پرتو مہر قدیمست ایں مہ تابان عشق
پرتو مہر قدیمست ایں مہ تابان عشق
جلوۂ نور کلیمست آتش سوزان عشق
عشق کا یہ روشن چاند اللہ پاک کے آفتاب کا عکس ہے
عشق کی بھڑکتی ہوئی آگ کلیم کے نور کا جلوہ ہے
دود آہ سرکشی از سینۂ سوزان من
مد بسم اللہ باشد بر سر دیوان عشق
میرے جلتے ہوئے سینے سے سرکشی کی آہ کا دھواں
دیوان عشق پر بسم اللہ کی مد ہے
عاشقاں در بے نوائی خسرو یہا می کند
شاہی کونین دارد بے سر و سامان عشق
بے چارگی میں عشاق بادشاہت کرتے ہیں
عشق میں بے سروسامان دونوں جہاں کی بادشاہت رکھتے ہیں
در حریم وصل جاناں در نہادم چوں قدم
ہستیم را کرد بیروں از درش دربان عشق
محبوب کے وصال کے حرم کے اندر جب میں نے قدم رکھا
تو عشق کے دربان نے میری ہستی کو اس کے دروازے سے باہر ڈھکیل دیا
کافر عشقم مپرس از دین من اے ہم نشیں
عشق اسلامست و دیں در ملک کفرستان عشق
اے دوست ! میں عشق میں کافر ہوں مجھ سے میرے دین کے بارے میں نہ پوچھ
عشق اسلام ہے اور دین عشق کے کفرستان میں ایک ملک
کشتۂ شمشیر عشق از مرگ باشد الاماں
زندۂ جاوید باشد مردۂ بیجان عشق
عشق کی تلوار کا مارا ہوا موت سے محفوظ ہوتا ہے
عشق کا بیجان مردہ زندہ جاوید ہوتا ہے
چشم ادراک خرد را بہرۂ نبود نیازؔ
از تماشائے کہ بیند دیدۂ حیران عشق
اے نیازؔ ! خرد کے ادراک کی آنکھوں کو نصیب نہیں ہوتا
وہ نظارہ کہ جو عشق کی حیران آنکھیں دیکھتی ہیں
- کتاب : دیوان نیاز بے نیاز (Pg. 70)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.