مسافر ہر قدر باشد سبک بار
نہ یابد در سفر تصدیع و آزار
مسافر جس قدر کم ساز وسامان کے ساتھ سفر کریگا
اسے دوران سفر تکلیف وپریشانی نہیں ہوگی
تو ہم اندر جہاں ہستی مسافر
یقیں میداں اگر ہستی تو ہشیار
تو بھی اس دنیا میں مسافر کی طرح ہے
اگر تو ہشیار ہے تو اس بات پر یقین کر
بہ قدر مال باشد سر گرانی
بہ قدر پیچ باشد بار دستار
مال کے حساب سے ہی بوجھ بڑھتا ہے
پیچ کے حساب سے پگڑی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے
تو چوں عیسیٰ مکن بر تکیہ تکیہ
کہ جائے تکیہ ہم دستت کند کار
اگر تو عیسی ہے تو تکیہ پر بھروسہ مت کر
اس لئے کہ تکیہ کے بدلے کبھی کبھی ہاتھ کا استعمال بھی کر لیتے ہیں
بہ بیں موسیٰ چو تکیہ بر عصا کرد
عصا را کرد حق در دست او مار
دیکھو کہ جب موسیٰ علیہ اسلام نے عصا پر بھروسہ کیا
تو اللہ تعالیٰ نے عصا کو ان کے ہاتھ میں سانپ بنا دیا
چرا آزادہ گیرد بار بر دوش
گرانی چوں کند بر کتف زنار
آزاد صفت آدمی اپنے دوش پر کیوں بار رکھے
زنار بھی کبھی کبھی کندھے پر بھاری لگنے لگتا ہے
خودی را نیز از خود دور گرداں
کہ ہم بار است بار وہم و پندار
خودی کو بھی خود سے دور رکھو
اس لئے کہ وہم وپندار کا بوجھ بھی بوجھ ہوا کرتا ہے
ہزاراں خار گیرد دامن او
کسی کز بہر گل باشد بہ گلزار
اس کے دامن میں ہزاروں کانٹے چبھ جاتے ہیں
جو پھول کے لیے باغ میں جایا کرتا ہے
تو تا باشی بہ دنیا باش آزاد
ترا چوں قادریؔ کردہ خبردار
تو جب تک دنیا میں ہے آزاد رہ
تجھ کو قادری جیسے شخص نے خبردار کر دیا ہے
- کتاب : دیوان دارا شکوہ، مرتبہ: احمد نبی خاں (Pg. 109)
- Author : دارا شکوہ
- مطبع : ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، یونیورسٹی آف پنجاب (1969)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.