کا ہے
چوں کنی بر بے جسد مکر و حسد
زاں حسد دل را سیاہی ہا رسد
جب تو کسی صاف دل کے ساتھ مکر اور حسد کرے گا
تو اس حسد سے دل میں سیاہیاں پیدا ہوں گی
خاک شو مردان حق را زیر پا
خاک بر سر کن حسد را ہمچو ما
خاصان خدا کے پیر کے نیچے خاک بنجا
ہماری طرح حسد پر مٹی ڈال
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.