از شہر تو رفتیم و ترا سیر ندیدیم
وز شاخ درخت تو چنیں خام فتیدیم
ہم تمہارے شہر سے چلے گیے لیکن ہم نے تمہیں جی بھر کر نہیں دیکھا
ہم تمہارے درخت کی شاخ سے کچے ہی زمین پر گر گیے
چوں سایہ گذشتیم بہر پاکی و ناپاک
اکنوں بتو محویم نے پاک و پلیدیم
ہر پاک اور ناپاک چیز سے ہم سایہ کی طرح گزر گیے
اب ہم تمہارے اندر محو ہو گیے، اب نہ ہم پاک ہیں اور نہ پلید
تا بر نمک و نان تو انگشت ز دستیم
در فرقت و در سوز بس انگشت گزیدیم
تمہاری روٹی اور نمک پرانگلی رکھنے کی چاہت میں
ہم نے سوز اور فرقت کے سبب اپنی انگلی ہی کاٹ ڈالی
شکرست کہ تریاک تو با ماست اگرچہ
زہری کہ ہمہ خلق چشیدند چشیدیم
شکر ہے کہ تریاک ہمارے پاس ہے
کیوں کہ ہم نے بھی وہ زہر کھا لیا ہے جسے تمام لوگوں نے کھایا ہے
چوں طبل رحیل آمد و آواز جرسہا
ما رخت و قماشات بر افلاک کشیدیم
جب کوچ کا نقارہ بجا اور ڈھول کی آواز آئی
تو ہم نے اپنا ساز و سامان آسمان پر منتقل کرلیا
در سایۂ سرو تو مہا سیر بخفتیم
در باغ تو از بیم نگہباں نہ خزیدیم
اے چاند ہم تمہارے سرو کے سایہ میں چین سے سوئے
لیکن باغباں کے خوف سے ہم باغ میں داخل نہ ہوئے
آں دم کہ بریدہ شد ازیں جوئے جہاں آب
چوں ماہی بے آب دریں خاک طپیدیم
اس دنیا کے تالاب سے جب پانی نکال لیا گیا
تو ہم بغیرپانی کی مچھلی کی طرح اس زمین پر تڑپتے رہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 475)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.