گھر گھر دیپک برے لکھے نہی اندھ ہے
لَکھَت لَکھَت لَکھی پرے کٹے جم کے پھند ہے
کہن سنن کُچُھو ناہِں کَچھو کَرَن ہے
جیتے جی مری رہے بہری نہی مرن ہے
جوگی پڑے ویوگ کہیں گھر دور ہے
پاس ہی بست ہَجُور تو چڑھت کھجور ہے
بامہن دچھّا دیتا گھر گھر گھالِ ہے
موُر سجیون پاس تو پاہن پالِ ہے
ایسن صاحب کبیرؔ سلونا آپ ہے
نہیں جوگ نہیں جاپ پنّ نہیں پاپ ہے
گھر گھر چراغ جل رہا ہے (ہر فرد کے اندر بھگوان کی جوت ہے) اندھی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن دیکھنے کی کوشش ہو تو ایک دن آنکھیں کھل جائیں گی اور موت کے پھندے کٹ جائیں گے۔ کہنے، سننے اور کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ جو جیتے جی مر گیا۔ (جس نے آرزو کو ترک کر دیا) وہ دوبارہ نہیں مرے گا۔ (’’سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو۔ و گر نہ ہم خدا تھے گر دل سے مدعا ہوتے‘‘ میرؔ) جو جوگی بھگوان کو نہ پا کر ہجر کی تنہائی (بیوگ) تو پاس ہی موجود ہیں (رگِ جاں سے زیادہ قریب ہیں) اور تو کھجور کے پیڑ پر چڑھ کے تلاش کر رہا ہے۔ برہمن گھر گھر جا کر منتر سکھاتا ہے اور لوگوں کو چوپٹ کرتا ہے۔ آب حیات کی دھار (سجیون =سنجیون) تو وجود کے اندر بہہ رہی ہے اور تو پتھر کو پوج رہا ہے۔ کبیرؔ اپنا صاحب تو ایسا سلونا (حسین و جمیل) ہے کہ اس کے سامنے جوگ، جاپ، پُن اور پاپ سب فضول ہیں (اس کو حاصل کرنے کے لیے عبادت، تسبیح، عذاب اور ثواب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔)
(ترجمہ: سردار جعفری)
- کتاب : کبیر سمگر (Pg. 763)
- Author :کبیر
- مطبع : ہندی پرچارک پبلیکیشن پرائیویٹ لیمیٹید، وارانسی (2001)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.