بیا کہ قصر امل سخت سست بنیادست
دلچسپ معلومات
ترجمہ: قاضی سجاد حسین
بیا کہ قصر امل سخت سست بنیادست
بیار بادہ کہ بنیاد عمر بربادست
آ جا! کیوں کہ تمناؤں کا محل بہت کمزور بنیاد کا ہے
شراب لے آ، کیوں کہ عمر کی بنیاد ہوا میں قائم ہے
غلام ہمت آنم کہ ز چرخ کبود
ز ہر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاداست
میں اس کی توجہ کا غلام ہوں، کہ نیلگوں چرخ کے نیچے
ہر اس چیز سے آزاد ہے جو تعلق کا رنگ قبول کرے
چہ گویمت کہ بہ مے خانہ دوش مست و خراب
سروش عالم غیبم چہ مژدہ دادست
میں تجھے کیا بتاؤں، کہ کل شب مست و خراب ہونے کی حالت میں
عالم غیب کے فرشتے نے، مجھے کیا خوش خبریاں دی ہیں
کہ اے بلند نظر شاہ باز سدرہ نشیں
نشیمن تو نہ ایں کنج محنت آبادست
کہ اے بلند نظر، سدرہ نشیں، شہباز!
تیرا آشیانہ، اس محنت آباد کا گوشہ نہیں ہے
ترا ز کنگرۂ عرش می زند سفیر
ندانمت کہ دریں دام گہ چہ افتادست
تجھے تو عرش کے کنگرے سے آوازیں دے رہے ہیں
نہ معلوم تو کیوں اس جال میں پھنسا ہے؟
نصیحتے کنمت یاد گیر و در عمل آر
کہ ایں حدیث ز پیر طریقتم یادست
میں تجھے نصیحت کرتا ہوں، یاد کر لے اور عمل کر
اس لیے کہ یہ بات مجھے پیر طریقت کی یاد ہے
مجو درستیٔ عہد از جہان سست نہاد
کہ ایں عجوز عروس ہزار دامادست
کمزور بنیاد کی دنیا سے عہد کی پختگی نہ ڈھونڈ
اس لیے، کہ یہ بڑھیا ہزار شوہروں کی دلہن ہے
غم جہاں مخور و پند من مبر از یاد
کہ ایں لطیف نغزم ز رہرو یادست
دنیا کا غم نہ کر، اور میری نصیحت نہ بھلا
اس لے کہ ایک سالک کا یہی نادر لطیفہ مجھے یاد ہے
رضا بدادہ بدہ وز جبیں گرہ بکشا
کہ بر من و تو در اختیار نکشادست
ملے ہوئے پر راضی ہو جاؤ اور پیشانی سے گرہ کھول
اس لیے کہ مجھ اور تجھ پر اختیار کا دروازہ نہیں کھلا ہے
نشان عہد و وفا نیست در تبسم گل
بہ نالۂ بلبل عاشق کہ جائے فریادست
پھول کی مسکراہٹ میں، مہر و وفا کا نشان نہیں ہے
اے مسکین بلبل نالہ کر، کیوں کہ فریاد کی جگہ ہے
حسد چہ می بری اے سست نظم بر حافظؔ
قبول خاطر و لطف سخن خدا دادست
اے! کمزور نظم کہنے والے حافظؔ پر کیا حسد کرتا ہے
طبیعت کی پسندیدگی، اور کلام کی پاکیزگی خداداد چیز ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.