عالم چہ شود ہمسر و ہمتائے محمد
عالم چہ شود ہمسر و ہمتائے محمد
نوراست ہمہ نور سراپائے محمد
دنیا محمد کی برابری اور ہمسری کیسے کر سکتی ہے؟ آپ تو سر سے پیر تک نور ہی نور ہیں۔
نبود بہ سرم جز سر سودائے محمد
مائیم و دل ما و تمنا ئے محمد
میرے سر میں سوائے ان کے خیال اور ان کے سودا کے کچھ نہیں، ہم ہیں ہمارا دل ہے اور آپ کی تمنا ہے۔
ہم قدر بہ زلفش چہ بود شب کہ شب قدر
یک سایہ بود از شب اسرائے محمد
آپ کے زلف کی (سیاہی) برابری رات (کی سیاہی) نہیں کرسکتی، کیوں کہ شب قدر تو آپ کے شب معراج کی معمولی عکس کی حیثیت رکھتی ہے۔
روئے من آشفتہ و خاک درا و باد
چشم من حیران و تماشائے محمد
مجھ پریشان حال کا منہ ہو اور ان کے در کی خاک، حیران آنکھیں ہوں اور آنحضرت کا تماشائے جمال۔
اے فردؔ بہ از ملک جم وتخت سلیماں
باشم چو سگ درگہ والائے محمد
اے فردؔ! بارگاہ نبوی کا کتا ہونا، جمشید (ایران کا مشہور بادشاہ) کی حکمرانی اور حضرت سلیمان کے تخت ملنے سے بہتر ہے (مطلب یہ ہے کہ آپ کی غلامی اور دنیا کے نامور حکمرانوں کی سلطنت ہمارے سامنے ہو تو آپ کی غلامی ہمارے لئے لائق ترجیح ہوگی، یہاں حضرت سلیمان کے منصب نبوت سے قطع نظر صرف ان کی بادشاہت کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 196)
- Author : شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.