Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قصۂ بازرگاں کہ طوطی او را پیغام داد بطوطیان ہندوستان ہنگام رفتن بتجارت‌‌

رومی

قصۂ بازرگاں کہ طوطی او را پیغام داد بطوطیان ہندوستان ہنگام رفتن بتجارت‌‌

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    اردو ترجمہ: سجاد حسین

    قصۂ بازرگاں کہ طوطی او را پیغام داد بطوطیان ہندوستان ہنگام رفتن بتجارت‌‌

    ایک سودا گر کا قصّہ جو ہندوستان کو تجارت کے لئے جارہا تھا اور ایک قیدی طوطی کا ہندوستان کی طوطیوں کو پیغام دینا

    بود بازرگان او را طوطیے

    در قفس محبوس زیبا طوطیے

    ایک سودا گر کے پاس ایک طوطی تھی

    ایک خوبصورت طوطی جو پنجرے میں قیدی تھی

    چونکہ بازرگاں سفر را ساز کرد

    سوۓ ہندستاں شدن آغاز کرد

    جب سودا گر نے سفر کا سامان کیا

    اور ہندوستان کی طرف روانگی کا آغاز کیا

    ہر غلام و ہر کنیزک را ز جود

    گفت بہر تو چہ آرم گوۓ زود

    ہر غلام اور لونڈی کو بطور بخشش کے

    کہا، جلد بتا، تیرے لئے کیا لاؤں؟

    ہر یکے از وے مرادے خواست کرد

    جملہ را وعدہ بداد آں نیک مرد

    ہر ایک نے اُس سے اپنی ایک خواہش ظاہر کی

    اِس نیک مرد نے سب سے وعدہ کیا

    گفت طوطی را چہ خواہی ارمغاں

    کآرمت از خطۂ ہندوستاں

    اُس نے طوطی سے کہا تو کیا سوغات چاہتی ہے

    جو تیرے لئے ہندوستان سے لاؤں؟

    گفت آں طوطی کہ آنجا طوطیاں

    چوں بہ بینی کن ز حال ما بیاں

    اُس طوطی نے اُس سے کہا وہاں طوطیاں ہیں

    جب تو دیکھے، میرا حال بیان کر دینا

    کاں فلاں طوطی کہ مشتاق شماست

    از قضائے آسماں در حبس ماست

    کہ فلاں طوطی جو تمہاری مشتاق ہے

    آسمانی فیصلہ کے مطابق وہ ہماری قید میں ہے

    بر شما کرد او سلام و داد خواست

    وز شما چاره و ره ارشاد خواست

    اُس نے تمہیں سلام کہا ہے اور انصاف کی درخواست کی ہے

    اور تم سے راستہ کی تدبیر اور رہنمائی چاہی ہے

    گفت می‌‌ شاید کہ من در اشتیاق

    جاں دہم اینجا بمیرم در فراق

    اُس نے کہا ہے کیا یہ مناسب ہے کہ میں شوق میں

    اِس جگہ جان دیدوں اور فراق میں مرجاؤں

    ایں روا باشد کہ من در بند سخت

    گہ شما بر سبزہ گاہے بر درخت

    کیا یہ جائز ہوگا کہ میں سخت قید میں رہوں

    اور تم کبھی سبزہ پر اور کبھی درخت پر؟

    ایں چنیں باشد وفائے دوستاں

    من دریں حبس و شما در بوستاں

    اے دوستو! وفا ایسی ہی ہوتی ہے

    میں اِس قید میں رہوں اور تم باغ میں؟

    یاد آرید اے مہاں زیں مرغ زار

    یک صبوحے درمیان مرغزار

    اے صاحبان! اِس تباہ حال پرند کو یاد کر لو

    کسی صبح کو سبزہ زار میں

    یاد یاراں یار را میموں بود

    خاصہ کاں لیلی و ایں مجنوں بود

    دوستوں کی یاد دوست کے لئے مبارک ہوتی ہے

    خصوصاً جبکہ وہ لیلیٰ اور مجنوں ہو

    اے حریفان بت موزون خود

    من قدحہا می خورم پر خون خود

    اے دوستو! (تم) اپنے حسین محبوب کے ساتھ (جام نوش کر رہے ہو)

    میں اپنے خون کے پیالے پی رہی ہوں

    یک قدح مے نوش کن بر یاد من

    گر ہمی خواہی کہ بدہی داد من

    میری یاد میں ایک پیالہ شراب کا پی

    اگر میرے حق میں انصاف کرنا چاہتا ہے

    یا بیاد ایں فتادہ خاک بیز

    چونکہ خوردی جرعہ اے بر خاک ریز

    یا، اِس افتادہ خاک چھاننے والے کی یاد میں

    جب توپیئے، ایک گھونٹ زمین پر بہادے

    اے عجب آں عہد و آں سوگند کو

    وعده‌‌ ہاۓ آن لب چوں قند کو

    ہائے تعجّب! وہ وعدہ اور قسمیں کہاں گئیں؟

    اُس شکر جیسے ہونٹ کے وعدے کہاں گئے؟

    گر فراق بنده از بد بندگیست

    چوں تو با بد بد کنی پس فرق چیست

    اگر بندہ سے جدائی اسکی بندگی کو تاہی کی وجہ سے ہے

    جب تو بُرے کیساتھ بُرا کرے تو فرق کیا ہے؟

    اے بدی کہ تو کنی در خشم و جنگ

    با طرب تر از سماع و بانگ چنگ‌‌

    اے (خدا) تو جو برائی غصّہ اور لڑائی میں کرتا ہے

    سارنگی کی آواز کے سننے سے بھی زیادہ خوشگوار ہے

    اے جفائے تو ز دولت خوب تر

    و انتقام تو ز جاں محبوب تر

    اے (خدا) تیرا ظلم (دنیا کی) دولت سے بہتر ہے

    اور تپرا انتِقام جان سے زیادہ پیارا ہے

    نار تو اینست نورت چوں بود

    ماتم ایں تا خود کہ سورت چوں بود

    تیری آگ یہ ہے تو تیرا نور کیسا ہوگا؟

    تیرا غم ایسا ہے تو تیری شادی کیسی ہوگی؟

    از حلاوتہا کہ دارد جور تو

    وز لطافت کس نیابد غور تو

    تیرا ظلم جو شیرینیاں رکھتا ہے

    اور لطافت، کوئی شخص تیری گہرائی کو نہیں پاسکتا ہے

    نالم و ترسم کہ او باور کند

    وز کرم آں جور را کمتر کند

    میں روتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ وہ یقین کر لے

    اور رحم کھا کر ظلم کو گھٹا دے

    عاشقم بر قہر و بر لطفش بجد

    بوالعجب من عاشق ایں ہر دو ضد

    میں اُس کے قہر اور مہربانی پر واقعتہً عاشق ہوں

    تعجّب ہے میں اِن دو مخالف چیزوں کا عاشق ہوں

    واللہ ار زیں خار در بستاں شوم

    ہمچو بلبل زیں سبب نالاں شوم

    واللہ اگر اِس خار سے (ہٹ کر) باغ میں چلا جاؤں

    اِس وجہ سے بُلبل کی طرح نالہ کروں

    ایں عجب بلبل کہ بگشاید دہاں

    تا خورد او خار را با گلستاں

    یہ عجیب بُلبل ہے کہ مُنہ پھیلائی ہے

    تاکہ گلستاں کو مع کانٹے کے نگل لے

    ایں چہ بلبل ایں نہنگ آتشیست

    جملہ ناخوشہا ز عشق او را خوشیست‌‌

    یہ بُلبل نہیں ہے (بلکہ) یہ آگ کا مگر مچھ ہے

    عشق کی وجہ سے تمام ناگواریاں اُسکو گوارہ ہیں

    عاشق کلست و خود کلست او

    عاشق خویشست و عشق خویش جو

    وہ کُل کا عاشق ہے اور وہ خود کُل ہے

    اپنے آپ کا عاشق ہے اور اپنے عشق کا جویاں ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے