Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دارا شکوہ اور بابا لعل بیراگی کی بات چیت

دارا شکوہ

دارا شکوہ اور بابا لعل بیراگی کی بات چیت

دارا شکوہ

MORE BYدارا شکوہ

    آغاز

    سائیں بابا لعل داس اورشہزادہ محمد داراشکوہ کے درمیان سہ سہ روزہ دو ملاقاتیں ہوئیں جس کے نتیجہ میں یہ جواب وسوال لکھے گئے۔

    جواب وسوال داراشکوہ جو کوئی بھی پڑھے گا حقائق دیناسے آگاہی پائے گا:۔

    سوال:نمبر1:’ناد‘اوربید‘ میں کیسے فرق کیاجائے؟

    جواب:بادشاہ اوراس کا حکم [یعنی بادشاہ۔ ناد ہے اور اس کا حکم۔ بید]

    سوال:نمبر2:چاند کی روشنی کیا ہے، اس کی سیاہی کیسے اورسفیدی کیونکر؟

    جواب:چاند اپنے اندر روشنی کی وجودی کرنیں نہیں رکھتالہٰذا ایک بات تو عیاں ہے کہ اس کے اندر کی وجودی کرنیں سورج کی محتاج ہیں۔ سیاہی زمین کا عکس ہے اورسفیدی اس کے اندر چلنے والے دریا ہیں۔

    سوال نمبر3:پھر پوچھا گیا کہ اگر عکس ہے تو سورج میں کیوں نظر نہیں آتا؟

    جواب: سورج مجموعہ مثل آتش(آگ)ہے اورچاند مجموعہ عکسِ آب(پانی)لہٰذا عکس ہمیشہ پانی میں نظر آتاہے نہ کہ آگ میں۔

    سوال نمبر4: ہر بندہ، بندگی کرتاہے۔ اس کی قبولیت یا ناقبولیت کا کیسے پتالگے؟

    جواب:اگر بندہ اپنی بندگی سے آپ ہی مطمئن نہیں اورخود کہتا ہے کہ میں پانی عبادت ٹھیک طرح نہیں کرپایا۔مجھے باسلیقہ ہوکر بندگی کرناچاہئے تھی۔ تو اس کی قبولیت کا علم تو اس کے اندر کا بندہ اسی لمحہ بتادیتاہے۔

    سوال نمبر5: فقیر کن راہوں کا قیدی ہے؟

    جواب:’’وجود ‘‘ کھانا، پینا، دیکھنا، سننا اورسونے کی عادت رکھتاہے۔ اورانہی کا قیدی ہے۔ اگر وہ ان کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے اوراسے اپنے قابو میں رکھے تو پھر اس کی قید میں نہیں رہتا۔

    سوال نمبر6: ہندوستان میں بُت پرستی کیا ہے اورآپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

    جواب: اس بات کا استحکام دل نے مقرر کیا ہوا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے خبردارہو اورجو کوئی اس کے معنیٰ سے معذور ہے وہ اپنے اندر کی آگاہی سے محروم ہے ۔ اپنے اندر کی آواز سے جڑنا ضروری ہے۔ ہر کوئی اپنے اندر سے آگاہ نہیں ہے۔ اگر آگاہ ہو جائیں تو بت پرستی نہیں کریں گے۔

    سوال نمبر7: دنیا کا طریقہ کھانا پینا، دیکھنا سننا، اورسونے سے اپنے جسمانی اعضاء کو بحال کرنا مقصود ہے۔ تاکہ ان میں طاقت آسکے۔ صافی نہاں داں اس بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر کم اور زیادہ کے کنٹرولی اضافے کے ساتھ ۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

    جواب: یہ کام دل کا ہے صافی نہاداں دل کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ اوردنیا کے ہاتھ میں تو اس کی بربادی ہے چنانچہ بچے اورجوان کا کھانا پینا، دیکھنا سننا اورسونا برابر ہے لیکن بچہ اگر کسی نا محرم عورت کے ساتھ بغل گیرہو تو برا نہیں مگر جوان کسی نامحرم عورت پر نظر ڈالے تو عیب ہوگا۔ اسی طرح صافی نہاداں بچوں کے مانند دنیا کا طریق عیب ہے۔

    سوال نمبر8: بعض لوگ کہتے ہیں کہ میرا پیرخس(خس وخاشاک)ہے؟

    جواب: لفظ کولوگ غلط سمجھتے ہیں۔ اگر پیرخسی تھا تو مرید اپنی مراد حاصل کرنے تک کیسے پہنچ گیا۔[وہ تو اپنی ذات میں خس ہوتاہے]

    سوال نمبر9: مرید خدمت پیر میں بے بہرہ آتاہے۔ طیبعت کے خلاف، جب خدمت مرشدی میں رہتا ہے تو فائق بن جاتاہے۔ کس طرح؟

    جواب عورت ناکدخدا کے سوا کسی سے شرم نہیں کرتی۔ ہر کسی کی طرف نگاہ کرتی ہے۔ جب اس کی تربیت ہوتی ہے تو وہ سرنگوں ہوتی ہے۔

    سوال نمبر11: خالق اورخلق میں کیا فرق ہے نیز میں نے ایک شخص سے یہی پوچھا تو اس نے کہا کہ مثل درخت اور تخم درخت، لیکن آپ کیا کہتے ہیں ایسا ہی ہے یا کچھ اورہے؟

    جواب: خالق مانند سمندر اورخلق کوزہ آب ہے۔ اگر چہ ان دونوں جگہوں میں پانی کہاں موجود ہے مگر ا س میں فرق کمال درجہ موجود ہے لہٰذا خالق خالق ہے اورمخلوق مخلوق ہے۔

    سوال نمبر12: پرم آتما جیو آتما کیسے ہو جاتی ہے۔ اورباز پرم آتما کیسے ہوجاتی ہے؟

    جواب:جیسے پانی شراب بن جائے اورہر کوئی اسے زمین پر گرائے اورپھر مستی وجنب زمین میں آجائے اورخالص پانی زیر زمین وہ باز آب ہے۔ بس آدم کی یہی قسم جیو آتما ہوتی ہے۔ جس میں آلایش مستی حواص خمسہ کے ساتھ چمڑجاتی ہو۔

    سوال نمبر13: ’’درآتما‘‘اور پرم آتما‘‘ میں کیا فرق ہے؟

    جواب: کوئی فرق نہیں۔

    سوال نمبر14: اگر کوئی فرق نہیں ہے تو پھر ثواب وعذاب کا معاملہ کیاہے؟

    جواب:تاثیر قلب ہے جیسے گنگ اورآب گنگ (گنگا)

    سوال نمبر15: ان میں کیا فرق ہے ؟

    جواب: ان میں بڑا فرق ہے اوربے شمار فرق ہے کیوں کہ آب گنگ اگر کسی کوزہ میں ہو اوراس میں ایک قطرہ شراب کا ڈال دیں تو وہ حکم شراب ہوگا۔ اگر آپ ہزارہا کوزے شراب گنگا میں ڈال دیں تو وہ شراب نہیں بلکہ گنگاہی کہلائی جاوے گی۔ درایں صورت ’’پرم آتما‘‘ خالص ہے اور’’مخلص آتما‘‘ہر کسی کے وجود میں قید ہے، جو پرم آتما بن جاتی ہے۔

    سوال نمبر16: ’’جوگیشر‘‘ ایک فقیر کامل کی طرح ہے یہ کہاں سے آپ کو پتاچلا؟

    جواب: خواب اوربیداری کا کیسے پتا چلا پھر لوگ سوتے بھی ہیں وہ ہنگام آغاز ہی سے واقف ہیں کہ کس وقت سونا ہے اورخواب دیکھنا ہے۔

    سوال نمبر17: تریا[اوشھا] لاہوت ہے؟ یہ کہاں ہے؟

    جواب: سدہ (اظہر من الشمس) پر

    اوّل: مہاپورکھ [بعداز کسب کمال مرتبہ کشف]

    دویم: بچپن

    سوئم:شراب خورغلطاں

    سوال نمبر18: سدہ ’’اظہر من الشمس‘‘ ہے لیکن بچپن اورشراب خور ان کا اعتماد کیسے ہو؟

    جواب: بچپن مخمور برائے ممعل ولعل ہوتا ہے۔ لیکن خواہشات اس کے اندر پوشیدہ ہیں پھر بعد از خمار باہر آتی ہیں ۔ جوگیشر ہمیشہ خمار کی مانند ہے لیکن مہاپورکھ اس میں تاثیر پیداکرتاہے تاکہ بااثر ہوجائے لیکن اگر نہیں ہوتی تو قدرت نہیں چاہتی۔

    سوال نمبر19: ہندی کتب بتاتی ہیں کہ جب کاشی پر موت آئے گی تو اسے مکت حاصل ہوگی۔ ازیں معنی تعجب ہوتا ہے کہ زاہد اورمعصیت کنندہ کیا برابر ہوں گے؟

    جواب: دراصل کاشی وجود کو قرار بخشتا ہے جو کوئی مرتاہے مکت ہوجاتاہے۔

    سوال نمبر20: دنیا میں جو کوئی بھی مرتا ہے کیا وہ مکت ہوجاتا ہے؟

    جواب:’’ماسوا‘‘ مہاپورکھ کے جو خواہشات سے پاک ہے۔ لیکن جو وجود خواہشات کے ساتھ مرے گا وہ مکت سے محروم ہوجائے گا۔

    سوال نمبر21: ہندی کتب سے پتاچلتا ہے کہ ’’اوتار‘‘ رفع فاسدان، قطع ظالمان اورمحافظت صافی نہاداں اوراستحکام حق دستی کرتا ہے۔ خصوصاً ’’ست جُگ‘‘ [تمام ثواب تھا]

    ترتیاجُگ [تین حصّے ثواب اورایک حصّہ عذاب ]

    دواپرجُگ [قراربالمناصفیہ]

    کنجگ [ ایک حصّہ ثواب اورتین حصّے عذاب ]

    آخر کار دو پرجُگ کہ اوتار سری کرکشن دنیا کے آدم حق میں آئے گا اورظالموں سے نجات دلوائے گا۔ اورصافی نہاداں جو پچھلی دنیا میں تھے ان کو ساتھ لائے گا پھر دنیا میں ہدایت اور راستی پھیل جائے گی۔ آپ کیا کہتے ہیں اس خیال پر؟

    جواب:اُوتار محض اس لیے ہوگا کہ طریقہ جگ جو منسوخ ہوگیا تھا دوبارہ بحال کرے اورآئندہ دور حال میں استحکام دے۔ محافظت صافی نہا داں جن کو ہراہ لایا تھا طریقہ عالم میں مرتبہ چہارم کو موافق رکھے۔

    سوال نمبر22: صافی نہاداں کس مقام پر رہتے ہیں۔ اوریہ جگہ/مقام کہاں ہے؟

    جواب: صافی نہاداں در مقام[جبروت] [سکھوپت] ہے۔ یہ عالم بے ہوش ہے جو جاگنے اورسونے سے محروم ہے پس بیدار شخص ہوشیارہے اورخواب میں سب روبکار۔ اوروہ کہ بیداری غفلت وزند اورخواب ہماں دیدار ہوتا ہے۔

    سوال نمبر:23: جب کوئی عالم بے ہوشی میں چلا جاتا ہے یعنی خواب وخراب میں اورپھر جب وہ واپس ہوش میں آتا ہے تو اس کو بیداری کا یقین کیسے ہوگا وہ کیسے جانے گا؟

    جواب: خواب(جمال وجلال) میں ’’ساتک‘‘ ’’راجس‘‘ اور’’تامس‘‘ موجود ہیں۔ جو کوئی بھی راجس اورتامس میں چلاجائے تو غلط ہے۔ (باطل ہے) اور ’’ساتک‘‘ بیداری ظاہر ہوگا۔

    سوال نمبر:24 ’’جوگیشر‘‘ خواہش تبدیل مکان درمعنی’’اوتار‘‘ بن جائے اورجو گی کمال والی سلطنت عظیم ہوجائے، عبادت کی اصل جگہ جنگل وبیابان درمیان سے نکل جائے اورصرف صورت سلاطین رہ جائے۔ تدبیر و بندوبست کرنا، قتل کرنا درآجائے۔ لوگوں پر ایسا وقت پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ بتائیں! اب ہم کہاں کھڑے ہیں؟

    جواب ایسا کہاں ہے؟ لیکن قیاس ضرورکرسکتے ہو۔ اپنی آنکھ کوجنگ وجدل دکھاؤ مگر جوگی کو کبھی نہ دیکھو کہ اس کے برابرکوئی نہیں ۔ اس کو خواہش حس پر لے آتے ہو اورہر روز اس کے درمیان جنگ تازہ ہوتی ہے۔ جو دنیاوی خواہش تک لے جاتی ہے کیونکہ امور انصاف میں کذب وجھوٹ آڑے ہے۔ کیونکہ ناشائستہ خواہش میں ہمیشہ دشمن طاقتور ہوجاتاہے۔ جس کے لئے تدبیر لینا ہوتی ہے۔

    سوال نمبر 25: مان لیا جائے کہ ’’راج جوگ‘‘ ہے تو پھر ہم کیسے اعتبار کریں کہ یہ راج آرائش سے خالی ہے؟

    جواب: واقعتاً اگر ’’راج جوگ‘‘ ہے اوراس سبب کے کہ ہر کوئی میل محبت اہل دنیا ہوگئے۔

    کیوں!

    اس لئے کہ اصل میں دنیا جوگ ہے اورقید دین دنیا ہے۔ پس فرض کرو کہ وقت ولمحہ خواہش محبت اہل اللہ ہو تو اس وقت اورلمحہ کوئی دانا دخل اندازی نہیں کرتے پس ہمہ قدر ’’جوگ‘‘ ہے۔

    سوال نمبر26: اکثر درویش اپنے اصل لباس میں ہی دنیا کے سامنے آنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوسکیں مگر کچھ اعتراض کرتے ہیں۔؟

    جواب: یہ راستہ بند نہیں ہے کہ اہل اللہ اس راستے سے گزریں۔ چنانچہ اگر کوئی پتھروں کوجمع کرتا پھرے کہ پارس پتھر اس کے ہاتھ لگ جائے تو کیا بُرا ہے۔

    نیز اپنے لباس میں کسی مجلس میں آتا ہے تو یہ ثواب عظیم ہے۔ کہ لوگ اس سے فیض یاب ہوتے ہیں اوراپنے مسائل پوچھتے ہیں۔ پھر سوال و جواب میں فی البدیہ گفتگو ہوتی ہے۔ اورلوگ علم وحکمت کی باتوں اور رشد وہدایت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

    سوال نمبر27: ’’رامائن‘‘ کی کتاب میں لکھا ہے کہ جب سری رام چند کا لشکر ہر طرف قتل و غارت کرتاہوا لنکا کی فتح کے لیے پہنچا اور فتح کے بعد انہوں نے ’’آب حیات پیا‘‘ [نوش کیا] جس کی وجہ سے تمام لشکر زندہ ہوگیا اورلشکر راون جو کہ فنا ہوگیا تھا انہوں نے کیا کہا کہ ’’یہ آب حیات کی تاثیر ہے۔ جو کوئی مرگیا تھا اب زندہ ہوگیا‘‘ ۔

    دویم! سری رام چندر’’یگانگی اوربیگانگی‘‘ کسی طرف نہیں تھے زندہ کرنے یا مارنے میں ۔ اورکیا معنی ومطلب ہے فرما دیں؟

    جواب: جب راون کا حملہ ہوا اورلشکر راون دن رات رام چندر کو تلاش کررہے تھے تو ایک فائدہ یہ ہوا کہ خالص صافی نہا داں آدم زاد جو مرچکے تھے سری رام چندر نے ہی تو اپنے دل وخیال سے انہیں زندہ کیا اورراون کے لشکر کو فنا کیا۔

    سوال نمبر28: ہر کوئی جانتاہے کہ راون’’سیتا‘‘ کو ان کے گھر سے اٹھا کر لے گیا تھا، اس وقت سری رام چندر کہاں تھے؟

    جواب: دراصل ’’سیتا‘‘دھرم تھی اوراپنے ’’دیو‘‘سے نسبت نہ رکھتی تھی۔

    سوال نمبر29: ’’دیو‘‘ ہر کسی کا روپ دھار نے کی قوت رکھتا ہےمگر’’سری رام چندر‘‘ کی شکل میں نیہں آسکتا۔ کیوں؟

    جواب:’’سیتا‘‘ رام چندر کے مکھ سے اسے پہچانتی تھی۔ اس کے چہرے سے الفت رکھتی تھی۔ [اگر کوئی روپ بدل کے سیتا کے سامنے آئے اوروہ رام چندر نہ ہوا تو سیتا کو دکھ ہوتا]

    سوال نمبر30: راون سیتا کو گھر سے اٹھا کر لے گیا یقینا سیتا روان سے خوف زدہ ہوئی یا کی گئی تو پھر اس جرم میں راون آگ میں کیوں نہ جھلسا؟

    جواب: دراصل سیتا صورت دھرم ہے وہ ’’ساتک‘‘ تھی جب بھی وہ غصہ کرنا چاہتی نہ کرپاتی ۔

    سوال نمبر31: ہندی کتب میں ہے کہ درجگ ترتیا۔ در ہزار سال عمر آدم کی تھی۔

    راجہ جسرتھہ: نوہزار سال عمر پایا۔ جب کہ سری رام چندر نے گیارہ ہزار سال عمر پائی۔ کیا ہوا کہ سیتا نے صرف ایک ہزار سال ’’بن باس‘‘ کیا اورراون سے کیا نسبت تھی؟

    مگر کیا سری رام چندر اس قدر قدرت وقوت نہ رکھتے تھے کہ اس پر اپنا دھیان ونگاہ رکھتے؟

    جواب:راجہ جسرتھہ کی ایک ہزار سال کی کم عمر کی وجہ’سُرون‘‘ کی بد دعا تھی جسے اس نے قتل کردیاتھا۔

    اورسری رام چند کی ایک ہزار سال زیادہ عمر ’’کسری معتاد جگ ترتیا‘‘ تھی۔ یہ ساری عمر والد اوربھائی سے ملی تھی جب کہ ’’سیتا‘‘ کے والد سے کوئی الفت نہیں تھی اسی وجہ سے سیتا نے ایک ہزار سال ہی بن باس کیا [مقدمہ دہ سر (10)(راون) [درمیان میں آگیا۔

    سوال نمبر 32: مذہب ہندو کی رسم ہے کہ [عقیدہ ہے] کہ ’’بُرج‘‘ [متھراجیولا] میں ’’سری صوگوپیاں‘‘ جلوہ گر ہیں۔ یہ ٹھیک یا نہیں ؟

    جواب ٹھیک کرتے ہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں۔؟

    سوال نمبر33: جناب حال برہم کس طرح دل ان کا ہوجائے؟

    جواب: وہ ہر جگہ نہیں۔ معلوم نہیں کہ وہ ابھی یہاں آجائیں کیا پتہ وہ کہاں رہتے ہیں۔

    ان کی شکل (ظاہری) ہے کہ نہیں۔

    رنگ کیسا ہے یا بہ مثل مہاپورکھ ہیں۔

    سوال نمبر34: شکر ہے کہ اللہ ایک ہے۔ (آفرینش ازیک قدرت است)

    توپھر’’استہاور اورجنکم ‘‘ کیوں۔

    کہ بربے ہوش اورہوشیار واقع ہے۔

    بعض تو بے خودی میں انہیں اوتار، برہمان بش، مپلیش بھی سمجھتے ہیں۔ یہ کیسے ہوا؟

    جواب: چونکہ’’استہاور‘‘ زمین سے پیداہوا اوراس کا تخم زمین سے ہے۔ اورجنکم تخم آب ہے۔ اورآب [پانی] زمین پر غالب ہوجاتا ہے اس معنی سے جنکم۔ استہاور پر فوقیت رکھتاہے۔

    سوال نمبر35: یہ بھی کہاجاتاہے کہ

    ’’جنکم ہم آدم وہم حیوانات ہے‘‘

    توپھر آدم حیوانات پر کیوں غالب ہے؟

    جواب: آدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم عین اور

    حیوانات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم جدید ہے۔

    جو عبارت بے ہوشی ہے۔ آدم کسی اورگروہ کے مقابل پر ہے۔ ازیں ممر بے ہوش ہے۔ اورحیوانات مقابل خلق پش وپس ہیں۔ اسی وجہ سے آدم حیوانات پر حاوی ہے۔غالب ہے۔ اور’’اسہتاور‘‘ جو تخم زمین ہے کوئی حرکت نہیں کرتاہے۔ قائم ہے اورجنکم چونکہ پانی سے ہے اورپانی ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے۔ اوربعض آدم دیوتاؤں کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ ہوا ہے۔ بعض’’ سدہ غالب‘‘ سے آئے جو ’’نکاروپ‘‘ ہیں۔

    سوال نمبر36: فقیر[راکلیہ چہ باید کرد] کیا کرتا ہے کہ جواب کامل نہیں دیتا؟ اگر کوئی اپنے سوال کے جواب کی درخواست کرتا ہے تو وہ ’’خاموشی‘‘اختیار کرجاتا ہے۔

    جواب: طالب ومحرم ان کی نگاہ میں ہوتے تھے۔ وہ سوال کا جواب دیتے تھے تم سمجھتے ہو کہ وہ خاموش ہیں۔ یہی تو جواب ہوتا ہے۔

    سوال نمبر37: توحید اورحالت میں کیا فرق ہے؟

    جواب: خاموش کو راز حق کہتے ہیں جو توحید ہے۔ اورگفتگو کرنےسے پہلے کی کیفیت حال و حالت ہوتی ہے۔

    سوال نمبر38: دھیان کیا ہے اور’’سمادہ‘‘ کیاہے؟

    جواب: دھیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پکڑنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ [گرفتن]

    اور

    سمادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گذرنا (وقت کا)۔۔۔۔۔۔۔۔ [گذاشتن]

    کیوں جانے کے بعد دل مانند’’آہوئےصحرا‘‘ (ہرن صحرائی) کہاجاتاہے۔

    کیوں کہ بیتائی بسیار ہوتی ہے پھر پکڑے جانے یعنی قیدہونے پر کیوں ایسا ہوتا ہے؟ پھر وقت کے گزرنے کے بعد وہی حبس مست کرتاہے۔

    سوال نمبر39: کیا وصال ذات بھی ہوتی ہے اگر ہوتی تو وصال کو کیسے پتا چلتاہے کہ ذات بھی ہمراہ ہے؟

    جواب: لو ہے کو آگ پر رکھو اس وقت تک کہ وہ آگ کا رنگ بھر لے اب اس پر کام کرو تو نتیجہ پرآجاؤگے۔

    سوال نمبر40: خیرات دینا (دان کردن)کہتے ہیں کہ خیرات کا فائدہ بہرحال ملتا ہے بعدازاں کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں خیرات کرے تو اس کے دل کو سکون ملتا ہے بعض چیزوں کو فقیرآدم کے تعلق سے بھی جوڑتے ہیں۔ کیوں کر؟

    جواب: دراصل اوقات آدم کا تین گنا تعلق ہے اگر بسا تک کردہ ۔۔۔بساتگی، براجس کردہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ براجسی اوراگر بتامس کردہ ۔۔۔۔۔ بتامسی۔

    پس حیوانات ساتک، راحبس اورتامس۔

    کیوں کر ہیں۔ ساتک۔ بے سعی بازو اوربے محنت بے گردش تک پہنچتی ہے اورجا جس آدم کے راستے حیوان تک نگاہ رکھتی ہے پھر تامس کو تھپڑ پڑے تو وہ تھپڑ کھاتا بھی ہے۔

    سوال نمبر41: یہ طے ہے کہ مسلمان جب فوت ہوتا ہے تو اسے دفنایا جاتا ہے۔ ہندو کو جلایا جاتا ہے۔ اگر درویش ہو اوروہ در پردہ ہندو ہو تو اس کا کیا کیا جائے گا؟

    جواب: دفن کرنا یا جلانا بہ وجہ تعلق کے ہوتا ہے اوردرویش اس تعلق میں نہیں آتا۔

    اس کا وجود تو معرفت الہٰی کے سمندر میں غرق ہوتا ہے۔ اس کا وجود کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ تم چاہے اس کے وجود کو جلادو یا دفن کردو۔

    سانپ اپن کھال خود اتار کر پھینک آتا ہے اور پھر اس کھال کو تم جلاؤ یا دفن کرو اس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔

    فقیر کے وجود خاکی کی بھی وہی حالت ہوتی ہے۔

    سوال نمبر42: کہاجاتاہے کہ کم آزاد بنو۔۔۔ معنی کم آزاد کے کیا ہیں اورکیسے بنیں؟ کہا اندک آزاد کہہ رہاہوں۔

    جواب: بڑے اور طاقتور بنو مگر دست آزاد [خالی ہاتھ] پھر دوسروں کو برابر رکھو اوران کی آزادی کا خیال رکھو۔ یہی مطلب ہے کم آزادی کا۔

    سوال نمبر43: کیا فعل مختار، معبود حقیقی ہے؟ نیز مذکور ہے کہ فعل مختار ہماں کامیاب ہے؟ کیسے یقین کریں۔ تفصیل سے بتائیں۔

    جواب: فعل مختار خدا عزوجل سلطان ہے نیز موجودات بھی۔

    سوال نمبر44: بہر حال کیسے یقین کریں؟ تفصیل سے بتائیں۔

    جواب: اس وقت تو یقین کیا تھا جب بچہ ماں کے رحم میں تھا۔ وہاں فعل مختار درپردہ موجود تھا جس نے بچہ کوامّاں بخشی اوراس کی پرورش کی جب کہ وہاں اس کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ پھر بچہ کا بھی دنیا میں ظہور ہوا۔ آدھا فعل مختار مکمل ہوا۔ پھر ازراہ عنایت وبندہ نوازی قوت ربانی عز وجل نے اس کی ماں کی چھاتیاں دودھ سے بھردیں۔ بقایا آدھا فعل مختاریہاں پورا ہوا۔ پھر بچہ جب روئے تو ماں مطلع ہوجاتی ہے۔ اوروہ اسے دودھ پلاتی ہے۔

    پھر جوان ہوجاتا ہے اورخواہشات نفس سے وہ عورت کے ساتھ ہم بستری کرتاہے۔ یہ برنیک ہوایا بداشغال۔ اب وہ خود فعل مختار ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی سب نیک اوربد تخلیق کیے ہیں ۔

    سوال نمبر45: کتب فارسی میں مذکور ہے کہ دوسرا جنم نہیں ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

    جواب: اس بارے میں کن کتب میں ہے کیونکہ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کو فارغ کردیا ہے کہ ’’دوسرا جنم نہیں ہے‘‘

    سوال نمبر46: دوسرے جنم کی عبارت منسوخ ہوگئی ہے۔ یہ بات ہندی کتب نے لکھی ہے۔

    جواب: فارسی کتب کے اکثر مصنفین صاحب کمال تھے اورہر کوئی صاحبِ کمال اوران کے دل آلودگی نفس سے پاک ہیں۔ وہ مرنے سے پہلے خود کو فانی کہتے تھے وہ دوسرے جنم کو نہیں مانتے ۔ مگر اہلِ ہند اس کو نہیں مانتے اوراپنے آپ کو ان کے ہاتھ نہیں دیتے ۔

    سوال نمبر46: کہتے ہیں کہ تناسخ جامعہ اصلی معتبر نہیں ہے۔ چاہے آدم، حیوان اورحیوان آدم ہوجیسے گندم کے کھیت میں جو نہیں اگتی؟

    جواب: کسی نے اللہ کا قرب اپنے شوق سے حاصل کیا۔ حقیقت حق وجود انسان ہے نہ کہ حیوان۔ کوئی شخص آلودگی نفس اورخواہش حواس خمسہ میں مرجائے تو پھر تناسخ تبدیل لباس کرو۔ کرسکتے ہو۔

    سوال نمبر47: فارسی کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ نے اپنے قدرت کاملہ سے وجود آدم چار عناصر سے بنایا، یعنی

    خاک۔ ہوا۔ پانی۔ آگ

    لیکن کتب ہندی میں تخلیق وجود آدم پانچ عناصر بتایا گیا ہے۔ اس کا انہیں کہاں سے معلوم ہوا؟

    جواب: الحق کہ آدم پانچ چیزوں سے آراستہ ہے۔

    اوّل: خاک: جسے وہ’’شامہ‘‘ کہتے ہیں وہ بمدد نیک زمین کی بُو سے دریافت ہوئے۔

    دوم: پانی: جسے زبان مخصوص میں ذائقہ کہتے ہیں کہ پانی کی تاثیر ہمیشہ سیراب کرتی ہے اوراندرنمی پیداکرتی ہے۔

    سوئم: آگ: مثال آنکھ ہے جو ہمیں روشنی دیتی ہے۔

    چہارم: ہوا: ھووھودیت ہست’’لامہ‘‘ (جو وجود ہے جسے لامہ) کہتے ہیں جو وجود کو گرم رکھتاہے۔

    پنجم: آکاس جسے کان یا سامعہ کہتے یعنی قوت شنوائی۔ بطرف نیک وبد ہے طریق سبحان و تعالیٰ سب کان ہیں۔ اگرکان نہ ہوں تو آدم بہ صفات پاک سن نہ پائے۔ یہ پانچ خاصیت وجود آدم علیحدہ علیحدہ ہیں۔

    سوال نمبر48 بعض لوگ جب فقرا کے درپر خدمت گذار ہوتے ہیں تو حاضر رہتے ہیں لیکن بعض حاضر سوتے ہوئے بھی غیر حاضر ہوتے ہیں۔ اس کا کیا بیان ہے؟

    جواب: جو ظاہر ہے وہ خود مشغول نفسانی ہوتا ہے اوروہ غیر حاصل ہے اوراگر درصورت دور ہے اورباطنِ خود پردھیان رکھتا ہے تو باوجود غیر حاضر کے وہ حاضرہے۔

    سوال نمبر49: اللہ سبحانہ تعالیٰ ’’سِر‘‘ہے۔

    جو سات لطائف:

    لطیفہ قلب۔ لطیفہ روح۔ لطیفہ سر۔ لطیفہ اخفیٰ۔ لطیفہ نفس۔ لطیفہ قالبی۔ لطیفہ نفی اثبات۔

    اور ذرہ انوار الہٰی کے وجود دنیا قائم ہوئی پھر باز پرس محاسبہ اعمال نیک وبد ہوگا۔ آپ کیا فرماتے ہیں اس بارے میں۔

    جواب: بادشاہ اپنی مسند کامرانی پر بیٹھا تمام برعالم اورعالمیان پر اس کا حکم جاری ہے۔ کسی کی جرأت نہیں کہ اس کی حکم عدولی کرے اوراگر یہی بادشاہ رات کی تاریکی میں اکیلا بدکاروں کے محلے چلاجائے اوربدمعاش اس کے گرد جمع ہوجائیں اوروہ انہیں کہے کہ میں بادشاہ ہوں تو اس کی کوئی بات نہیں سنے گا۔ بلکہ اس کی تنبیہ ہوگی۔ باز پرس ہوگی۔ یہی طریقہ رب تعالیٰ جل کا ہے۔ جو کرو گے اس کا حساب تو دینا ہے۔

    سوال نمبر50:بہشت کے دروازے پر داخلے کے وقت کلمہ شریف کا ورد ہوگا؟ کلمہ شریف پڑھنا پڑے گا؟

    جواب:فی الواقع ورد کلمہ معظم کئی قسم کے ہیں۔

    سوال: نمبر51: وجود کتنے ’’نظر‘‘ہے۔؟

    جواب: وجود تین نظر ہے:

    جرم نظر: جسے ہندوستانی’’جرام دشت‘‘ کہتے ہیں

    نظر عالم: جسے ہندی ’’آتم دشت‘‘کہتے ہیں اورجرم نظر وہ ہے مثل آدم وغیرحضور خود نظر آئیں۔ نظر عالم میں آنچہ تماشہ وکیفیت ملک و شہرہا ایک نشست میں دیکھ سکیں۔

    روح نظر: وہ ہے کہ دل وجان وجود خود بہ خود دکھائی دے۔

    سوال نمبر52: وجودِ دل کہاں ہوتے ہیں: کون سے مقام پر؟

    جواب: ’’درسہ جا‘‘تین جگہوں پر [بتا چکاہوں]

    [عرض ہے کہ یہ تین جگہیں کون سی ہیں؟]

    1:نظر گاہ بیداری:

    جسے ہندی میں ’’جاگرت‘‘کہتے ہیں۔

    2:خواب دیکھنا:

    جسے ہندی میں ’’سپن‘‘کہتے ہیں۔[سپنا۔خواب]

    3:آرام، خواب:

    جسے ہندی میں ’’سکھوپت‘‘ کہتے ہیں۔

    [نظر گاہ بیداریست اورسپن دیکھنا اورخواب آرام۔ وہ کہتے ہیں خواب کے مضمون کے علاوہ کوئی اورچیز خواب میں نہیں دیکھتے]

    لہٰذا وجودِ دل کا مقام ان تین جگہوں پر ہوتا ہے۔

    سوال نمبر53: معنی دل کیاہے؟

    جواب: ’’دل‘‘میرا اورتمہارا۔ یعنی دوئی از دوست کیونکہ دل ارواح کو ماں، باپ، بہن، بھائی،عورت (بیوی)اوراولاد کی جانب کھینچ (کھنچتا) ہے۔ اورالفت (محبت)کرتا ہے۔ یوں سمجھو کہ ’’یہ محبت دوئی ازدل ہے‘‘

    سوال نمبر54: صورت دل کیا ہے کہ جو نظر نہیں آتی؟

    جواب صورت دل مانند ’’ہوا‘‘ ہے۔

    سوال نمبر55: ’’دانستہ‘‘ کس طرح ہوتا ہے؟

    جواب: درخت کو اس کی جڑسمیت نکالو کہ جڑ نظر نہ آئے۔ چنانچہ دل حواس خمسہ کے ساتھ اسی طرح کا معامہ ہے۔ تعلق ہے۔نظر نہیں آتا۔ سمجھو کہ

    صورت دل مانند ’’’ہوا‘‘ ہے۔

    سوال نمبر56: دل کیا کام کرتاہے ؟

    جواب: دل’’ارواح‘‘ کی دلالی کرتا ہے۔

    سوال: نمبر57: کس طرح پتا لگتا ہے؟

    جواب: دوکان حواسہ خسمہ کہ ہندی کہتے ہیں کہ وہ لذت دنیاوی پکڑ کر ارواح تک پہنچاتا ہے۔ اورارواح ایں لذتِ گناہ میں گرفتار ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ دل سودائی بہ خریدار ازدوکان ازیں ہے۔

    بہ ذمہ خریدارو دوکاندار ہوتا ہے، کمی اوراضافہ [خریدار(ارواح) دوکاندار(حواسہ خمسہ) [دل بس دلالی کرکے الگ ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ دلال کہلاتا ہے۔

    سوال نمبر58: خیال دل کیا ہے ؟

    جواب:لوہار آگ پر لوہا رکھ کر تلواریں بناتا ہے۔ اس کے لئے وہ آگ جلاتا ہے۔ جب وہ تلوار ڈھال لیتا ہے تو آگ بجھا دیتا ہے یا پرائے کردیتا ہے۔ دل کی مثال آگ جیسی کی سی ہے۔ لہٰذا

    دل کی تیز رفتار زندہ ہے اورسمجھو کہ خیال دل ’’دم‘‘یعنی سانس ہے۔

    سوال نمبر59: خیالِ دم (سانس) کیا ہے؟

    جواب: خیال دم (سانس)دل سے ہے۔

    سوال نمبر 60: اس کو کیسے سمجھ پائیں گے؟

    جواب:خود نظر ڈالو، خواب میں چلے جاتے ہو تو ایک شخص آتا ہے تمہارے گھر کی چیزیں اٹھا کر لے جاتا ہے۔اس وقت ’’دم‘حاضر تھا [کیونکہ سانس تو آجارہی تھی] مگر اس کو چور کی خبر نہ ہوئی۔ دل اس وقت خواب خیال میں تھا۔ پس یہ سمجھو کہ خیال دم از دل است گویا سانس (دم)بغیر دل مردہ ہے۔

    سوال نمبر61: خواب ’’کرا‘‘ اورہندی میں اس کو ’’نند‘‘ کہتے ہیں؟

    جواب: ایسے خواب کو کہتے ہیں کہ حرصِ دنیا خواب میں آئے حرص بر خیزد جو مجھے اورتم کو ماردیتی ہے۔ پھر خواب سے بیدار کردیتی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں، فقیروں کی محبت کبھی دل سے نہیں مرتی۔ ہر گز چون مرن مبتلا مرن اورخیزد مبتلا خیزد۔

    سوال نمبر62:فقراء’کرا‘‘کہتے ہیں؟

    جواب: حرص دنیا کو چھوڑ دیں تو میں اورآپ فارغ ہیں۔ تو پھر کوئی چیز ہم اپنی خواب میں نہیں دیکھیں گے ۔ شاید خواب فقرا کو ہندی جوک ’’نند‘‘ کہتے ہیں وہ دنیا میں آنے جانےسے فارغ ہیں۔’’موہ کش‘‘ ہیں۔

    سوال نمبر63: تمام حیوانات ونباتات وجمادات وغیرہ پر بیداری چار بار آتی ہے۔ وہ بیداری کیا ہے؟

    جواب: اسے گردش فلک کہتے ہیں۔

    سَر اُوتّر (شمال) اورپاؤں دکھنی (جنوب) اورچشم (نگاہ) سورج یا چاند جانب ہے۔ اورہڈیاں ۔ پہاڑ اورپتھر اورکھال زمین اورنبض دریائے خون اوردریا کا پانی اورندی نالے اوردرخت خس وخاشاک تمہارے تن بدن کی طرح ہے۔ سارا جسم (وجود)کے بال ’’برتن‘ ہیں۔ اورکان آسمان کی جانب لگے ہیں۔

    سوال نمبر64: کان دو اورآسمان ایک ؟

    جواب: دوکان [دو + کان ] بات ایک ہی کو سنتے ہیں۔ آدم چاروقت بیداری میں گردش فلک سے گزرتا ہے۔ جس وقت اسے خواب آتا ہے تو قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ ہندی اسے ’’بمیراث پورکھ‘‘ کہتے ہیں۔

    سوال نمبر65: اور سوال نمبر66: آدم جو اپنا وجود رکھتا ہے آن وقت بیدار ہے۔ اوراس وقت ’’بے خبری‘‘ نہیں ہوتی۔ عرض ہے کہ اس وقت بیداری بھی نظر نہیں آتی؟

    جواب: جس وقت بے خبری ہوتی ہے ہاتھ پاؤں بھی آرام کررہے ہوتے ہیں۔ جب یہ وقت گزر جاتا ہے تو وجود کا آرام نہیں رہتا۔ اب تمام وجود آزاد ہے۔

    چنانچہ!

    کوتوال (پولیس)چور کو پکڑتا ہے اوربحضور امیر صوبہ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ چور جانتا ہے کہ مجھے جسمانی سزا ملنے والی ہے یا کوئی اورسزا جو قاضی دے۔ اوروہ ڈرتا ہے اوراس کا دل گھر کے افراد ماں باپ یا اولاد وغیرہ کے بارے میں نہیں سوچتا کہ ان کا کیا ہوگا۔ بلکہ اپنی جان کی بابت ہی سوچتا ہے۔ نظرو دل کوتوال اورامیر صوبہ(قاضی) کی طرف ہی رہتا ہے کہ میرے ساتھ کیا کرنے والے ہیں وہ بے خبری میں نیہں ہوتا اس وقت وہ بیدار ہوتا ہے۔

    سوال نمبر 67: ’’در‘‘ و ’’اصل‘‘ میں کیا فرق ہے؟

    جواب: جووجود کا فرق ہے۔

    سوال نمبر68: ’’دانستہ‘‘ کیسے ہوتا ہے۔؟

    جواب: واصل کی جگہ ہے۔ جہاں دل واصل ہو۔ تن وہاں نہ پہنچ سکے مگر وجود کا یہاں فرق ہے۔ کیونکہ وجود واصل اورنا واصل میں بھی فرق ہے۔

    سوال نمبر69: کتنا فرق ہے؟

    جواب: وجود واصل مثل آئینہ ہے۔

    سوال نمبر70: اس پر آپ کیا کہتے ہیں کہ ایک جانب روشن اورایک جانب نابینا؟

    جواب: جس طرح[ روشنی ہے] خدا اس دل کی جانب ہے۔ اورجس جانب نابینا ہے۔ گویا تن اوردر اس جانب دنیا عقب نشیں ہے۔ وجود ناواصل مثل ’’ہنوستان‘‘ہے ہر طرف سیاہ اورسیاہی ہے۔ نہ دین کی خبر اورنہ دنیا کی یہی ہے فرق واصل اورناواصل کی۔

    نوٹ: مترجم کی فارسی عبارت میں اکثر جگہ سقم ہے اورکہیں کہیں اغلاط ہیں جسے ضرور دیکھاگیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے