Sufinama

طنز و انکار کردن بادشاه جہود و قبول نکردن نصیحت خاصان خویش‌‌

رومی

طنز و انکار کردن بادشاه جہود و قبول نکردن نصیحت خاصان خویش‌‌

رومی

MORE BYرومی

    طنز و انکار کردن بادشاه جہود و قبول نکردن نصیحت خاصان خویش‌‌

    یہودی بادشاہ کا نصیحت کرنے والوں کی نصیحت پر طنز اور انکار

    ایں عجائب دید آں شاہ جہود

    جز کہ طنز و جز کہ انکارش نبود

    (جب) یہودی بادشاہ نے یہ عجائب دیکھے

    سوائے طنز اور سوائے انکار کے اس سے کچھ نہ ہوا

    ناصحاں گفتند از حد مگذراں

    مرکب استیزه را چندیں مراں

    نصیحت کرنے والوں نے کہا، حد سے نہ گذر

    جھگڑے کی سواری کو اس قدر تیز نہ دوڑا

    ناصحاں را دست بست و بند کرد

    ظلم را پیوند در پیوند کرد

    اس نے نصیحت کرنے والوں کے ہاتھ باندھے اور قید کر دیا

    ظلم کو پیوند در پیوند کر دیا

    بانگ آمد کار چوں اینجا رسید

    پائے دار اے سگ کہ قہر ما رسید

    جب کام یہاں تک پہونچا، آواز آئی

    اے کتے ! ٹھہرا ہما ر قہر آپہونچا ہے

    باد از آں آتش چہل گز بر فروخت

    حلقہ گشت و آں جہوداں را بہ سوخت

    اس کے بعد آگ چالیس گز ابھری

    گھیرا ڈالا، اور ان یہودیوں کو جلا دیا

    اصل ایشاں بود ز آتش ابتدا

    سوئے اصل خویش رفتند انتہا

    ان کی اصل شروع ہی سے آگ تھی

    بالآخر اپنی اصل کی طرف چلے گئے

    ہم ز آتش زادہ بودند آں فریق

    جزو ہا را سوئے کل باشد طریق

    وہ لوگ آگ ہی سے پیدا ہوئے تھے

    اور اجزاء کا کل کی طرف راستہ ہوتا ہے

    آتشے بودند مومن سوز و بس

    سوخت خود را آتش ایشاں چو خس

    وہ محض مومن سوز، آگ تھے

    آگ نے خود ان کو، تنکے کی طرح جلا دیا

    آنکہ بودست امہ الہاویہ

    ہاویہ آمد مر او را زاویہ

    جو شخص بادیہ (دوزخ) کی جڑ ہے

    ہادیہ ہی اس کا گوشہ بنی

    مادر فرزند جویان ویست

    اصلہا مر فرعہا را در پیست‌‌

    بچے کی ماں اپنے بچے کی جویا ہے

    جڑیں، شاخوں کے درپے ہیں

    آب اندر حوض اگر زندانیست

    باد نشفش می کند کار کانیست‌‌

    پانی اگرچہ حوض میں بند ہے

    ہوا اس کو جذب کرتی ہے کیونکہ وہ عنصری ہے

    می رہاند می برد تا معدنش

    اندک اندک تا بہ بینی بردنش‌‌

    (ہوا) اس کو رہائی دیتی ہے اور اس کے معدن تک لے جاتی ہے

    تھوڑا ، تھوڑا تاکہ تم اس کے لیجانے کو نہ دیکھو

    ویں نفس جاں ہاۓ ما را ہم چناں

    اندک اندک دزدد از حبس جہاں

    اسی طرح یہ سانس ہماری جانوں کو

    دنیا کے قید خانہ سے تھوڑا تھوڑا چراتا ہے

    تا الیہ یصعد اطیاب الکلم

    صاعدا منا الیٰ حیث علم

    یہاں تک کہ پاک کلمات اس (اللہ) کی طرف چڑھتے ہیں

    ہماری طرف سے اس جگہ تک چڑھتے ہیں جس کو وہ جانتاہے

    ترتقی انفاسنا بالمنتقی

    متحفا منا الیٰ دار البقا

    پرہیزگاری کی وجہ سے ہمارے سانس چڑھتے ہیں

    ہماری جانب سے بطور تحفہ کے دارالبقاء تک

    ثم تاتینا مکافات المقال

    ضعف ذاک رحمۃ من ذی الجلال‌

    پھر کلمات کا بدلہ ہمیں ملتا ہے

    اس کو دوکنا ذو الجلال کی طرف سے

    ثم یلجینا الیٰ امثالہا

    کیے ینال العبد ممانا لہا

    اسی طرح وہ چڑھتے اور اترتے ہیں ہمیشہ

    یہِ تو وہ اس پر ہمیشہ قائم ہیں

    ہٰکذا تعرج و تنزل دائما

    زا فلا زلت علیہ قائما

    ہم فارسی میں کہتے ہیں یعنی یہ کشش

    اس طرف سے آئی ہے کہ جس طرف سے یہ ذوق آیا ہے

    پارسی گوئیم یعنی ایں کشش

    زاں طرف آید کہ آمد آں چشش‌‌

    ہر قوم کی نظر اس طرف رہتی ہے

    کہ جس طرف ایک دن کوئی مزا حاصل کیا ہے

    چشم‌ ہر قومے بسوۓ مانده است

    کاں طرف یک روز ذوقے رانده است

    یقینا جنس کو اپنی جنس سے ذوق ہوتا ہے

    دیکھو! جز کا ذوق اپنے کل سے ہوتا ہے

    ذوق جنس از جنس خود باشد یقیں

    ذوق جزو از کل خود باشد ببیں

    یا شاید وہ چیز جنس کو قبول کرنے والی ہے

    جب اس جنس سے ملے اسی جنس کی ہوجائے

    یا مگر آں قابل جنسے بود

    چوں بدو پیوست جنس او شود

    جیسے پانی اور روٹی ہماری جنس کا نہ تھا

    ہماری جنس بن گیا اور ہم میں اضافہ کر دیا

    ہمچو آب و ناں کہ جنس ما نبود

    گشت جنس ما و اندر ما فزود

    پانی اور روٹی جنسیت کی صورت نہیں رکھتے

    لیکن انجام کے اعتبار سے ان کو جنس سمجھو

    نقش جنسیت ندارد آب و ناں

    ز اعتبار آخر آں را جنس داں

    اور اگر غیر جنس سے ہمارا ذوق ہوگا

    وہ شاید ہماری جنس سے مناسبت کرتا ہو

    ور ز غیر جنس باشد ذوق ما

    آں مگر مانند باشد جنس را

    جو مشابہ ہے وہ عارضی ہوتا ہے

    انجام کار عارضی چیز باقی نہیں رہتی

    آنکہ مانندست باشد عاریت

    عاریت باقی نماند عاقبت

    پرندہ کو اگر سیٹی سے لطف آتا ہے

    جب وہ اپنی جنس کو نہیں پاتا ، بھاگ جاتا ہے

    مرغ را گر ذوق آید از صفیر

    چونکہ جنس خود نیابد شد نفیر

    پیاسے کو ، اگر سراب سے ذوق آتا ہے

    جب اس میں پہنچتا ہے ، بھاگتا ہے پانی کی جستجو کرتا ہے

    تشنہ را گر ذوق آید از سراب

    چوں رسد در وے گریزد جوید آب

    مفلس، اگر کھوٹے سونے سے خوش ہوتے ہیں

    لیکن وہ ٹکسال میں جا کر بے قدر ہوجاتا ہے

    مفلساں گر خوش شوند از زر قلب

    لیک آں رسوا شود در دار ضرب‌‌

    خبردار ! کوئی ملمع ساز تجھے ، راستہ سے نہ بھٹکا دے

    خبردار کج خیالی تجھے کنویں میں نہ گرا دے

    تا زر اندودیت از رہ نفکند

    تا خیال کژ ترا چہ نفکند

    اس قصہ کو کلیلہ دمنہ میں تلاش کر

    اور اس قصہ میں اپنا حصہ طلب کر

    از کلیلہ باز جو آں قصہ را

    واندر آں قصہ طلب کن حصہ را

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے