صبا بہ لطف بگو آں غزال رعنا را
دلچسپ معلومات
ترجمہ: قاضی سجاد حسین
صبا بہ لطف بگو آں غزال رعنا را
کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادۂ ما را
اے صبا نرمی سے اس نازنیں ہرن سے کہہ دے
تو نے ہی ہمارا سر، کوہ و بیابان کے حوالہ کر دیا ہے
بہ شکر آں کہ توئی بادشاہ کشور حسن
بہ یاد آر غریبان دشت و صحرا را
اس بات کے شکرانے میں ، کہ تو ہی مملکت حسن کا بادشاہ ہے
دشت و صحرا کے پردیسیوں کو یاد رکھ
شکر فروش کہ عمرش دراز باد چرا
تفقدے نہ کند طوطیٔ شکر خا را
شکر فروش (خدا کرے اس کی عمر دراز ہو) کیوں
شکر خور طوطی پر مہربانی نہیں کرتا ہے؟
غرور حسن اجازت مگر نہ داد اے گل
کہ پرسشے نہ کنی عندلیب شیدا را
اے پھول، شاید حسن کے غرور نے اجازت نہیں دی
جو تو عاشق بلبل کی پرسش نہیں کرتا ہے
بہ حسن خلق تواں کرد صید اہل نظر
بہ دام و دانہ نہ گیرند مرغ دانا را
اہل نظر کو حسن اخلاق کے ذریعہ، شکار کیا جا سکتا ہے
سمجھ دار، پرند کو جال، اور دانے کے ذریعہ نہیں پکڑتے ہیں
چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی
بہ یاد آر حریفان باد پیما را
جب تو دوست کے ساتھ بیٹھے، اور شراب نوشی کرے
تو آوارہ دوستوں کو بھی، یاد کر لیا کر
نہ دانم از چہ سبب رنگ آشنائی نیست
سہی قدان سیہ چشم و ماہ سیما را
نہ معلوم دوستی کا رنگ کیوں نہیں ہے؟
سیدھے قد والوں، کالی آنکھ والوں، چاند جیسے چہرے والوں میں
جز ایں قدر نہ تواں گفت در جمال تو عیب
کہ خال مہر و وفا نیست روئے زیبا را
تیرے حسن میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں بتایا جا سکتا ہے
کہ حسین چہرے میں مہر و وفا کا تل بھی نہیں ہے
در آسماں چہ عجب گر ز گفتۂ حافظؔ
سماع زہرہ بہ رقص آورد مسیحا را
کوئی تعجب نہیں اگر حافظؔ کے کلام کو آسمان میں
زہرہ کا گانا،مسیحا کو وجد میں لے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.