Sufinama

جوگی نامہ

نظیر اکبرآبادی

جوگی نامہ

نظیر اکبرآبادی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    صفحۂ روح پہ تیری خوبی خط کی ہے پھبن

    ہے سویدا ترے عاشق کا تیرا خال ذقن

    رشک گل دست حنائی کہ کہے دیکھ چمن

    ہو رقم کس قلم شوق سے اے غنچۂ دہن

    اشتیاقے کہ بدیدار تو دارد دل من

    اب جو مل جائے کہیں وہ تو یہ ہم اس سے کہیں

    کب تلک درد جدائی کو بھلا تیرے سہیں

    اتنا بھی بس نہیں اے یار کہ ہم مر ہی رہیں

    دور جس دن سے ہوا تجھ چمن حسن سیمیں

    نہ مجھے باغ خوش آتا ہے نہ گلشن چمن

    بید مجنوں ہیں کہ میں تاک پریشاں خاطر

    یا ہیں خاکستر خاشاک پریشاں خاطر

    ہم غرض ایسے ہیں غم ناک پریشاں خاطر

    چشم نمناک جگر چاک پریشاں خاطر

    چاک‌ پر چاک‌ گریباں سے لگاتا دامن

    جور اور ظلم سے اس کے نہ کبھی گھبرانا

    نہ کبھی شکوۂ بیداد زباں پر لانا

    کام ہرگز نہ کسی سے نہیں آنا جانا

    کوئی کچھ پوچھے تو منہ دیکھ کے چپ رہ جانا

    نہ تکلم نہ اشارت نہ حکایت نہ سخن

    یاد اس شوخ کی کیا کیا ہی ستم لاتی ہے

    جان بے چینی سے تن میں مرے گھبراتی ہے

    آہ کرتا ہوں تو بجلی سی نکل آتی ہے

    جب میں روتا ہوں تو آنکھوں سے برس جاتی ہے

    کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں کی بھرن

    دشت اور کوہ میں وحشی سا پڑا پھرتا ہوں

    برق کی طرح سے بیتاب سدا پھرتا ہوں

    میں غرض تجھ سے صنم جب سے جدا پھرتا ہوں

    رات دن ہجر میں جوگی سا بنا پھرتا ہوں

    بے قراری سے ترے نام کی جپتا سمرن

    جور اور ظلم مرے دل نے ہزاروں ہی سہے

    شکوۂ جور بھلا تیرا کہاں تک نہ کرے

    اب تو یہ حال ہوا ہجر میں اے یار مرے

    دوش پر بار الم کانوں میں غم کے مندرے

    اشکوں کے تار گلے میں پڑے سیلی کے نمن

    عشق میں جوگی ہوئے جب سے ہمیں بھائی بھبوت

    بیٹھے در پر تیرے اور گرو ہے پھیلائی بھبوت

    دیکھ ٹک آن کے کس روپ میں رنگ لائی بھبوت

    پیرہن گیروا اور تن کے اپر چھائی بھبوت

    سر سے لے پاؤں تلک خاک ملی سو سو من

    گہ در کعبہ پہ پیشانی کو اپنی گھسنا

    گاہ مسجد میں میاں مانگنا جا جا کے دعا

    انکساری سے کبھی دیر میں ہر دم جانا

    دم بہ دم آہ کی پونگی سے بجانا یہ صدا

    دیکھیے کون سی دن ہر ہمیں دیں گے درشن

    دیکھا میرے تئیں جو تن کے اپر گل کھائے

    اور کپڑے بھی رنگے گیروے تن پر پائے

    دیکھ یہ حال تعجب سے بشر گھبرائے

    کوئی کہتا ہے کہ جوگی جی کدھر کو آئے

    سچ کہو کون سی نگری میں تمہارا ہے وطن

    یاد کرتے ہو اسے نام اسی کا لے لے

    اور زیبا ہیں بہت آپ کے تن پر سیلے

    وہ جوگی بھی بنے خوب ہو تم البیلے

    کون سے پنتھ میں ہو کون گرو کے چیلے

    کون سے روپ میں ہو کون سا رکھتے ہو برن

    ہم کو جوگی جی بتا دیجیے یہ حال اپنا

    تم جو بیراگی بنے اس میں نفع کیا ہے بھلا

    اور مرشد سے تمہارے ہے تمہیں کیا پہونچا

    نام کیا جوگ میں ہے تم کو گرو نے بخشا

    دھیان کیا رکھتے ہو کس گیان کا رکھتے ہو چلن

    در شہورا جلا کر جو بنائی ہے بھبوت

    اور کیوں تم بتاؤ یہ خوش آئی ہے بھبوت

    عشق میں کس کے یہ اب تن پہ رمائی ہے بھبوت

    کس لیے منہ کے اپر تم نے لگائی ہے بھبوت

    کس کی الفت میں یہ بیراگ کا پہنا ابرن

    کس لیے جوگ لیا اور رنگا کپڑوں کو

    کس پہ عاشق ہو دیا رنج یہ کس نے تم کو

    کیوں کر اوقات بسر ہوتی ہے یہ ہم سے کہو

    کیا الم کھاتے ہو اور کس کی طلب رکھتے ہو

    دھونی جل پان بھی یا یوں ہی کرو گے لنگھن

    نام پیغمبروں کے کفنی پہ لکھے سارے

    اور گریباں میں ہیں نام خدا کے لکھے

    تم تو کامل سے نظر آتے ہو اپنے لیکھے

    ہم نے جوگی تو بہت یوں ہیں ہزاروں دیکھے

    پر تمہارا تو زمانے سے نرالا ہے چلن

    ہم نے دنیا میں اجی سیکڑوں دیکھے جوگی

    دیکھے ہر رنگ کے ہر ایک برن کے جوگی

    پر عرض تم سے نہیں دیکھے ہیں ہم نے جوگی

    تم تو آتے ہو نظر ہم کو نئے سے جوگی

    سچ کہو جوگ لیا تم نے یہ کس کے کارن

    کیا ہوا جوگی جی تم کو بھلا ہم سے تو کہو

    کیوں خجل خوار پڑے پھرتے ہو منہ سے بولو

    کس لیے وحشی سے پھرتے ہو بتاؤ ہم کو

    کس کی ہے یاد تمہیں کس کے لیے پھرتے ہو

    اب کہیں بیٹھو گے یا یوں ہی پھرو گے بن بن

    کس لیے گھر سے تم آئے ہو بھلا اپنے نکل

    پھرتے مانند صبا کیوں ہو بدشت و جنگل

    تم سے اک بات کہوں اس پہ اگر کیجے عمل

    گر کرو حکم تو بنوا دیں تمہارا استھل

    شہر میں باغ میں یار لب دریائے جمن

    یا کہیں اور بتاؤ کہ جہاں آپ رہیں

    یا تو جنگل میں اگر دل لگے یہ آپ کہیں

    یا کہ استھل کے بنا دینے کی تجویز کریں

    یا کہ متھرا جو پسند آوے تو واں جاگہ لیں

    یا کدر بن میں ہو یا مات مہا بندرابن

    اور اگر یوں ہی پھرو گے تو یہ ہے مشکل سخت

    استھل اک ہم جو بنا دیں تو زہے اپنے بخت

    اس میں اچھا سا بچھا دیویں تمہارے لیے تخت

    خاصے پھولوں کے لگا دیویں اس استھل میں درخت

    جس سے آنکھوں کو طراوت رہے اور دل ہو مگن

    اب تو جوگی جی کہا مان لو یہ تم میرا

    ایک جا بیٹھ رہو اور کرو ہم پہ دیا

    مت پھرو یوں خجل و خوار بدشت و صحرا

    جب تو سن سن کے یہ ہم نے کہا اس سے بابا

    تجھ کو کیا کام فقیروں سے یہ کرنا ان بن

    کیا گرج تجھ کو جو پوچھے ہے تو احوال مرا

    جوگ کی پوچھے تو بس عشق میں یہ جوگ لیا

    اور اس کی ہی جدائی میں پھرے ہیں ہر جا

    اور وطن پوچھے ہمارا تو یہ سن رکھ بابا

    یا گلی دوست کی یا یار کے گھر کا آنگن

    مثل صرصر اسی کوچے میں پھرا کرتے ہیں

    دیکھ دروازے کو بس شاد ہوا کرتے ہیں

    خون دل جائے مئے ناب پیا کرتے ہیں

    اس کے کوچے میں سدا مست رہا کرتے ہیں

    وہی بستی وہی نگری وہی جنگل وہی بن

    گاتے پھرتے ہیں سدا بین لیے کاندھے پہ گیت

    جو اتیتوں کی ہے مدت سے وہی اپنی ریت

    محو پیتم کے ہیں جب سے کہ لگی اس کی پیت

    پنتھ کی پوچھے تو جوگی نہ جنم کے نہ اتیت

    عشق کے میل میں ہم پیم کا رکھتے ہیں برن

    آ ملے دل میں جو الفت کے تھے سو پھوٹ گئے

    جتنا تھا مال مرا تب اسے لے لوٹ گئے

    اقربا دوست تھے جتنے وہ بھی چھوٹ گئے

    جب سے اس شوخ کے پھندے میں پھنسے ٹوٹ گئے

    جتنے تھے مذہب و ملت کے جہاں میں بندھن

    عشق میں چھوڑ کے ہم دنیا و دیں بیٹھے ہیں

    خاطر آشفتہ و دل گیر و حزیں بیٹھے ہیں

    چھوڑ سب عیش جہاں گوشہ گزیں بیٹھے ہیں

    اس کے ہم در پہ منڈا سر کے تئیں بیٹھے ہیں

    رات دن پیتے ہیں دھو دھو کے اسی کے گر کے چرن

    خنجر عشق سے بس اپنا کلیجا ہے شق

    یہ تو ظاہر ہے نشاں منہ کا بھی جو رنگ ہے فق

    خوں میں آلودہ ہیں زخمی ہیں کہ جوں رنگ شفق

    نام کو پوچھے تو ہے نام ہمارا عاشق

    سب سے آزاد ہوئے یار کا لے دامن

    حال بے باکی کا کیا اپنی بھلا تجھ سے کہیں

    گر رہیں بھوکے تو ہرگز بھی کبھی غم نہ کریں

    اور کھانے کو ملے تو بھی نہ کچھ شاد رہیں

    گر رہیں جیتے تو جینے کی نہیں فکر ہمیں

    اور مر جائیں تو ہرگز نہیں پرواے کفن

    دیکھ نیرنگی زمانے کی ہوئے گل در گل

    اور مل تن کو بھبوت اپنے گئے خاک میں مل

    کپڑے رنگنے کو تو آسان نہ جان او غافل

    رنگ وہ رنگتے ہیں جس رنگ کا رنگنا مشکل

    روپ بھرتے ہیں جس روپ کا بھرنا ہے کٹھن

    چھوڑا جنت کو جو آدم نے اسی کی خاطر

    اور ہر ایک کے کی دم نے اسی کی خاطر

    جی میں کی اپنے خوشی غم نے اسی کی خاطر

    جوگ بیراگ لیا ہم نے اسی کی خاطر

    سب کے تئیں چھوڑ اسی کی ہے محبت کی لگن

    رنگے کپڑوں سے نہ کر ہم پہ تو جوگی کا گمان

    ہم نے کیا جانے کیا کس لیے ایسا سامان

    گر تو عاقل ہے تو پھر دل ہی میں اپنے پہچان

    ہم میں اور جوگی کی صورت میں بڑا فرق ہے جان

    کہاں سے جوگی کی ادا اور کہاں عاشق کی پھبن

    آتش غم سے جلا جب سے جلایا دل و جان

    تب یہ اکسیر ملی ہم کو تو شک اس میں نہ جان

    تو تو عاقل ہے بس اب عقل سے اپنی پہچان

    خاک ہے یار کے کوچے کی بھبوت اب ہر آن

    ہم نے بھی راکھ بنائی ہے جلا کر تن من

    سرخ آنکھوں کا جو پوچھے ہے کہ باعث ہے کہا

    شوق مے کا نہیں کچھ ذوق نہیں افیون کا

    قدح بنگ سے نہ عشق کبھی ہم کو ہوا

    ہے محبت کے دھتورے کا جو آنکھوں میں نشا

    اس کی گرمی ہی سے رہتے ہیں سدا سرخ نین

    کوئی مونس ہے نہ غم خوار نہ ہے سنگ نہ سات

    رہتا ہون رنج میں مشغول سدا دن اور رات

    اب خدا جانے کہ کس طرح کٹے گی اوقات

    اور استھل کے بنانے کی کہی تو نے جو بات

    یہ بکھیڑا وہ کرے جس کے کنے ہو کچھ دھن

    عشق جب سے کہ ہوا ہے ہمیں اس اچپل سے

    جب سے بیتاب پھرا کرتے ہیں اور بیکل سے

    ہم سے بیکل بھی نہیں بیٹھے ہیں اک جا کل سے

    ہم فقیروں کو بھلا کام ہے کیا استھل سے

    وہی استھل ہے جہاں مار کے بیٹھے آسن

    خواہش زر نہ کریں اور نہ کسی سے مانگیں

    تخت اور چتر کی بھی کچھ نہیں پروا ہے ہمیں

    گوکل اور متھرا کے رہنے کی نہیں حرص کریں

    جا پڑیں یاد میں اس شوخ کی جس بستی میں

    وہی گوگل ہے ہمیں اور وہی ہے بندرابن

    جب سے جوگی ہوئے دی اس کو متاع دل و جاں

    چھوڑ بیٹھے بھی آرام کا جو تھا ساماں

    حاجت تکیہ ہے نے خواہش بستر نہ مکاں

    جا پڑے کاک پہ رکھ سر کے تلے ہاتھ جہاں

    ہے وہی فرش وہی تخت وہی سنگھاسن

    ہے خیال اس گل رخسار کا ہر شام و پگاہ

    باغ باغیچے کی ہرگز ہے نہیں ہم کو چاہ

    چاہ ہے چاہ ذقن کی نہیں درکار ہے چاہ

    پھول پھلواری کی بھی جب سے نہیں کچھ پرواہ

    جب سے گل کھا کے محبت میں جلایا ہے بدن

    رہتا ہوں مضطر و مغموم میں ہر دم ہر آن

    ہوش گم کردہ پھرا کرتا ہوں اور بے سامان

    باز آ ظلم سے اور جور سے تو حق کو مان

    اب تو اس حال کو پہونچا ہوں ترے ہجر میں جاں

    اے گل باغ وفا دل کے چمن کے گلشن

    کہیں کہتا ہے جو احوال مرا کوئی ذرا

    سر کو دھنتا ہے ہر ایک پیر و جواں اور لڑکا

    گھر میں رہتا ہوں تو روتا ہے ہر اک خویش اپنا

    گھر سے باہر جو نکلتا ہوں تو منہ دیکھ میرا

    مرے احوال پہ بھی روتے ہیں جنگل میں ہرن

    خاطر آشفتہ میں پھرتا ہوں حزین و دل گیر

    عشق میں اس کے سبھی کھو چکا عز و توقیر

    پھرتا ہوں گلیوں میں دیوانہ سا ہر روز ضریر

    کیا لکھوں اب تو گزرتی ہے جو کچھ مجھ پہ نظیرؔ

    دل من داند و من دانم و داند دل من

    مأخذ :
    • کتاب : کلیات نظیر اکبرآبادی، مرتبہ عبدالباری آسی (Pg. 722)
    • Author : نظیرؔ اکبرآبادی
    • مطبع : منشی نولکشور، لکھنؤ، (1951)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے