دوش دیدم کہ ملائک در مے خانہ زدند
گل آدم بہ سرشتند و بہ پیمانہ زدند
میں نے کل شب دیکھا کہ فرشتوں نے مے خانہ کا دروازہ کھٹکھٹایا
آدامی کی مٹی کو گوندھا اور اس سے پیمانہ بنایا
ساکنان حرم سر عفاف ملکوت
با من راہ نشیں بادۂ مستانہ زدند
عالم ملکوت کی پاک دامنی کے راز کے حرم کے بسنے والوں نے
مجھ، مسافر کو مستانہ شراب دے دی
آسماں بار امانت نہ توانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
آسمان، امات کا بوجھ نہ اٹھا سکا
مجھ دیوانے کے نام، انہوں نے فال کا قرعہ نکال دیا
ما بصد خرمن پندار ز رہ چوں نرویم
چوں رہ آدم خاکی بہ یکے دانہ زدند
ہم تکبر کے سو کھلیانوں کے ہوتے ہوئے راستہ سے کیوں نہ بھٹکیں
جب کہ انہوں نے خاکی آدم کا ایک دانہ کی وجہ سے، راستہ بند کر دیا
آتش آں نیست کہ بر شعلۂ او خندد شمع
آتش آں است کہ در خرمن پروانہ زدند
آگ وہ نہیں ہے جس کے شعلہ پر شمع مسکرائے
آگ وہ ہے، جو انہوں نے پروانہ کے کھلیان میں لگا دی
جنگ ہفتاد دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چو ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
بہتر ملتوں کے اختلاف کو معذور سمجھ
چوں کہ انہوں نے حقیقت نہ دیکھی افسانہ کی راہ چل پڑے
شکر ایزد کہ میان من و او صلح فتاد
حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند
خدا کا شکر ہے کہ مجھ میں اور اس میں صلح ہو گئی
حوروں نے ناچتے ہوئے، شکرانہ کا ساغر پیا
کس چو حافظؔ نکشید از رخ اندیشہ نقاب
تا سر زلف عروسانِ سخن شانہ زدند
خیالات کے رخ سے حافظؔ کی طرح کسی نے نقاب نہیں اٹھایا
جب سے کلام کی دلہنوں کی زلف میں انہوں نے کنگھی کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.