صورتم پستست لیکن معنیٔ دارم بلند
صورتم پستست لیکن معنیٔ دارم بلند
باطنم آزاد مطلق ظاہرم در قید و بند
میری صورت پست ہے لیکن بلند معنی رکھتا ہوں
میرا باطن آزاد اور بے قید ہے، میرا ظاہر قید و بند میں ہے
راہ حق سر کردن آساں نیست جز رفتن ز سر
اندریں رہ باید اے دل ہمت مشکل پسند
راہ حق کو طے کرنا آسان نہیں، سوائے اس کے کہ سر سے گزرا جائے
اس راستے میں اے دل مشکل پسند ہمت چاہیئے
نیست جز ہستیٔ حق پیدا و پنہاں در وجود
چشم و دل بہ کشا و بنگر بے حجاب اے ہوش مند
وجود کے ظاہر و باطن میں سوائے ذات حق کے کچھ ظاہر نہیں ہے
اے دانا ! دل کی آنکھیں کھول اور بے حجاب مشاہدہ کر
باطن و ظاہر خود او ہست اول و آخر خود اوست
برتر از چندست و چوں ہم جلوہ گر در چوں و چند
باطن و ظاہر خود وہ ہے اول و آخر خود وہ ہے
کیف و کم سے بلند ہے اور کیف و کم میں جلوہ گر بھی
ہم خود او شیخ و برہمن ہم خود او دیر و حرم
ہم خود او خلدست و رضواں ہم خود او نار و گزند
خود وہی شیخ و برہمن بھی ہے خود وہ مندر و مسجد بھی
خود وہی جنت اور رضوان بھی ہے اور خود وہی آگ اور سزا بھی
ہم خود او مست و مے خانہ ہم ساقی خود اوست
ہم خود او ملا و واعظ گرم جوش وعظ و پند
خود وہی مست بھی ہے اور شراب اور میخانہ بھی اور خود وہی ساقی ہے
خود وہی ملا اور واعظ بھی ہے جو واعظ و پند میں منہمک ہے
ہم خود او معشوق و عاشق ہم خود او حسن است و عشق
ہم خود او معبود و عابد در نگاہ ہوش مند
خود وہی معشوق بھی ہے، اور عاشق بھی، خود وہی حسن بھی ہے اور عشق بھی
اور عقل والوں کی نگاہ میں خود وہی معبود بھی ہے اور عابد بھی
ہم خود او اندر تماشائے جمال خود بہ وجد
ہم خود اندر آتش عشقست سوزاں چوں سپند
خود وہی اپنے جمال کے نظارے میں وجد کے ساتھ مشغول ہے
خود وہی عشق کی آگ میں سپند کی طرح جل رہا ہے
ہم خود او مستغرق دریائے نیرنگیٔ خویش
ہم خود آمد از سر انکار بر خود ریشخند
خود وہی اپنے طلسم کے دریا میں مستغرق ہے
(اور) خود اپنا انکار کرکے خود پر ہنستا بھی ہے
ہم ز خود محجوب گشت و خود ز خود پنہاں پنہاں شدہ
خود نقاب خود شد و بر روئے خود خود را فگند
وہ خود اپنے آپ سے محجوب ہوا اور خود اپنے آپ سے پوشیدہ ہوا
(اور) خود اپنا نقاب ہوا اور خود اپنے چہرے پر خود کو ڈال لیا
خویش را حق داں و حق بیں تا شوی حق عاقبت
طالب حق را نشاں دادم ز راہ حق پسند
اپنے آپ کو حق سمجھ اور حق دیکھ تاکہ انجام حق ہو
حق پسندی کی راہ سے حق کے طالب کا پتہ میں نے بتا دیا
نقطۂ تحقیق بہ شنو از نیاز بے نیاز
کیں ہمہ نقش دو عالم نیست الا نقشبند
حقیقت کا یہ نقطہ نیازؔ بے نیاز سے سنو
کہ دونوں جہان کا یہ سارا نقش سوائے نقشبند کے کچھ نہیں ہے
- کتاب : دیوان نیاز بے نیاز (Pg. 59)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.