سالہا دل طلب جام جم از ما می کرد
دلچسپ معلومات
ترجمہ: قاضی سجاد حسین
سالہا دل طلب جام جم از ما می کرد
آں چہ خود داشت ز بیگانہ تمنا می کرد
دل سالوں سے ہم سے جام جم مانگتا رہا
جو کچھ خود اس کے پاس تھا غیر سے مانگتا رہا
گوہرے کز صدف کون و مکاں بیرون است
طلب از گم شدگان لب دریا می کرد
وہ موتی جو کون و مکان کے سیپ سے باہر تھا
دریا کے کنارے کے گم شدوں سے مانگتا رہا
مشکل خویش بر پیر مغاں بردم دوش
کو بہ تائید نظر حل معما می کرد
میں اپنی مشکل کل شب پیر مغاں کے پاس لے گیا
کیوں کہ وہ نظر کی طاقت سے معمہ کو حل کرتا تھا
دیدمش خرم و خوش دل قدح بادہ بدست
وندراں آئینہ صد گونہ تماشہ می کرد
میں نے اس کو ہاتھ میں پیالہ لیے خوش اور ہنستا ہوا دیکھا
اور اس آئینہ میں وہ سینکڑوں چیزیں دیکھ رہا تھا
گفتم ایں جام جہاں بیں بہ تو کے داد حکیم
گفت آں روز کایں گنبد مینا می کرد
میں نے کہا ، یہ جہاں بیں جام خدا نے تجھے کب دیا
اس نے کہا جس دن خدا یہ جڑاؤ گنبد بنا رہا تھا
آں ہمہ شعبدہ عقل کہ می کرد آنجا
سامری پیش عصا و ید بیضا می کرد
وہ تمام شعبدے جو عقل اس جگہ کر رہی تھی
سامری، عصا اور ید بیضا کے بالمقابل کر رہا تھا
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگراں ہم بکند آں چہ مسیحا می کرد
جبرئیل کا فیض، اگر پھر مدد کر دے
دوسرے بھی وہ کریں جو مسیحا کر رہا تھا
گفتمش زلف چو زنجیر بتاں از پے چیست
گفت حافظؔ گلہ ای از دل شیدا می کرد
میں نے اس سے کہا تو جانتا ہے معشوق کی زلفوں کا سلسلہ کیا ہے؟
وہ بولا حافظؔ تاریک رات کا شکوہ کر رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.