پیش_حق کچھ ترا نمونہ رہے
دلچسپ معلومات
تضمین بر خمسۂ امیر بینائی۔
پیش حق کچھ ترا نمونہ رہے
نہ رہے من ضمیر او نہ رہے
تن و جاں دل سے تار مو نہ رہے
تو کو اتنا مٹا کہ تو نہ رہے
تجھ سے تیری دوئی کی بو نہ رہے
یہ تلاش کمال پردہ ہے
خواہش ذوق و حال پردہ ہے
کچھ بھی ہے گر خیال پردہ ہے
آرزوئے وصال پردہ ہے
آرزو ہے کہ آرزو نہ رہے
قال کب تک ہے حال پیدا کر
عشق میں کچھ کمال پیدا کر
کوئی مٹنے کی چال پیدا کر
ہو میں اتنا وصال پیدا کر
کہ سوا ہو خیال ہو نہ رہے
یاں پڑا کیوں ہے فاقہ مستی سے
جا نکل اس اجاڑ بستی سے
چل بلندی کو ایسی پستی سے
چار سو کی سرائے ہستی سے
بھاگ ایسا کہ چار سو نہ رہے
یہ طلب بھی مقام پستی ہے
کہ خودی کی یہ ساری مستی ہے
کیا فنا کوئی ایسی ہستی ہے
جستجو بھی حجاب پستی ہے
سچ تو یہ ہے کہ جستجو نہ رہے
جس کے دل میں یقین جیسا ہو
فہم و ادراک اس کا ویسا ہو
ہم سے گر پوچھتے ہو کیسا ہو
علم توحید ہو تو ایسا ہو
کفر و اسلام کا غلو نہ رہے
علویؔ کس مرتبہ کی ہے تقدیر
اس کو سمجھے گا کوئی مرد فقیر
میرے دل پر تو کر گئی تاثیر
ہے کسی مست کا کلا امیرؔ
جام باقی رہے سبو نہ رہے
- کتاب : خمخانۂ ازلی (Pg. 119)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.