قصۂ ہدہد و سلیمان در بیان آنکہ چوں قضا آید چشم ہاۓ روشن بستہ شود
حضرتِ سلیمان علیہ السّلام اور ہُد ہُد کا قصّہ اور
اس کا بیان کہ جب قصا آتی ہے آنکھیں بند ہو جاتی ہیں
چوں سلیماں را سرا پرده زدند
پیش او مرغاں بہ خدمت آمدند
جب حضرتِ سلیمانؑ کا خیمہ لگایا گیا
تمام پرندے خدمت میں حاضر ہوئے
ہم زبان و محرم خود یافتند
پیش او یک یک بجاں بشتافتند
اُن کو اپنا ہم زبان اور محرم پایا
ایک ایک کرکے دل و جان سے اُنکے سامنے دوڑ آئے
جملہ مرغاں ترک کردہ چیک چیک
با سلیماں گشتہ افصح من اخیک
تمام پرندوں نے چیں چیں چھوڑ کر
حضرت سلیمانؑ کے ساتھ تیرے بھائی سے بھی زیادہ فصیح ہو گئے
ہم زبانی خویشی و پیوندیست
مرد با نا محرماں چوں بندیست
ہم زبانی ، قرابت اور رشتہ داری ہے
انسان، نامحرموں کے ساتھ قیدی جیسا ہے
اے بسا ہندو و ترک ہم زباں
اے بسا دو ترک چوں بیگانگاں
اے (مخاطب) بہت سے ہندو اور ترک ہمزبان (محرم ہیں)
اے (مخاطب) دو ترک بیگانوں کی طرح ہیں
پس زبان محرمی خود دیگرست
ہم دلی از ہم زبانی بہترست
محرمی کی زبان دوسری ہے
ہم دلی، ہم زبانی سے بہتر ہے
غیر نطق و غیر ایماء و سجل
صد ہزاراں ترجماں خیزد ز دل
بغیر بولے اور بغیر اشارے اور لکھنے کے
دل سے لاکھوں ترجمان پیدا ہو جاتی ہیں
جملہ مرغاں ہر یکے اسرار خود
از ہنر وز دانش و از کار خود
تمام پرندوں میں سے ہر ایک اپنے راز
ہنر اور عقل اور اپنے کام
با سلیماں یک بیک وا می نمود
از براۓ عرضۂ خود را می ستود
حضرتِ، سلیمان علیہ السّلام سے ایک ایک کرکے ظاہر کر رہا تھا
پیش کرنے کے لئے اپنی تعریف کرتا تھا
از تکبر نے و از ہستیٔ خویش
بہر آں تا رہ دہد او را بہ پیش
نہ تکبّر سے، اور نہ اپنی خودی سے
اِس لئے کہ وہ اپنی پیشی کا راستہ دیدیں
چوں بہ باید بردهٔ را از خواجۂ
عرضہ دارد از ہنر دیباجۂ
جب کسی غلام کے پاس کوئی آقا آتا ہے
وہ ہُنر کا رُخسار پیش کرتا ہے
چونکہ دارد از خریداریش ننگ
خود کند بیمار و شل و کر و لنگ
جب وہ اس کی خریداری کو ذلّت سمجھتا ہے
اپنے آپ کو بیمار اور بہرا اور لولا اور لنگڑا بنا لیتا ہے
نوبت ہدہد رسید و پیشہ اش
واں بیان صنعت و اندیشہ اش
ہُد ہُد اور اُس کے پیشے کی باری آئی
تو اُس کی کاری گری اور تدبیر کا بیان ہوا
گفت اے شہ یک ہنر کاں کہترست
باز گویم گفت کوتہ بہترست
اُس نے کہا اے شاہ! ایک ہُنر جو چھوٹا ہے
کہتا ہوں، مختصر بات بہتر ہے
گفت بر گو تا کدام ست آں ہنر
گفت من آنگہ کہ باشم اوج بر
اُنہوں نے کہا، کہہ وہ ہُنر کونسا ہے؟
اُس نے کہا جس وقت میں بلندی پر ہوتا ہوں
بنگرم از اوج با چشم یقیں
من ببینم آب در قعر زمیں
بلندی سے ، یقین کی آنکھ سے دیکھتا ہوں
زمین کی گہرائی میں پانی کو دیکھ لیتا ہوں
تا کجا است و چہ عمقستش چہ رنگ
از چہ می جوشد ز خاکے یا ز سنگ
کہ کہاں ہے اُس کی کتنی گہرائی ہے، کیا رنگ ہے؟
کس چیز میں سے اُبل رہا ہے مِٹی سے یا پتّھر سے؟
اے سلیماں بہر لشکر گاہ را
در سفر می دار ایں آگاہ را
اے سلیماںؑ! فوجی کیمپ کے لئے
سفر میں اِس با خبر کو ساتھ رکھ
پس سلیمان گفت اے نیک و رفیق
در بیابانہاۓ بے آب عمیق
پس (حضرتِ) سلیمانؑ نے کہا، ہمارا سفر کا ساتھ بنجا
اے مہربان! بے آب جنگلوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.