Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

اضافت کردن آدم آں زلت را بخویشتن کہ ربّنا ظلمنا و اضافت کردن ابلیس گناہ خود را بخدا کہ بما اغويتنی

رومی

اضافت کردن آدم آں زلت را بخویشتن کہ ربّنا ظلمنا و اضافت کردن ابلیس گناہ خود را بخدا کہ بما اغويتنی

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    اردو ترجمہ: سجاد حسین

    اضافت کردن آدم آں زلت را بخویشتن کہ ربّنا ظلمنا و اضافت کردن ابلیس گناہ خود را بخدا کہ بما اغويتنی

    حضرتِ آدم علیہ السلام کا اپنی لغزش کو اپنی طرف منسوب کرنا کہ اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا

    کرد ما و کرد حق ہر دو ببیں

    کرد ما را ہست داں پیداست ایں

    اور شیطان کا اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب کرنا کہ اے میرے رب مجھے تونے کیوں گمراہ کیا

    گر نباشد فعل خلق اندر میاں

    پس مگو کس را چرا کردی چناں

    اللہ کے فعل اور ہمارے فعل، دونوں کو دیکھ

    ہمارے فعل کو تو موجود سمجھ، یہ ظاہر ہے

    خلق حق افعال ما را موجدست

    فعل ما آثار خلق ایزدست

    اگر مخلوق کا فعل موجود نہ ہو

    تو کسی کو نہ کہہ کہ تونے ایسا کیوں کیا؟

    ناطقے یا حرف بیند یا غرض

    کیے شود یک دم محیط دو عرض

    اللہ کی آفرینش ہمارے اَفعال کی مُوجد ہے

    ہمارے فعل، اللہ کی آفرینش کے نتیجے ہیں

    گر بمعنی رفت شد غافل ز حرف

    پیش و پس یک دم نبیند ہیچ طرف

    اسلئے کہ بولنے والا یا حرفوں کو دیکھتا ہے یا مطلب کو

    ایکدم دو حالتوں پر کیسے حاوی ہو سکتا ہے؟

    آں زماں کہ پیش بینی آں زماں

    تو پس خود کے بہ بینی ایں بداں

    اگر معنیٰ کی طرف گیا، حروف سے غافل ہوا

    کوئی آنکھ ایکدم آگے اور پیچھے نہیں دیکھ سکتی

    چوں محیط حرف و معنی نیست جاں

    چوں بود جاں خالق ایں ہر دوآں

    جس وقت تو آگے دیکھتا ہے، اُس وقت

    تو اپنے پیچھے کب دیکھ سکتا ہے، یہ سمجھ لے

    چوں محیط ہر دو آمد اے پسر

    وا ندارد کارش از کار دگر

    جب ایک جان حروف اور معنیٰ پر حاوی نہیں ہوسکتی ہے

    تو جان دونوں کی خالق کیسے ہو سکتی ہے؟

    گفت شیطاں کہ بما اغویتنی

    کرد فعل خود نہاں دیو دنی

    اے بیٹا! اللہ سب پر حاوی ہے

    اُسکو ایک کام دوسرے کام سے نہیں روکتا ہے

    گفت آدم کہ ظلمنا نفسنا

    او ز فعل حق نبد غافل چو ما

    شیطان نے کہا کہ مجھے کیوں گمراہ کیا؟

    کمینے شیطان نے اپنے فعل کو چھپانا

    در گنہ او از ادب پنہانش کرد

    زاں گنہ بر خود زدن او بر بخورد

    آدم (علیہ السّلام) نے کہا ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا

    وہ اپنے فعل سے ہماری طرح غافل نہ تھے

    بعد توبہ گفتش اے آدم نہ من

    آفریدم در تو آں جرم و محن‌‌

    انہوں نے گناہ (کے معاملہ) پر ادب کی وجہ سے اس (اللہ کے فعل) کو چھپا لیا

    اپنے اوپر گناہ لے لینے سے اُنہوں نے پھل کھایا

    نہ کہ تقدیر و قضاۓ من بداں

    چوں بوقت عذر کردی آں نہاں

    توبہ کے بعد اُن سے کہا اے آدم! کیا میں نے نہیں

    پیدا کیا تھا تجھ میں وہ جرم اور مصیبتیں

    گفت ترسیدم ادب نگذاشتم

    گفت من ہم پاس آنت داشتم‌‌

    کیا وہ میری تقدیر اور قضا نہ تھی؟

    تونے عذر کے وقت اس کو کیوں چھپایا؟

    ہر کہ آرد حرمت او حرمت برد

    ہر کہ آرد قند لوزینہ خورد

    حضرتِ آٓدمؑ نے کہا میں ڈرا، ادب کو نہ چھوڑا

    (اللہ تعالےٰ) نے فرمایا میں نے بھی تیرے لئے اُس کا لحاظ رکھا

    طیبات از بہر کہ للطیبیں

    یار را بر کش برنجاں و ببیں

    جو شخص تعظیم کرتا ہے عزّت پاتا ہے

    جو شخص شُکر لاتا ہے وہ بادامی حلوہ کھاتا ہے

    یک مثال اے دل پۓفرقی بیار

    تا بدانی جبر را از اختیار

    پاک چیزیں کس کے لئے ہیں، پاک لوگوں کے لئے

    دوست کو خوش رکھ، رنجیدہ نہ کر اور دیکھ

    دست کاں لرزاں بود از ارتعاش

    وانکہ دستے را تو لرزانی ز جاش

    اے دل! ایک مال فرق کرنے کے لئے لا

    تاکہ تو جبر کو اختیار سے جدا سمجھ سکے

    ہر دو جنبش آفریدۂ حق شناس

    لیک نتواں کرد ایں با آں قیاس

    وہ ہاتھ جو رعشہ سے ہل رہا ہے

    اور وہ ہاتھ جسکو تو جگہ سے ہلا رہا ہے

    زیں پشیمانی کہ لرزانیدیش

    چوں پشیماں نیست مرد مرتعش

    دونوں حرکتوں کو اللہ کی پیدا کردہ سمجھ

    لیکن اِسکو اُس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے

    بحث عقلست ایں چہ بحث اے حیلہ گر

    تا ضعیفے رہ برد آنجا مگر

    اُس سے تو شرمندہ ہے جس کو تونے ہلایا ہے

    رعشہ والا انسان کیوں شرمندہ نہیں ہے؟

    بحث عقلی گر در و مرجاں بود

    آں دگر باشد کہ بحث جاں بود

    یہ عقلی بحث ہے، عقل کیا ہے، حیلہ گر ہے

    شاید کوئی کمزور (اُسکے ذریعہ) اُس مقام تک پہونچ جائے

    بحث جاں اندر مقامے دیگرست

    بادۂ جاں را قوامے دیگرست

    عقلی بحث، خواہ موتی اور مونگا ہو

    روحانی بحث دوسری ہی چیز ہے

    آں زماں کہ بحث عقلی ساز بود

    ایں عمر با بو الحکم ہم راز بود

    روحانی بحث کا مقام دوسرا ہے

    روحانی شراب کا قوام ہی دوسرا ہے

    چوں عمر از عقل آمد سوئے جاں

    بو الحکم بوجہل شد در بحث آں

    جس زمانہ میں عقلی بحث مہیا تھی

    یہ (حضرت) عمرؓ ابو جہل کے ساتھ ہمراز تھے

    سوۓ حس و سوۓ عقل او کاملست

    گرچہ خود نسبت بجاں او جاہلست‌‌

    عمرؓ جب عقل سے روح کی طرف آئے

    اُنکی بحث میں بوا لحکم ابوجہل بن گیا

    بحث عقل و حس اثر داں یا سبب

    بحث جانی یا عجب یا بوالعجب

    عقل اور حواس کے اعتبار سے وہ پورا ہے

    اگرچہ روح کے اعتبار سے وہ جاہل ہے

    ضوء جاں آمد نماند اے مستضیٰ

    لازم و ملزوم و نافی مقتضی‌‌ٰ

    عقلی اور حسّی بحث کو اثر یا سبب سمجھ

    روحانی بحث یا عجیب ہے یا اُس سے بھی بڑھکر ہے

    زانکہ بینا را کہ نورش بازغ است

    از دلیل چوں عصا بس فارغ است

    اےروشنی کے طالب! روح کا نور جب آیا

    لازم اور ملزوم اور نافی مقتضی نہ رہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے