Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

رسالہ صاحبیہ

جہاں آرا بیگم

رسالہ صاحبیہ

جہاں آرا بیگم

MORE BYجہاں آرا بیگم

    رسالہ صاحبیہ

    تالیف: شہزادی جہاں آرا بنت شاہ جہاں

    ترجمہ: ڈاکٹر تنویر احمد علوی

    (الف)

    بے شمار تعریفیں اوران گنت ستائشیں اس خدا وند قدوس کے لیے ہیں جو اپنی ذات میں بے مثل و یکتا ہے اورجس کی الوہی صفات میں تمثیل وتشبیہ کی کوئی گنجائش نہیں اورہزاروں ہزار درود و سلام حضور سرکار دوعالم رسول مقبول کے لئے ہے جن کے دین مبین کی سچائی میں شکوک وشبہات کو دخل نہیں اور اس کی پاک اولاد اور اصحاب کرام کی ارواح مقدس پر کہ ان میں سے ہر ایک ذات احادیث کا پرستار اورحضرت رسالت مآب کے لائے ہوئے دین کا ماننے والا اور خدمت گذار تھا اورجنہوں نے اس دین برحق کی پیروی کے سوا کسی سے کوئی نسبت نہیں رکھی۔(رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین)

    امّا بعد یہ ایک مختصر رسالہ ہے جسے اس فقیرۂ نحیف اور اولیا ءاللہ کی اس خادمہ ضعیف جہاں آرا بنت شاہ جہاں نے ترتیب دیا ہے۔ اللہ پاک اس کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرے(مین)

    اس مختصر رسالہ میں حضرت ارشاد پناہ ولایت دستگاہ، محقق اسرار اللہ عارف، اللہ مرشد والا ملا شاہ سلم اللہ تعالیٰ کی پاک زندگی اورسعادتوں سے بھرے ہوئے واقعات کا بیان ہے جو اس ضمیمۂ بے بضاعت کے دستگیر اورمرشد روشن ضمیر ہیں۔

    اس کے ساتھ ان اوراق میں اس ضمیمہ سے اپنا بھی کچھ کچھ احوال پر اختلال قلم بند کیا ہے کہ اس فقیرہ کے دل میں کس طرح طلب و آگہی کا ذوق پیدا ہو اکیسے حضرت والا سے الفت و عقیدت پیدا ہوئی اور میں نے حضرت ملا شاہ کا دامن تھاما، اس میں کچھ وہ حالات درج ہیں جو اس رسالہ کی تالیف کا سبب بنے جس کا نام فقرائے باب اللہ کی اس خادمہ اورحضرت ملا شاہ کی بارگاہ کی اس دریورہ گرنے ’’رسالہ صاحبیہ‘‘ رکھا ہے۔ قلم شکستہ زباں کو یہ مجال کہاں کہ حضرت کی کتاب اوصاف کا ایک حرف بھی صحیح طورپر لکھ دے اور مجھ عاجزہ کی زباں کج مج بیاں میں یہ قدرت کہاں کہ وہ اس مرشد کامل کی صفات حسنہ کا (قرن در قرن مدت یابی کے باوصف) کوئی شبہ کرسکے لیکن حضرت کے احوال سعادت مآل کے بیاں کو اپنے لئے فیض و برکت کاموجب مانتے ہوئے میں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔

    اور اس کے ذیل میں اپنے احوال پر اختلال کی تحریر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس فقیرہ نے دستگاہ اور ضمیمۂ نامہ سیاہ کا نام حضرت کے اسم مبارک واحوال مقدس کے ذیل میں لکھ دیا جائےشاید حضرت والا کے اسم شریف کی برکت وسعادت سے اللہ پاک اس فقیرہ ٔ بے نوا کو بھی بخش دے (جس نے اپنی عمر عزیز کو بیہودہ باتوں میں صرف کیاہے) اورقیامت کے روز حضرت کے مخلصین ومعتقدین کے زمرہ میں شامل فرمائے۔

    میں نے بعض کتابوں میں پڑھا تھا کہ پہلے بزرگوں نے اپنی اوردوسروں کی ہدایت کے لیے اپنے مشایخ کا احوال لکھا ہے کیوں نہ میں بھی ان کی سنت پر عمل کروں ورنہ یہ فقیرہ ٔ بے بضاعت اس قابل کہاں کہ حضرت ارشاد پناہ مولیٰ شاہ کے اوصاف عالیہ کے دریائے بے کراں سے لے کر ان سے ایک قطرہ بھی باہر لاسکوں یا مرشد حقیقی کے خصائل و فضائل کے بوستاں سے کوئی ایک پھول بھی چن سکوں، اسی کے ساتھ، خود میں کس شمار قطار میں ہوں کہ حضرت کے حالات کے ساتھ (گونا گوں خامیوں اورخرابیوں سے بھرے ہوئے) اپنے حالات کو سپر دقلم کرسکوں کہ یہ اندراج بھی ایک سوئے ادب سے کم نہیں۔

    میں خدا کی ذات سے یہ امید رکھتی ہوں کہ جو بات بیان واقعہ کی سی نوعیت رکھتی ہے، وہ بغیر کسی زیادتی اور نقصان کے زبان قلم سے تراوش پائے۔ اللہ پاک مجھے اس کی ترتیب وتکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    ’’حضرت ارشاد پناہ، ولایت دستگاہ، عارف باللہ ملاشاہ بدخشی کے حالات متبرکہ‘‘

    معلوم ہوناچاہئے کہ حضرت والا کا وطن مالوف اورمولد شریف موضع ’’ارکسا‘ ہے (جو توابع بدحشاں ہے)۔ حضرت صوفی علی الاطلاق اور یگانہ آفاق میں عرفان ذات میں یکتائے دوراں اور نکتۂ توحید کی رمز شناسی میں یکتائے زمانہ ہیں۔ پیروی رسوم سے مبرہ اور مراتب ودرجات کی ترقی وتنزل سے منزہ ہیں۔ حقیقت کے اتھاہ سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خزائن وجود کا سرچشمہ اور لفط وعنایات کا منبع ہیں۔ رموز قرآن کے کاشف اور حقیقت کے بھیدوں سے واقف ہیں جہاں نیرنگی کے طلسم سے آزاد اور بے رنگی کی فضائے لطیف میں محو پرواز ہیں۔ بارگاہ الہٰی کے مقرب، شریعت وطریقت کے رمز آشنا ہیں اورمعرفت ذات نامتناہی کے جریبہ دار ہیں۔

    حضرت دور موجود میں قطب الاقطاب اور غوث الآفاق ہیں۔ میرے شیخ طریقت اور میرے مرشد ومولا ہیں اور آپ کا نام نامی اسم سامی ملا شاہ ہے۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور مرتبۂ بقا عطا فرمائے۔ موضع ارکسا روشتاق، توابع ملک بدخشاں سے ہے جیسا کہ حضرت والا نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف اشارہ فرمایاہے۔

    ملک من از ملکھا ملک بدخشاں آمدہ

    ازبلاد روشتاق از قرا از’’ارکسا‘‘

    حضرت کے والد ماجد کا اسم شریف مولاناعبد احمد، بن مولانا سلطان علی، بن حضرت قاضی فتح اللہ ہے۔

    [اللہ پاک ان کی روحوں پر اپنی رحمتوں کے پھول برسائے]

    حضرت کےقابل احترام اسلاف میں ہر شخص قاضی کے لقب سے امتیاز رکھتاتھا لیکن ان کا مقصود اعلیٰ اور مطلوب والا، راہ حق کی طلب اور ذات مطلق کی شناخت سے تھا، اس لئے یہ لوگ امور قضا سے کوئی خاص دلچسپی نہ رکھتے تھے، اور اس جہان فانی کے رنج وراحت کو اپنی نگاہ حق شناس میں کوئی مقام نہ دیتے تھے اور اس جہاں گذراں کی مسرت ومحبت کو یکساں شمار کرتے ہوئے اپنے اوقات گرامی کو اطمینان قلب اورطمانیت خاطر کے ساتھ گذارتے تھے ۔ان عزیزوں میں سے ہر ایک نے وقت موعود آنے پر سفر آخرت اختیار فرمایا اور آغوش رحمت میں جگہ پائی۔

    میرے حضرت کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی خاتون تھا جو رابعہ وقت اور خدیجۂ زمانہ تھیں۔ بہت ریاضت ومجاہدہ کرنے والی بی بی اور صاحبہ حالات ومقامات خاتون تھیں، انہیں نسا وعورات میں عارضہ کامل کا درجہ حاصل تھا۔انہوں نے اپنی عمر طبعی کی مختلف منزلوں کو طے کرکے وقت مقررہ کے آنے پر عالم فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخ کیا اورحجلۂ بقا کوزینت بخشی۔

    میرے مرشد مولانا شاہ کے دوبھائی اورایک بہن ہیں جو آپ سے عمر میں چھوٹے ہیں، بقید حیات ہیں ۔اپنے وطن موضع ارکسا میں قیام پذیر ہیں۔آپ کے دونوں بھائیوں کے نام ملابیگ محمد اور ملا سلطان علی ہیں۔ یہ دونوں بھائی حضرت کی خدمت بابرت میں کسب فیض اورحصول سعادت کے لئے ادھر ہندوستان بھی آئے تھے۔ حضرت الہٰی اور وصول ذات نامتناہی کے مختلف مراحل طے کرکے آپ کے فرمان کے بموجب اپنے قریہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔

    اپنی ہمشیرہ کو حضرت والا نے اپنی توجہ غائبانہ سے عالم باطن کی راہ دکھلائی اورمشغول (بہ حق) فرمایا علاوہ ازیں آپ کے بہت سے اہل وطن آپ کی باطنی توجہات کی بدولت ہیں۔ اس لئے وہ آپ سے عقیدہ درست اوراخلاص دل رکھتے تھے۔ حضرت والا کی بیکراں بخشائشوں اور اپنے بے پایاں برکات سے بہرہ یاب ہوئے اورحضرت نے طریقہ اوسیہ کے مطابق ان کی تربیت فرمائی۔

    اس ملک اوراس دربار کے رہنے والوں کی ایک بڑی جماعت محض حضرت والا کے دیوان حقیقت ترجمان کے مطالعہ اورمشاہدہ سے [کہ وہ شروع سے لے کر آخر تک معارف صفات اورحقائق ذات پر مشتمل ہے] اسرار توحید اوررموز الوہیت سے آگاہ اورمقامات طریقت اورمراتب حقیقت پر فائز اورگونا گوں فیوض وبرکات سے بہرہ ور ہوئی اورانہوں نے ترقی کے اعلیٰ مراحل طے کئے۔

    حضرت والا نے [کہ میرے مرشد ولایت پناہ اورمربیِ حقائق دستگاہ ہیں]اپنے دیوان فصاحت قرآن وبلاغت نشان کا ایک نسخہ اس ضعیفہ کو عنایت فرمایا جو بلند رتبہ قصاید اورشور انگیز غزلیات سے مزین ایک مرقع ہے اوراس کا ہر بیت لمعۃ نور اورہر مصرع بیت المعمور ہے۔ یہ ضعیفہ بھی کہ حضرت والاکے ساتھ اخلاص حقیقی اورارادت تحقیقی میں خود کو کسی سے کم تر نہیں جانتی، اس دیوان صداقت ترجمان کو شب وروز اپنے پیش نظر اور اس کے اشعار کو ہمیشہ ورد زبان رکھتی ہے۔ اوران معرفت سے بھرے ابیات کو پڑھنے سے بے شمار فائدے اوربے نہایت فیوض وبرکات اس ضعیفہ کو حاصل ہوئے ہیں۔ اس فدویہ کے عقیدہ وخیال کے مطابق نکتہ ہائے توحید کو ملاشاہ سے زیادہ بہتر انداز سے اس زمانے میں کسی نے پیش نہیں کیا۔

    میرے مرشد ومولا حضرت ملا شاہ نے زمانہ طفولیت سے لے کر اکیس برس تک موضع’’ارکسا‘‘ ہی میں زندگی بسر فرمائی ۔انیسویں عمر تک پہنچنے کے دوران حضرت سے خوارق عادت اوربڑی بڑی کرامتوں کا ظہور ہوا۔ وہاں کے رہنے والوں کو میرے مرشد روشن ضمیر کی خدمت میں کمال بندگی واعتقاد حاصل تھا۔

    بعدازاں اپنے حال کو چھپانے اورظاہری علوم کی تحصیل کے لئے حضرت نے بلخ کی طرف سفر اختیار کیااور اہل ارکسا کو حضرت کی جدائی اورمفارقت نے بہت ستایا۔ سرزمین بلخ حضرت کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے مشرف ہوئی اورآپ علوم ظاہری کے کسب واکتساب میں مشغول ہوئے۔ بہت تھوڑی سی مدت میں حضرت نے علوم ظاہری کو حاصل کرلیا اورمرتبۂ کمال کو پہنچ گئے۔

    چونکہ حقیقت الحقائق کی طلب کا ذوق اورمعرفت کی جستجو کا شوق حضرت کی طبیعت پر غالب تھا اس لئے بلخ میں زیادہ دنوں تک قیام نہ فرماسکے۔ اوراولاً سرزمین کشمیر کو اپنے مقدم فیض سے نورانی فرمایا۔ اس وقت تک حضرت کی عمر شریف (کہ اللہ آپ کو سلامت تاقیامت رکھے] پچیس برس ہوگئی تھی اورسرزمین کشمیر کے قیام کے دوران بھی تین سال تک حضرت والا نے خود کو طالب علمی کے لبادہ میں چھپائے رکھا چونکہ ابھی تک آپ کا دست طلب کسی پیر کامل کے دامن مراد تک نہ پہنچاتھا۔[جس کے تحت وہ خاص طریقہ کو اختیار کریں اورذکر حق میں مشغول ہوں] اس لئے کشمیر دل پذیر سے لاہور کا رخ کیا۔

    اس زمانہ میں شہر لاہور حضرت میاں جبو میاں میر قدس اللہ شریف کے وجود مسعود اور انوارِ لا محدود سے مشرف ومنور تھا جو صغیر وکبیر کے پیشوا اور جید عصر تھے۔

    سچ یہ ہے کہ میاں جبو [میاں میر] عارفوں کے شیخ طریقت، واصلوں کے رہنمائے کامل، دریائے حقیقت کی موج بیکراں، شریعت وطریقت کے آسمان روشن، کوہ عظمت و وقار، عارف نامدار، محقیقن کے سرخیل، اہل معرفت کے مقتدا، اولیائے کبارکے سلسلہ کے دریکتا، عالی قدر مشایخ کے لئے اسوۂ جمیل، اہل زمانہ کے ہادی، بے عدیل موحدوں کے امام، رموز توحید کے نکتہ شناس، حجاب واستاد کے پردہ کشاہ تھے۔

    جب میرے مرشد حضرت ملا شاہ، حضرت میاں جبو کے احوال ومرتبۂ کمال سے آگاہ ہوئے تو کمال شوق کے ساتھ حضرت کی خدمت میں (لاہور) حاضر ہوئے ۔میاں جبو مرشدی ملا شاہ کے صدق طلب اورجستجوئے حق کی سچی خواہش کو آزمانے کے لئے آپ کی طرف سے دانستہ تغافل فرماتے رہے اورایک سال تک حضرت کو اپنی خدمت بابرکت میں باز یابی عطا فرمانے سے گویا دانستہ اجتناب فرماتے رہے اور آپ کے حال پر توجہ فرمانہ ہوئے۔

    خود حضرت والا ملا شاہ نے[ کہ غلبہ ٔ شوق، وفور ذوق، وصال حق کی طلب اور حقیقت مطلق کی دریافت کے شدید جذبہ کے زیر اثر، اکثر خورد نوش سے بھی غافل رہتے تھے اور ہمہ وقت بحر شوق میں مستغرق اوربقائے ذات مطلق کے خیال میں محو رہتے تھے ] میاں جبو کی ملازمت کو کبھی ترک نہ فرمایا۔

    ایک سال اس طرح گذر گیا کہ حضرت میاں جبو سے جب حضرت والا کی طلب حق کو صادق اورآپ کو خدا جوئی کی خواہش میں ثابت قدم پایا تو عنایت و مہربانی کے گہرے جذبات، جو حضرت میاں جبو کے دل میں موجزن تھے ان کو ظاہر فرمایا اوراپنی صحبت میں بازیابی عطا کی اوراسی وقت مشغول بحق فرمایا۔

    چونکہ حضرت والا میں حق شناسی وحق دستی کی صلاحیت بدرجہ کمال تھی، جیسے ہی مشغول حق کئے گئے درجات عالیہ اورمراتب عُلیا تک رسائی میں دیر نہ لگی اورعالم ملکوت وعالم ارواح اورعالم مثال میں علوم باطنی کے ابواب حضرت ملا شاہ پر مکشوف ہوگئے۔ حضرت میاں جبو، میاں میر کی خصوصی توجہ کی بدولت میرے مرشد کے درجات عالی ساعت بلند سے بلند تر ہوتے رہے مختصر یہ کہ میرے حضرت انیس سال میاں میر کی صحبت میں گذار دیئے کہ سراسر اکسیر کا حکم رکھتی تھی اس طریقہ پر کہ جاڑوں کے موسم میں لاہورقیام فرماتے تھے اور اپنے مرشد و مولی کی خدمت میں رہ کر گوناگوں سعادتوں سے بہرہ مند ہوتے تھے اورگرمیوں کے موسم میں [چونکہ حضرت والا کا مزاج بہت گرم ہے ] حضرت میاں میرسے رخصت لے کر کشمیرجنت نظیر میں رونق افروز ہوتے تھے اورریاضت فائقہ اورمحنت شاقہ میں اپنے اوقات شریف بسر کرتے تھے۔

    حضرت کی ایک ریاضت یہ تھی کہ حضرت میاں جبو کی خدمت میں رہتے ہوئے انیس سال تک اورچند سال اس سے پہلے اورحضرت کی وفات کے بعد بھی ، کہ اس پر پانچ سال کا عرصہ بیت رہاہے،کبھی زمین پر پاؤں پھیلاکر نہیں سوئے لیکن آج کل زمین پر پہلوئے مبارک دراز فرماتے ہیں اورپہلو بدلتے بھی ہیں لیکن حضرت والا استراحت کے عالم میں بھی کبھی سوتے ہیں اوریہ کہا جاسکتاہے کہ آپ کی پلک نہیں جھپکتی۔ یہ بات حضرت نےخود اپنی زبان مبارک سے فرمائی ہے جو عالم خواب کی نفی کرتی ہے۔

    اپنے مریدوں کی طرف توجہ خاص فرماتے ہوئے حضرت نے کہا ہے:

    تاچند خروشیم کہ بیدار شوید

    بیدار شوید کہ دشمن دل خوابست

    کب تک بار بار شور کرتے ہوئے یہ کہاجائے کہ تم بیدار رہو۔جاگو اورجاگتے رہوکہ عالم خواب دلِ بیدار کا شمن ہے۔ حضرت والد شوریدہ دل ہوگئے ہیں اورآپ نے دنیائے فانی کی مسرتوں اورلذتوں سے بیگانگی اختیار کرلی ہے اورعنایت مجاہدہ ریاضت کے باعث جہات توحید کے مبدا تک رسائی حاصل کی ہے یہ جستجو ایک نورانی صبح کی طرح حضرت کے دید ودل پر چھاگئی ہے [کہ برکات الہٰی وفیوض نامتناہی سے عبارت ہے ] علم لدنی کے دروازے اورعالم ملکوت و جبروت و لاہوت کے پر اسرار پردے، حضرت کی نگاہوں سے ہٹ گئے اورتمام حقائق، آپ کے دل حق منزل، پرمنکشف ہوگئے۔ تمام حجابات اٹھ گئے اورمیرے مرشد اپنی مرادات عالیہ اورمطالب والا تک پہنچ گئے۔

    فرماتے ہیں کہ اس فتح باب وحصول مرا دات کی اس منزل، نیز اس سعادت عظمیٰ اوردولت کبریٰ تک رسائی، کسی غیر اورغیریت کے احسان کے بغیر ان روشن آیات الہٰی کے اقتضامجھے حاصل ہوئی۔

    ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم

    یہ اللہ پاک کا فضل ورحمت ہے وہ جسے چاہے رحمت فرمائے اوروہ بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔

    سچ یہ ہے کہ وصل ذات اورحصول معنی صفاکا یہ اندازہ، میرے حضرت سے مخصوص ہے اوران پر اللہ جلّ شانہ کی عنایات بے پایاں کا اظہارہے۔ حضرت کی ذات والا صفات کی تعریف کوئی کیسے کرستاہے۔جو کچھ کہ تحریر وتقریر میں سماتاہے یا حرف وصوت کے ملبوس میں جلوہ گر ہوتاہے یا عقل و اوہام جس کا احاطہ کرسکتے ہیں میرے مرشد و مولا حضرت ملا شاہ بدخشی کی صفات عالیہ ان سے بالا تر بلکہ مبرا و منزہ ہیں۔ حضرت والا اپنے دوستوں اوربااخلاص مریدوں کو اس طرح کی تجرید وتفریق کی دعوت نہیں دیتے اوران سے کبھی اتنی مشقت و ریاضت نہیں کراتے۔

    میرے اخوند کا منشائے دلی تو طبیعت کی یکسوئی ،خواہشات کی پیروی سے گر یز اورغیر حق سے ذہن و دل کی تجرید ہے اس لئے ایک حد تک بیداری شب کے لئے حکم فرماتے ہیں اورگاہ گاہ بطور کنایہ کہتے ہیں کہ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھیں ،مراقبے اور مجاہدہ میں شریک رہیں اوراس کا مقصد، کاہلوں اورغفلت کاروں کی تنبیہ و سرزنش ہے۔

    حضرت والا آج اسرار توحید کی تفہیم اورمراتب وحدت تک رسائی کے معاملہ میں روئے زمین کے توحید پرستوں اور رموز تجرید کے نکتہ دانوں میں بے مثل ویکتا ہیں اور آپ کو محققوں کا سربراہ اورموحدین کا امام کہاجاسکتاہے۔

    حضرت کی زبان صدق ترجمان اورآپ کا کلام سراپا الہام، تمام تر معنی توحید کا پردہ کشا ہوتاہے۔ اورجو نکتے آپ کی بات بات سے پیداہوتے ہیں، ان سے کیفیات تجرید کی نقش گہری ہوتی ہے اورحضرت والا یگانگی و قربت کے رشتے سے اتنی ہم آہنگی اورغیریت و دوئی کے احساس سے اس درجہ دوری رکھتے ہیں کہ عالم غیب سے ’’سبحانی ما اعظم شانی‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے ہیں۔ حضرت کی یہ دو رباعیاں ان معنی پر دلالت کرتی ہیں۔

    گر ذات وصفات، در برخ شخص کشاد

    شد خانۂ علم دل از اینہا آباد

    او سلطانیست کہ بایزیداست گداش

    مااعظم شانش، مبارکہا باد

    ذات وصفات نےاگر پنا دروازہ کسی شخص پر کھول دیا اوراس کا خانہ دل اس کے علم کی روشنیوں سے آباد ہوگیا تو بلا شبہ سلطان اوربایزید اس کے دروازے کا فقیر ہے اور ’’ما اعظم شانی‘‘ کا لقب اسے مبارک ہو۔

    رباعی

    انساں چو بود بستۂ تن حیواں است

    افتاد بعالم دل او انساں است

    افتاد بہ تن زعالم دل نشد

    ’’مااعظم شانی‘‘ بخشش رحماں است

    روح جب وابستۂ تن ہوتی ہے تو بمنزلہ حیواں ہوتی ہے اورجب دنیا سے اس نے اپنے ہوش و خرد کے ساتھ لو لگائی تو وہ گویا انسان کا قالب اختیار کرگئی اورجب اس مادی دنیا کی محبت سمٹ کر اپنے جان وتن سے وابستہ ہوئی تو دل اس کا مرکز عشق و عقیدت ہوگیا اوران مراحل تعلق وتعشق سے گذر کر جب احساس وجود ذات بحث اورصفات الٰہیہ آئینہ بن گیا تو سبحانی ما اعظم شانی کے مرتبہ تک پہنچ گیا اوراب اس کی بات سخن رحمان بن گئی۔

    حضرت والا اپنے صاحب اسرار دوستوں اوراخلاص شعار معتقدوں کے ماسوا کسی سے ہم صحبت نہیں ہوتے۔ اورمیرے مرشد کی محفل میں مشاغل قدسی اورحقیقت وجودیت کی باتوں کے ماسوا کوئی بات کسی کی زبان ولب پر نہیں آتی اورحضرت [ملا شاہ بدحشی] کی محبت کو اللہ پاک نے اثر و نفوذبخشا ہے کہ کوئی شخص کتناہی سنگ دل ہو حضرت کی نظر کیمیا اثر کی برکت اورنفس گرم کی تاثیرسے اس کے قلب میں نرمی و راستی پیدا ہوجاتی ہے۔

    حضرت کے روئے مبارک اورپر نور پیشانی پر نظرپڑتے ہی انشراح ظاہر و باطن اورحضوری خاطر میسر آجاتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرشد کے کلام صداقت نظام میں کچھ ایسی تاثیر و دل آویزی، ودیعت فرمائی ہے کہ اکثر شیعہ فرقہ کے افراد نے حضرت کے ساتھ گفتگو کی اور وہ محض آپ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے فرقہ کے عقائد سے تائب ہوکر مذہب اہل سنت و الجماعت کے پیرو ہوگئے۔

    بہت سے اہل کفر بھی آپ کی توجہات کی برکت و سعادت سے روشنی ا و رہنمائی حاصل کرکے اپنے مسلک کفر و کافری سے بیزار ہوکر اسلام کے دین مبین پر آگئے۔

    میرے حضرت کے نفس قدسی کو اللہ پاک نے معجزے کی سی خوبی بخشی ہے کہ وہ طالبان صادق میں سے جب کسی کو مشغول بحق فرماتے ہیں اور روز اول جب اس کو طریقۂ شغل کی تلقین کرتےہیں تو وہ شخص آپ کی توجہ کی برکت اورآپ کی صحبت کی سعادت سے کچھ اس طرح بہرہ ور ہوتاہے تو حضرت رسالت پناہ سرور کائنات فخر موجودات رسول مقبول کو اور آپ کے چاروں خلفائے راشدین کو اور اصحاب کرام(رضوان اللہ تعلیٰ علیھم اجمعین)کو، جو اس مجلس میں رونق فزا ہوتے ہیں،معائنہ ومشاہدہ کرتاہے اوروہ شخص اس مجلس پر تقدیس میں رہتے ہوئے حضرت رسالت پناہ سے ہم سخنی کے مرتبۂ خاص پر سرفراز ہوتاہے اوراپنے مطالب کو آپ کے حضور میں پیش کرتاہے اور آپ کے مقدس ومبارک لبوں سے اس کا جواب باصواب سنتاہے اور اسی طرح وہ اولیا اللہ سے ہم کلام ہوتاہے اوران کے ساتھ گفت وشنود میں حصہ لیتاہے اوران میں سے ایسے بھی ہیں جنہیں اس مراقبہ اول میں کشف عالم ملکوت حاصل ہوجاتاہے اوروہ اس محبت مقدس کی برکت سے عالم ملکوت کی سیر کرتاہے اور وہاں کے عجائبات (عالیہ) کی سیر کرتاہے۔

    آپ کےان یاران مقبول میں سے بعض وہ بھی ہوتے ہیں، جنہیں شعورذات اور تصور وحدت کچھ اس طرح میسر آتاہے کہ وہ حضرت کی توجہات کی برکت سے مشاہدہ ومعائنہ کرتاہے۔ ’’خیال غیر سے‘‘ پاک وصاف ہوجاتاہے اوراس پر مشاہدۂ جلوۂ حق سے ایک وجد وکیف کا عالم طاری ہوتاہے جس پر وہ رفتہ رفتہ قابو پاتاہے اوریہ شورش احوال کچھ کم ہوتی ہے حق سبحانہ تعالیٰ نے میرے مرشد کو وہ قوت مرحمت فرمائی ہے کہ اگر کوئی صدق وخلوص کے ساتھ یہ چاہتاہے کہ وہ خدا تک پہنچ جائے تو آپ کے نفس قدمی اثر کے بدولت وہ بہت جلد اپنی مراد کو پالیتاہے اس معنی کو آپ نےبہت سی رباعیات میں بیان کیاہے۔ ان میں سے چند رباعیات تیمناً و تبرکاً یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

    رباعی

    ہرکس کہ دروغ گفت اوراست گناہ

    گویم سخن راست، خدا ہست گواہ

    چوں ملا شاہ یافت، راہ درگاہ

    در واست، بروے مخلص ملا شاہ

    جس شخص نے جھوٹ بولا گناہ اس کی گردن پر ہے۔ میں تو خدا گواہ ہے کہ سچ بات کررہاہوں ۔جب ملا شاہ کو بارگاہ الہٰی تک پہنچنے کا راستہ مل گیا اب جو شخص بھی ملا شاہ کا مخلص ہوگا وہ اس راستے سے دروازہ حق تک پہنچ جائے گا۔

    رباعی

    تامدت بیست سال در جستجو

    دیدیم کہ ظاہراً بیا یمش او

    تحقیق شدایں در طلب خود بودیم

    معلوم شداین رمز کہ خود بودیم او

    بیس سال ہم نے اس کی تلاش و جستجو میں گذار دیے تو معلوم ہوا کہ ہم عالم ظاہر میں بھی اس کی خوشبو کو پاسکتے ہیں۔ ۔۔۔۔ یہ بات تحقیق ہے کہ ہم اس کی طلب میں نہیں خود اپنی تلاش میں تھے اوربالآخر یہ راز کھلا کہ ہم خود وہ ہی تو تھے جس کو ہم ڈھونڈ رہے تھے۔

    اندربتے آں نگار شوخ و سرمست

    بودم کہ شوم زلعل اومست الست

    ناگہ یکے بجانب خود دیدیم

    درسینۂ خود یافتمش دست بدست

    ہم اس معشعوق بے ہمتا اورنگارشوخ و سرمست کی جستجو میں مارے مارے پھرتے رہے اور اس تمنا میں رہے کہ اس کے لعل شکر کے بوسہ سے کبھی ہم بھی مست الست ہوجائیں ناگاہ ہماری نظر خود اپنے اوپرپڑی تو احساس ہوا کہ وہ تو ہمارے دل میں بیٹھا ہے اوراس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں ہے۔

    رباعی

    توحید ز اہل راز کر دی مارا

    در مسند عز وناز کردی مارا

    مارا بخشودی صفت استغنا

    شادباش چوں بے نیاز کردی مارا

    تونے اہل راز میں سے ہمیں انتخاب کیا اورعزت و ناز کی مسند پر جگہ دی،ہم کوبے نیازی کی صفت سے متصف کیا، اے خوشاکہ تونے ہمیں ’’استغنا ‘‘ کی دولت سے مالا مال کیا۔

    گر میل دلت معرفت اللہ است

    از خوبی معرفت دلت آگاہ است

    اے گرسنہ خوان گدایاں چہ خوری

    شیریں و چرب لقمہ پیش شاہ است

    اگر تیرا دل معرفت الہٰی کی طرف مائل ہے اور عرفان حق کی کشش سے تیرا دل حق منزل آشناہے۔ تو سمجھ لے کہ کوئی بھوکا گدا گروں کے دسترخوان پر بیٹھ کر کیا کھائے گا وہاں تو ہے ہی کچھ نہیں۔ اگر تجھے مرغن و شیریں لقمہ چاہئے تو وہ بادشاہ کے دسترخوان کی چیز ہے وہیں جاکر تجھے لذت کام دہن مسیر آئے گی۔

    رباعی

    آں کس کہ از روئے صدق دولت خواہ است

    او را بسوئے دولت راہ است

    دولت یعنی معرفت ذات مطلق

    ایں دولت، درخانۂ ملا شاہ است

    جو شخص کہ صدق و خلوص کے ساتھ تمنائے دولت رکھتاہے اس سے کہہ دو کہ در دولت کی طرف تو راستہ کھلا ہے۔ دولت در اصل معرفت ذات مطلق ہے اوریہ دولت بیدار ملا شاہ کے در دولت سے میسر آئی ہے۔

    رباعی

    آنکس کہ ز راہ معرفت آگاہ است

    ملا شاہ است کہ عارف ایں راہ است

    از تاثیر زبان او معلوم است

    کہ امروز ملقب، بلسان اللہ است

    جو شخص کہ راہ معرفت سے آگاہی رکھتاہے وہ ملا شاہ ہے کہ نشیب و فرازسے بخوبی واقف ہے۔ اس کی زبان کی تاثیر سے معلوم ہوتاہے کہ وہ آج ’’لسان اللہ‘‘کے لقب سے بجا طورپر ملقب ہے۔

    رباعی

    از حق بہ سما ء نزول اسما ءگردد

    اسمے در خور دکس مہیا گردد

    شاہم بامید و دولت شاہی داد

    تااسم موافق مسمے گردد

    سراپردۂ بارگاہ حق سے جب آسمانوں پرنزول اسما ہوتاہے اورجونام جس شخص کے مناسب ہوتاہے وہ اس کو دیا جاتاہے۔ اس وقت میرا نام بادشاہ رکھا گیا اورمجھے دولت شاہی عطاکی گئی تاکہ میرا نام میرے اسم کے ساتھ اسم بامسمی ہوجائے۔

    رباعی

    مارا بہ متاع دنیا و بہ عقبیٰ نیز

    بے سامانیم مفلس و بےہمہ چیز

    گفتن نہ توان دروع آرے داریم

    ساماں بحق رسانیدن یارعزیز

    ہمیں متاع دنیا و عقبیٰ کچھ بھی تو حاصل نہیں ، ہم بے سامان مفلس اوربے چیز ہیں لیکن اس پر یہ جھوٹ ہمیں کہ ہم اپنے یار عزیز کو حق تک پہنچانے کے لئے تمام ترسازو سامان رکھتے ہیں۔

    اے کردہ فراز رحمت و راحت را

    وے بردہ فرو ریاضت و محنت را

    شاہا کہ تو در چشم زدن بنمائی

    تا عرش وفرش و دوزخ و جنت را

    اے کہ تونے راحت و راحت کے درجہ کو بلند اورریاضت و محنت کوپست کردیاہے۔اے باد شاہ تو پلک جھپکنے میں عرش و فرش اوردوزخ و جنت کو دکھلادیتاہے۔

    شاہا شک نیست ز اہل عرفانی تو

    اندر توحید تو مرد مردانی تو

    یاران تو مرد مردا نندامروز

    ایں تحقیق ہست شاہ مردانی تو

    اے ملا شاہ، اس میں شک نہیں کہ تو اہل عرفان میں سے ہے اور رموز توحید کی عقدہ کشائی میں تو بے مثل ہے ۔آج اے ملا شاہ ترے دو میدان ہیں اوریہ بات تحقیق ہے کہ یہ سب اس لئے ہے کہ تو دو میدان ہے۔

    رباعی

    شاہا داری خانۂ دلہا آباد

    آباد ترا خانۂ آبادی باد

    زینساں کہ توئی بفتح دلہا استاد

    فتاح القلب ، با یدت نام نہاد

    اے ملا شاہ تو اپنی نگاہ معرفت آگاہ سے دلوں کی دنیا آباد رکھتاہے۔ اللہ پاک ترے دل عشق منزل کو بھی آباد رکھے۔ جس طرح تو دلوں کی گرہ کشائی میں درجہ ٔ استادی رکھتاہے اس کے اعتبار سے تو تیرا نام ’’فتاح القلب‘‘ رکھا جانا چاہئے۔

    از ظلمت رست ہر کہ روئے مہ دید

    روئے مہ دید اوہم روئے بے دید

    زاخلاص درست ہر کہ روئے شہ دید

    بر ہر طرفے کہ دید وجہ اللہ دید

    جس شخص نے ماہ تاباں کا رخ تاباں دیکھ لیا وہ اندھیروں سے چھٹکارا پاگیا اورجب چاند پر نظر پڑ گئی اورباقی چیزیں بے دیدہ رہ گئیں(کہ ان پر نظرداری کی ضرورت نہ رہی ) جس نے اخلاص درست کے ساتھ ملا شاہ کے چہرے کو دیکھ لیا اب جس طرف اس کی نظر گئی سوائے ’’وجہ اللہ‘‘ کے اسے کچھ نظر نہ آیا۔

    میرے حضرت ملا شاہ اپنے حال باکمال اورمرتبۂ جاہ و جلال کے مطابق بہت ہی دقیق اوربلند باتیں کہتے ہیں اورجس شخص کے مشام جاں میں فی الجملہ بوئے عرفاں پہنچ چکی ہے اورحقیقت کی چاشنی جس کے کام و دہن کو مسیر آگئی ہے وہ یہ جان سکتاہے کہ حضرت والا کیا فرماتے ہیں۔ جس ظاہر پرست و صورت بیں گروہ نے اپنے اعتقاد کے مطابق ان کے دیدۂ بصیرت سے انکار کو روا رکھا ہے وہ راہ حق سے غافل ہے ۔میرے حضرت نے اس جماعت کے حق میں فرمایا ہے۔

    آنہا کہ ندارند سر لطف بہ من

    در افعال من ہمہ دارند سخن

    قائل شریعت محمد ہستند

    لیکن بہ طریقت محمد دشمن

    جو لوگ مجھ سے لطف و مہربانی کا رشتہ نہیں رکھتے اورمیرے افعال و اعمال پر جو حرف گیری کرتے ہیں وہ شریعت محمد کے قائل ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ وہ طریقت محمدی کے دشمن ہیں۔

    حضرت ارشاد پناہ مرشدی ملا شاہ آج قطب زماں اورہمارے اپنے عہد کے غوث دوراں ہیں اور طالبان حق کے مسِ وجود کو کندن بنانے کے لئے اکسیر کا حکم رکھتے ہیں اورآج دنیا گویا ان کے وجود منفر دکے سہارے قائم ہے۔’’وہ سعادت مند کتنے خوش قسمت وارجمند ہیں کہ حضرت والا کے ارادت مندوں کے نورانی حلقہ میں شامل ہیں‘‘۔ ان ارادت مندوں نےآپ سے تعلق خاطر اوررشتۂ عقیدت کو اپنا حرزجاں بنا رکھا ہے اورآپ کے دامن کو اپنی ارادت مندی کے ہاتھوں سے تھامے ہوئے ہیں۔ اوردین و دنیا میں اپنا مقتدا اورپیشوا قرار دیاہے۔ مریدوں کی تربیت و پرداخت کا جو ملکہ حضرت کو بارگاہ قدسیت پناہ سے بخشا گیا ہے وہ برسوں قرنوں میں جاکر کہیں ملتاہے۔

    زہر کس ناید ایں استاد شاگردی، نہ ہر گوہر

    بدخشاں باشد، و ہر سنگ ریزہ، لعل رخشانش

    ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس طرح استاد سے اوراس درجہ پرشاگردی کا حق ادا کرے نہ ہر موتی بدخشاں سے آیا ہے اورنہ ہر سنگ ریزہ لعل رُمان کی شکل اختیار کرتاہے۔

    حضرت والا خود اپنی زبان مبارک سے فرماتے ہیں کہ میری کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اورنہ اللہ پاک نے مجھے کسی ایسی بیماری یا عارضہ میں مبتلا کیا کہ میں ادائیگی نماز سے قاصر رہوں ۔میں نے ہمیشہ وقت پر نماز ادا کی ہے اورآج تک یہی صورت ہے۔آپ اس بات کی طرف خصوصاً بہت توجہ فرمارہتے ہیں کہ نماز وقت پر ادا کی جائے اورباجماعت ادا کی جائے۔

    ملا محمد سعید کی موجودگی میں کسی دوسرے کو اقامت کے فرائض نہیں سوپنتے۔ [کہ وہ حضرت والا کےمریدان خاص اوریاران بااخلاص میں سے ہیں ] [اورصاحب ریاضت و مجاہدہ اوراہل حال ومقامات عالیہ ہیں ] اور جب ملا محمد سعید نہیں ہوتے تو خود اقامت فرماتے ہیں اورظاہر شریعت کی متابعت پربہت زور دیتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ شریعت میں ظاہر و باطن کا کوئی فرق و امتیاز نہیں۔

    بس ہر مسلمان اورسالک راہ حق کو چاہئے کہ وہ خود کو ظاہر شریعت سے آراستہ رکھے اوراپنے باطن کو شریعت کے باطن کے مطابق [ کہ وہ عین مطابق ہے ] ڈھالنے کی سعی کرے۔

    فرماتے ہیں کہ اکثر علما ئے ظاہر، کہ راہ معرفت اورطریق حقیقت کی بو، ان کے مشام جاں تک نہیں پہنچی ہے، ہم پر طعنہ زنی اورحرف گیری کرتے ہیں۔ حضرت ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم سے کوئی امر خلاف شریعت سرزد نہیں ہوا جسے مذہب کے منافی کہا جاسکے اوراگر ایسا ہے تو ہمیں بتلائیں تاکہ ہم بھی جان لیں کہ ہم فلا ں کام خلاف شرع کررہے ہیں یاکرتے رہے ہیں لیکن چونکہ یہ سب باتیں وہ از راہ گمان کرتے ہیں اس لئے وہ اپنے دعووں کے حق میں کوئی دلیل فراہم نہیں کرسکتے۔

    میرے حضرت کی سیرت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ اہل دنیا، خاص طورپر سلاطین و امرا، سے نذر ونیاز قبول نہیں کرتے اگر کبھی ایسا کرتے بھی ہیں تو ایک دو روپیہ سے زیادہ نہیں۔ آپ کے مخلصوں اورمریدوں میں سے ہر ایک آپ پر دل و جان نچھاور کرتاہے، مال ومتاع بھلا کیا چیز ہے؟ وہ لوگ جو بھی تھوڑی بہت فتوح یا نذرانہ لے کر آتے ہیں آپ اسے قبول فرمالیتے ہیں اور اسے دوسروں کی مدد و تعاون پر صرف کرتے ہیں۔

    آج کل آپ کی خدمت میں ایک یا دو شخص بطور خادم رہتے ہیں اوائل میں کوئی خادم باقاعدہ نہیں رہتاتھا، ہاں اہل ارادت حضرت کے احوال پر نظر رکھتے تھے اس دور میں حضرت بہت ہی خلوص دوست اورتنہائی پسند تھے اورتحریر و تقریر کا تصور حضرت کے ذہن و زندگی پر غالب تھا۔

    حضرت اکثر دو زانو پر بیٹھتے ہیں۔ گاہ گاہ حضرت کی نشست چار زانو اورکبھی کبھی تکیہ کے سہارے سے بھی ہوتی ہے اورکبھی پاؤں پھیلا لیتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ چاندنی رات میں نشست رہتی ہے اورکبھی تاریک گوشہ کو پسند فرماتے ہیں۔

    جب کوئی شخص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتاہے تو دریافت احوال کے لئے اس سے دو تین باتیں پوچھتے ہیں۔ تمہارا نام کیاہے، تم کہاں سے آرہے ہو۔ اس کے بعد دست مبارک فاتحہ کے لئے اٹھاتے ہیں اور اس شخص کو رخصت فرمادیتے ہیں لیکن حضرت کے مخلص دوستوں اورارادت مند ساتھیوں کی جو جماعت آپ کی خدمت میں رہتی ہے اس کی بات الگ ہے۔ وہ صبح و شام خدمت سراپا سعادت میں حاضر رہ کر کسب فیوض و برکات کرتے ہیں اورگویا ہمہ وقت دیدارفیض آثار سے نوازے جاتے ہیں۔

    آپ کے احوال شریفہ کے باے میں یہ بات خصوصیت سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ کی زندگی دوام حضوری اورمشاہدۂ ذات مطلق کی محویت سے عبارت ہے ۔آپ کا کھانا، پینا، بیٹھنا، اٹھنا غرض کوئی عمل بھی اس سے خالی نہیں۔ اس لئے ہمیشہ خوش وقت شگفتہ خاطر اورتبسم بہ لب رہتے ہیں اورطبیعت کی بدمزگی اوربے کیفی آپ کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ فرط انبساط میں آپ قہقہہ لگالیتے ہیں اورگاہ گاہ حضرت ’’مزاح المومین‘‘ کے طورپر کچھ باتیں کرلیتے ہیں۔ چونکہ حضرت والا کو دوام مشاہدہ کی سعادت بھی میسر ہے اس لئے لطف و ظرافت کی باتیں بھی توحید اورنکتہ ہائے معرفت سے خالی نہیں ہوتیں۔

    آپ ہمیشہ بیدار رہتے ہیں اور جب گویہ دید ودید کا سلسلہ آنکھوں سے اوجھل ہوتاہے تب بھی کسل وکاہلی یا نیند کا غلبہ کہ لازمہ بشریت ہے آپ کی روشن آنکھوں اور پرنور پیشانی سےظاہر نہیں ہوتا۔

    حضرت کے وضو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اکثراپنے دست مبارک سے پانی ڈالتے اوروضو فرماتے ہیں اور ایسا بہت کم ہوتاہے کہ کوئی خادم آپ کو وضو کرائے۔ حضرت والا کالباس یہ ہے کہ آپ خرقہ نہیں پہنتے،جامہ زیب تن فرماتے ہیں اور اہل ولایت کی روش کے مطابق پھیٹے دار پگڑی باندھتے ہیں،دستار ہمیشہ سفید ہوتی ہے اوراس کے پیچھے ’’طافی‘‘ رکھتے ہیں۔ رنگین کپڑے کی دستار پسند نہیں فرماتے۔ کبھی گول طافی گرمیٔ ہوا کے لئے سرپر رکھتے ہیں اورکبھی طافی کے گرد سرپیچ باندھتے ہیں۔

    کپڑوں میں کوئی خاص اہتمام نہیں برتتے کم قیمت و بیش قیمت جیسا بھی کپڑا مل جاتاہے پہن لیتے ہیں۔ اکثر برمہ کا جامہ پہنتے ہیں کہ کشمیر کی ہوا بہت ٹھنڈ ہوتی ہے۔

    کھانے کی قسم کی کوئی شے آپ کی منزل گاہ میں نہیں پکتی۔ مریدان بااخلاص اور یاران ذوی الاختصاص میں جو شخص بھی (حصول سعادت کے لئے) اپنے گھر سے جو کھانا لے آتاہے آپ اسے رغبت کے ساتھ تناول فرمالیتے ہیں۔ حضرت کے ارادت مندوں اورمعتقدوں میں سے کوئی شخص اگر از راہ اخلاص دعوت آش دیتاہے تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مقدس پر عمل کرتے ہوئے اسے قبول فرماتے اوراس کے گھر تشریف لے جاتے اور جو ماحضر وہ پیش کرتاہے اسے نوش جان فرماتے ہیں۔

    اورکبھی ایسے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک وقت کھانا کھاتے ہیں بھی دو وقت، طعام لذیذ ہو یا غیر لذیذ اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ۔کبھی سیر تماشے کیلئے صحرا کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ اگر اس سیر دسشت وصحرا کے مابین کھانے کے لئے کوئی چیز میسر نہیں آتی تو بے طعام رہتے ہیں۔ چونکہ آپ کی طبیعت میں گرمی بہت ہے اس لئے ہمیشہ ٹھنڈی چیزیں زیادہ کھاتے ہیں۔

    چونکہ کشمیر دل پذیرکے اطراف وجوانب کا علاقہ بہت ہی سرسبز وخوش ہواہے اورظرافت ولطافت میں اپنی نظیر آپ ہے اس لئے حضرت والا اس دل آویز خطہ کی دید، شاداب وادیوں کی سیر اوران وادیوں میں گذرتی جوئباروں اور نہروں کے تماشے کے لئے جب نکلتے ہیں [ کہ یہ اللہ پاک کی بہترین کاری گری وصنعت کی سیر ہے ] اطراف شہر میں بھی تشریف لےجاتے ہیں اورچند روز شہر سے باہر رہ کر پھر اپنے مبارک قدموں اور وجود مسعود سے شہر اوراہل شہر کو عزت بخشتے ہیں۔کبھی گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور اکثر بے تکلفی کے ساتھ پیادہ سیر و سفر کے لئے نکل جاتے ہیں ۔اس ملک کی سواری تو کشتی ہے اس لئے آپ گاہ گاہ کشی میں بیٹھ کر بھی سفر کرتے ہیں۔

    میرے مرشد حضرت ملا شاہ کے خوارق عادات بے شمار ہیں اوران کو گنا نہیں جاسکتا ۔اگر کوئی شخص ان میں سے کچھ کو بھی لکھنے بیٹھے تو کتاب تیار ہوجائے چونکہ حضرت کو ان کا اظہار فرمانا اچھا نہیں لگتا اس لئے انہیں لکھنے سے منع فرماتے ہیں ۔حضرت کی سہل ترین کرامت یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے طالب کے باطن میں ہوتاہے آپ ایک نظر میں اسے ظاہر فرمادیتے ہیں۔

    حضرت کی یہ رباعی اس پر دلالت کرتی ہے۔

    رباعی

    چوں لاف موحدی زنی در ہرگو

    باطن، ظاہر ساز، زکس ہرزہ مگو

    در عالم دل ’’کن فیکون‘‘ پیداکن

    وحدت داری کن فیکون مگو‘‘

    تو جب توحید پرستی کا دعویٰ کرتاہے اور اسی ایک نکتہ پر تونے ارتکاز اخیتار کیا تو گیند کی طرح لڑھکتے پھرنے سے کیا فائدہ۔ جو باطن ہے اس کو ظاہر کرنا باقی ہر آدمی سے ادھر ادھر کی بات، ہرزہ گوئی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ عالم دل میں کن فیکون کی صورت پیداکر، جب تجھے رمز وحدت کی شناسائی مل گئی تو اب ’’کن فیکون‘‘ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

    میرے مرشد حضرت ملا شاہ کار مسیحائی کرتے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو کبھی کبھی مردوں کو زندہ کرتے تھے آپ ہیں کہ مردہ دلوں کو ہمیشہ کے لئے زندگی بخشتے ہیں ۔ غفلت،آدمی کے لئے موت سے بد تر ہے اورحضرت کے انفاس مقدس کی برکت سے غفلت طالبان کمال کے دل سے ہمیشہ کے لئے زایل ہوگئی۔زندگی اسی بات کا اظہار اوراسی حقیقت کی روشن علامت ہی تو ہے ۔

    میرے مرشد حضرت ملاشاہ بدحشی کو اللہ پاک نے یہ قدرت و قوت بھی ودیعت فرمائی ہے کہ وہ اگر چاہیں، تو اس حدیث نبوی ؐ کے بموجب کہ میری امت کے علما انبیائے بنی اسرائیل کی طرح ہیں‘‘ [ علمأ ءامتی کانبیائے بنی اسرائیل] مردۂ ظاہری کو زندہ فرمادیں لیکن آپ کرامات کی طرف توجہ فرمانہیں ہوتے بلکہ اس کے درپے رہتے ہیں کہ اپنی کرامات اورخارق عادات کو دنیا سے چھپائے رکھیں، اورکبھی کبھی تو یہ مصرع بے اختیار آپ کی زبان صدق ترجمان پر آتاہے:

    کشف را، کفش سازوبرسرزن

    کشف کو کفش جوتا بنالے اوراپنے نفس کے سر پر مار

    اور تقریباً بیس سال ہوگئے کہ حضرت والا نے (اللہ پاک آپ کو سلامت باکرامت رکھے ) شہر کشمیر (سری نگر) کو اپنا وطن بنا لیا ہے اوراس طرح وہ سرزمین حضرت کے قدوم لزوم کی برکت سے رشک آسمان بنی ہوئی ہے ۔آپ نےیہ رباعی اپنے قیام کشمیر سے متعلق فرمائی ہے۔

    رباعی

    افتاد بگوشۂ عالم عالم گیرم

    واں گوشہ ٔ بکشمیر بود تعمیرم

    شمعے بدرون کوزہ روشن شد

    ماہی بدرون چاہ شد دلگیرم

    میں نے یہ خواب دیکھاتھا کہ ایک گوشہ میں پڑا ہوں اوردنیا جہاں میرے تصرف میں ہے ۔ وہ گوشہ، شہر کشمیر ہے جو میرے اس خواب کی تعمیر بن گیا۔ میری مثال اس شمع کی سی ہے جسے کسی کوزہ میں روشن کردیاگیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ میں وہ مچھلی ہوں کہ وہ پانی میں تو ہے لیکن دجلہ و دریا میں نہیں کنویں میں ہے۔

    الحق کہ حضرت والا اب سوائے کشمیر کے کہ وہ ایک گوشہ ٔ ولایت ہے کہیں ادھر نہیں جاتے اوروہیں رونق افروز رہتے ہیں۔ اوروہیں سے ایک عالم ان سے فیض اٹھاتاہے اورحضرت کے سلسلہ سے وابستہ اہل ارادت [ اللہ پاک آپ کوسلامت وزندہ رکھے] آپ کی نظر کیمیا اثر کی بدولت صاحبان کمال اوراہل مرادات بن گئے ہیں۔ لیکن آج حضرت کے مریدوں اورمخلصوں میں سے ملا محمد سعید اپنے ہم چشموں میں سب سے ممتاز اورسربرآوردہ ہیں ۔ان کی اصل بھی روشتاق، علاقہ بدحشان سے ہے اورحضرت والا سے نسبت خویشی بھی رکھتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں رہ کر انہوں نے علوم ظاہری و باطنی کا خزانہ جمع کرلیا ہے اورصاحب مقامات و مراتب عالیہ بن گئے ہیں اورحضرت والا آپ کے حال پر توجہ فرماتے ہیں۔اگر ملا محمد سعید حاضر ہوتے ہیں تو کسی دوسرے کو کارامامت سپرد نہیں فرماتے ۔ ملا صاحب کا بہت ادب کرتے ہیں چونکہ حضرت کی رہائش گاہ ملا محمد سعید کے مکان کے قریب ہے تو اکثر اپنی تشریف آوری سے ان کی عزت بڑھاتے ہیں اور ان کے بیٹوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہیں اوربہت لطف ومہربانی سے پیش آتے ہیں۔

    حضرت والا کے صاحب نسبت مریدوں میں دوسرے ملا مسکین ہیں۔ وہ بھی ملک بدحشاں کے رہنے والے ہیں۔ صاحب ریاضت و اہل مجاہدہ اوراہل حال ومقامات جلیلہ سے ہیں اوراپنے مریدوں میں سے حضرت والا حق کو ابتداً تلقین و ارشاد کی منزل سے گذارتے ہیں۔ انہیں ملا سعید اورملا مسکین ہی کے سپرد کرتے ہیں کہ انہیں مشغول کریں۔ (یعنی توجہ فرمائیں اورذکر و شغل کی تلقین کریں)

    ملا مسکین بھی علوم ظاہری سے حصۂ وافر رکھتے ہیں اورعلوم باطنی کو حضرت کی خدمت کی برکت اورشرف ملازمت کے باعث انہوں نے بڑے پیمانہ پر اکتساب کیا ہے۔اوایل حال میں یہ سپاہی تھے جب طلب راہ حق اور خدا جوئی کا خیال ان پر غالب آگیا تو سپاہ گری کو ترک کیا ۔ دس سال تک وہ اسی جستجومیں رہے اورکئی مرتبہ اس خیال سے حضرت غفران پناہ، پیر دستگیر، میاں میر قدس سرہ کی خدمت اقدس میں بھی پہنچے ۔مرید کرنے اور مشغول فرمانے کی درخواست کی ۔ملا مسکین کی طرف سے اس التماس نے شرف قبولیت حاصل نہیں کیا تب آپ اُدھر سے مایوس ہوکر میرے اخوند حضرت ملا شاہ کی خدمت میں آئے ۔

    حضرت والا نے شروع میں اس خواہش کو رد کیا یہاں تک کہ جب آخری بار حضرت کی خدمت میں باز یاب ہوئے اور حضرت والا نے ان کو طلب و ارادت میں پوری طرح راسخ و واثق پایا،راست نہاد اور ثابت قدم دیکھا تو از راہ عنایت قبول کرتے ہوئے ان کو اپنا مرید کیا اور ’’مشغول‘‘ فرمایا ۔چنانچہ بہت تھوڑی سی مدت میں ملا مسکین عارف کامل بن گئے۔ آج کل کشمیر میں قیام ہے اور شب و روز آستان سعادت حاضر رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کر م بے عنایت سےامیدوار ہوں کہ مجھے بھی یہ دولت ارزانی فرمائی جائے گی۔ اب اس کے ماسو اکوئی خیال اورخواہش میرے دل میں خطورنہیں کرتی ۔

    میرے مرشد حضرت ملا شاہ بدحشی کے دوسرے سعادت مند مریدوں میں ملا محمد حلیم ہیں کہ ان کو آپ نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے اور فرزندی کے اس خطاب سے دین و دنیا میں سربلندی بخشی۔

    محمد حلیم کا نام گل بیگ ہے ۔وہ بھی والایت بدحشاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت والا دوسرے اہل ارادت کی بہ نسبت محمد حلیم کے ساتھ زیادہ مہر بانی و عنایت فرمائی سے پیش آتے ہیں اورتوجہ باطنی اوراعتقاد دلی بھی ان کی طرف کچھ زیادہ ہے۔آپ نےان کو مشغول کیا ہے اور حضرت کے اپنے طریق میں جو مجاہدات اورریاضتیں آئی ہیں محمد حلیم نے وہ سب کی ہیں اور اس کا سلسلسہ جاری ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ صاحب حالات و مقامات ہوگئے ہیں۔

    حضرت والا محمد حلیم کی بہت تعریف فرماتے ہیں اور وہ آپ کی خدمت سراپا سعادت میں مثل اپنے بزرگ باپ کے، دوسروں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ حضرت والا نے ان کو نوکری کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے اس لئے وہ جوان سپاہی پیشہ ہیں۔

    دوسرے مریدوں میں ملا محمد امین کشمیری، ملا عبدالغنی کشمیری و ملا حبیب اللہ [ کہ وہ سب صاحب علوم ظاہری و باطنی ہیں ] اور حضرت ملا شاہ (صاحب ) نے اس گروہ حق پردہ کے حق میں یہ رباعی فرمائی ہے۔

    رباعی

    اے تافتہ بر روئے تو نورے ز الہٰ

    زاں نور، بروئے ہمہ بکشائی راہ

    یاران تو اولیائے و قتند ہمہ‘‘

    نازم بتوشاہ اولیا، ملا شاہ

    اے کہ ترے چہرے پر انوار الہٰیہ کا پر تو موجود ہے اس نور سے تو دوسروں کو منور و بہرہ ور کر۔ ترے دوست تو سبھی اپنے وقت کے اولیا ہیں اے ملا شاہ تو شاہ اولیا اللہ ہے، میں تجھ پر فخر و ناز کرتاہوں۔

    ان کے ماسوا بھی بہت ہیں کہ حالات عالیہ اورمقامات عالیہ پر فائز ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے مرشد کی خدمت و ملازمت کو سرتا سر موجب برکت و سعادت گردانا ہے۔ ایسے اوقات شریف میں داخل اورجملۂ لوازمات تصور کیا ہے اوراسی وسیلے سے انہوں نے سعادت دارین و مرادات بھی حاصل کی ہیں۔

    ان میں سے ہر ایک سے حالات کی تحریر و نگارش پر اگر توجہ دوں تو یہ رسالہ جس کا اختصار اس ضعیفہ کے پیش نہاد خاطر ہے طویل کھینچے گا اور دفتر دفتر ہو جائے گا اس لئے اسی مختصر بیان پر اکتفا کیا۔

    ( ب )

    اس ضعیفہ کا ذکر احوال

    میں نے حضرت مرشد، والا جاہ ولایت پناہ برگزیدہ الہٰ، دلیل راہ ہدا حضرت ملا شاہ کے حالات کو (جو سعادتوں اورنیکیوں سے بھرے ہوئے ہیں) مختصر بیان کردیا ہے۔

    اب مجھ ضعیفہ کی یہ خواہش ہے کہ اپنے بھی کچھ حالات لکھوں اور اس میں اپنے مرید ہونے ،دنیاوی خواہشات اورترغیبات سے اجتناب برتنے، حضرت سے ارادت و اعتقاد پیدا کرنے سے لے کر اس رسالہ کی تحریر تک جو وقوعات پیش آئے ہیں ان کو بیان کروں۔اگر چہ یہ بات آئین ادب سے دور ہے کہ جہاں میں حضرت والا کے حالات قلمبند کروں وہیں اپنے احوال کو بھی زبان قلم پر لاؤں لیکن چونکہ حضرت کے مریدوں کے حالات بھی تحریر میں آئے ہیں اس لئے میں اسے وجہ سعادت اوراپنے لئے باعث برکت خیال کرتی ہوں کہ ان سطور میں میرا بھی کچھ ذکر آجائے۔

    معلوم ہو، کہ اس ضعیفہ کی عمر بیس سال تھی جب سے وہ سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں سچی ارادت اورپکی عقیدت رکھتی ہے،اور حضرت خواجگان چشت (قُدّسِ اسرار ) بالخصوص پیر دستگیر، قطب الاولیا، سید الاتقیا، قدوۃ العارفین، زبدۃ الواصلین، شیخ المحققین، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی عقیدت کا روشن حلقہ اس فقیرہ نے اپنے گوش جاں میں پہن رکھا ہے اب سے چند سال پہلے کی بات ہے جب یہ ضعیفہ حضرت کے روضہ مبارک کی زیارت کے لئے اجمیر شریف حاضر ہوئی تھی اس کے بعد سے حضرت معین الحق والدین کے ساتھ بندگی و اخلاص کا رشتہ دن بہ دن زیادہ مضبوط ہوتاگیا اورآپ سے دلی وابستگی بڑھتی رہی۔ اللہ جل شانہ نے محض اپنے لطف و کرم سے اس فقیرہ بے بضاعت کے دل میں راہ حق کے لئے طلب اورذوق و جستجو کی یہ حالت پیدا کی یہاں تک کہ سنہ ایک ہزارو چہل ونہم ہجری میں ، اپنے والد بزرگ گوار، اعلیٰ حضرت ظل سبحانی، صاحب قران ثانی کے ساتھ (اللہ پاک ان کے ملک و سلطنت کو ہمیشہ باقی رکھے) میں ممالک معروسۂ پنجاب (لاہور) آئی اللہ پاک سے حضرت ظل سبحانی کو طاعت و حق شناسی و دین پناہی کی توفیق اپنے بزرگوں سے زیادہ بخشی ہے کہ آپ کے والد (جہانگیر) اور آپ کے داد ا (اکبر) اس سعادت سے محروم رہے۔ حضرت جہاں پناہ کو اس طرح توفیق ایزدی نے خدمت اسلام اورترویج دین محمدی کے مقدس کام کی انجام دہی کے لئے انتخاب فرمایا۔ (یہ اللہ پاک کی بڑی عنایات اوربخشایشوں میں سے ہے )

    مجھے اپنے بھائی شہزادہ محمد دارا شکوہ سے بے حد محبت تعلق خاطر اور اخلاص دلی ہے جو ظل الہٰی کے فرزند ارجمند، سلطنت کے بڑے بیٹے، مملکت ہندوستان کے ولی عہد اوردولت ظاہر و باطن کے وارث ہیں، حق پژوہ و بے اندوہ اور صاحب برکت اورسعادت ہیں سلسلۂ قادریہ سے منسلک ہیں۔ اللہ پاک ان کے جلال و شکوہ کو سلامت رکھے اوران کی امیدوں کو برلائے۔ (آمین)

    مجھے اپنے اس برادر والانژاد سے کمال یگانگت، صوری ومعنوی یکجہتی، دینی و دنیوی اتحاد کی دولت حاصل ہے جو میرے لئے موجب طمانیت و مسرت ہے اورشروع ہی سے ان کے اورمیرے مابین، یہ صورت رہی ہے۔ ہم دونوں دراصل ایک روح ہیں جس کو دو الگ الگ قالبوں میں پھونکا گیا ہے اورایک جان ہیں ، جنہیں دو جدا جدا دو جسموں میں رکھا گیاہےکہ میرے یہ بھائی عارف کامل ہیں رموز توحید سے کلی طورپر آگاہ اور روحانی حقایق سے بہرۂ وافر رکھتے ہیں) مجھ ضعیفہ کو بھی ہمیشہ سخنان حق ترجمان سے آگاہ کرتے، اولیاءاللہ اورمشایخ طریقت کے ذکر اوراذکار سناتے، ان کے حالات و مقامات کا تذکرہ کرتے اوران کے کرشمہ و کرامات اورخوارق عادات کو بیان فرماتے اورمجھے حق جوئی و حق شناسی کی سچی راہ کی طرف بلاتے اوران سعادتوں اوربرکتوں کے حصول کی ترغیب دلاتے رہتے تھے یہاں تک کہ سال مذکورہ میں حضرت ظل سبحانی خلیفۃ الرحمانی برادر موصوف کو ایک لشکر عظیم کی سربراہی عنایت فرماکر کابل کی طرف روانہ فرمایا اورکچھ وقت کے لئے اپنے اوراس قرۃ العین خلافت کے مابین مفارقت ظاہری کو ضروری خیال کیا۔

    مجھ ضعیفہ اورمیرے اس برادر مہربان اورواخلاص نشان کے درمیان بھی جدائی واقع ہوئی اور جب ہم ایک دوسرے سے رخصت ہورہے تھے توگریہ و زاری سے میری بری حالت تھی اورمیں بہت ہی بیتاب و بے قرار ہوری تھی اورمیرے اس برادر عالی قدر پر بھی ایک گونہ گریۂ بے اختیار طاری تھا ۔بہر حال ہم گریہ کناں ایک دوسرے سے جدا ہوئے ۔میں بہت دل تنگ و شکستہ خاطر ہورہی تھی۔

    آں دل نماند کش سر بُستان وباغ بود

    گویی ہمیشہ سوختہ درد وداغ بود

    اب وہ دل کہاں رہا جس کو سیر باغ و چمن کی ہوس تھی وہ تو آتش فراق سے جل کر حرف دردو داغ رہ گیاتھا۔

    اس وقت کے بعد میں ہمیشہ اپنا زیادہ وقت نماز ،روزے، تلاوت قرآنِ پاک اور وظائف و دعا میں گذارنے لگی۔ وقت و داع میرے برادر والا قدر نے نفحات الانس کے مطالعہ کی طرف مجھے خصوصیت سے توجہ دلائی تھی۔ میں نے شہزادہ والا تبار کے مشورہ کے مطابق کتاب مذکور کو مصاحبِ دل اورحرزِ جان بناکر رکھا۔ میں ہمیشہ اُسے اپنے مطالعہ میں رکھتی اورکبھی کبھی تو اپنی آنکھوں سے لگاتی اورکسی وقت اپنے سے جدا نہ کرتی۔

    یہ کتاب اولیا ئےکبار اورصوفیا ئے نامدار کے (سعادتوں سے بھرے ہوئے ) حالات پر مشتمل ہے۔ ان بزرگوں کے اسماو اذکار کی برکت سے جو دین کے پیشوا تھے، مجھے بہت کچھ فیوض روحانی حاصل ہوتے اسی اثنا میں حضرت جہاں پناہ بھی کابل کی طرف توجہ فرماہوئے۔ برادر والا قدر کے مکتوبات ملتےاور سفر و حضر میں موصول ہوتے رہتے تھے۔

    میرے اس برادر والا گوہر نے راستہ میں، دو بزرگوں کی خاص طورپر زیارت کی تھی اوراس کی حقیقت مجھے خطوں میں لکھ کر بھیجی تھی کہ میں ان کے احوال سعادت اقبال سے آگاہ ہو جاؤں۔ان میں سے ایک شاہ دولہ ہیں جو قصبہ گجرات خرد، میں تشریف رکھتے ہیں، دوسرے حاجی عبداللہ جو تال جلال گگھرکے آس پاس گوشہ گیری اختیار کیے ہوئے ہیں۔جب میں گجرات پہنچی، میں نے اپنے خواجہ سرا کو نذر ونیاز کے ساتھ شیخ دولہ کی خدمت میں روانہ کیااور اظہار اخلاص کرتے ہوئے فیض و برکت کے لئے استدعا کی (کہ وہ حضرت شاہ دولہ کی ذات بابرکات سے مجھے حاصل ہو) لیکن جو میری خواہش تھی وہ پوری نہ ہوئی اورمجھے ان کی بارگہ سے کچھ نہیں ملا۔

    اس کے بعد جب تال جلال گگھڑ کی حوالی میں گذر ہوا تو میں نے مذکورہ طریقہ پر حاجی عبداللہ کے پاس بھی اپنے خواجہ سرا کو تحفے تحائف کے ساتھ بھیجا اوران سے بھی فیض بخشی کے لئے التماس کیا۔ حضرت حاجی صاحب نے میری جانب سے پیش کئے جانے والے نذرانہ کو قبول کیا اوراس کے جواب میں مجھے ایک تسبیح بھیجی اورایک رسمی ذکر کے لئے فرمایا کہ میں اُسے بطور شغل اختیار کروں۔

    اسی کے ساتھ ایک جانماز بھی مرحمت فرمائی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سی کر تیار کی تھی اوراسی کسب حلال سے وہ بسر اوقات کرتے تھے۔ ان در ویشانہ تحائف کے ساتھ دو نان بھی تھے جو میرے لئے بھیجے گئے تھے۔ میں نے ان دونو ں روٹیوں میں سے ایک روٹی کو توڑا اوراس میں سے چھوٹا سا ٹکڑا لے کر کھا یا۔ جیسے ہی میں نے ذرا سا ٹکڑا کھایا میں نے اپنی صفائی، روشنی، دل جمعی حضوری اورطمانیت خاطر کا اثر محسوس کیا میں نے تین روز تک ان روٹیوں کو اپنے پاس رکھا اوراپنی خادماؤں میں سے بھی اکثر کو اس میں سے دیا ۔ کہا جاتاہے کہ تیس سال ہوگئے حاجی عبداللہ نے اپنی رہائش گاہ سے قدم باہر نہیں نکالا۔

    غرض کے چند منزلیں طے کرنے کےبعد حسن ابدال میں ، کہ ایک بہت ہی پرفضا مقام ہے برادر عالی والا گوہر سعادت مند دین و دنیا شہزادہ محمد دارا شکوہ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کی محبت و ملاقات سے بہت کچھ فیض پایا اوربرکت حاصل کی ۔ان برادر نے مجھے کچھ ایسے تذکرے پڑھنے کا مشورہ دیا جو بزرگان دین اورمشایخ طریقت کے احوال و اذکار پر مشتمل ہے۔

    میرا زیادہ تر وقت انہیں کتابوں کے مطالعے میں صرف ہوتاتھا۔ یہ اللہ کا فضل تھا کہ میرے دل میں طلب حق کا جذبہ پیدا ہوا اورمیرا دل دنیا اوردنیا کے بے فائدہ کاموں کی طرف سے سرد ہونا شروع ہوگیا اورمیں اپنے دل میں کہتی تھی کہ خدا تعالیٰ سمیع وبصیر (سننے والا اور دیکھنے والا ہے) اورعلیم و خبیر ہے اوربندہ جو کچھ نیک و بد کہتاہے وہ سنتا ہے اور جو کچھ اچھا برا عمل اس سے سرزد ہوتاہے وہ اُسے دیکھتاہے ۔ہمیں منہیات اور غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا اورجو عمر اس طرح فضول اوربے کار باتوں میں گذر گئی اس پر افسوس کرنا چاہئے۔

    انہیں ایّام میں کہ میرا عہد شباب تھا میں روز روز اپنے اعضا و جوارح کی قدرت وقوت میں کمی ہوتی ہوئی محسوس کرتی تھی اورمیں یہ بات جانتی تھی کہ میرے حواس ظاہری ، معرض زوال میں ہیں۔ جب میں نے جان لیا کہ اس مادی وجود کے لئے فنا لازمی ہے اورزندگی درد وغم کے سوا کچھ نہیں پس میں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دل میں دہرایا۔

    ’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘ اپنی موت سے پہلے مرجاؤ۔

    اورکہا کہ میں ایسی صورت میں، اپنے وجود کو ہستی فانی قرار دے کر، اپنے دل کو اس ذاتِ مقدس سے کیوں نہ لگاؤں، جو باقی اوردائمی ہے۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں ٹھان لی اوران نمازوں کو دہرانا شروع کیا جو زندگی میں مجھ سے قضا ہوئی تھی اوربعض اوقات میں ان روزوں کو بھی ادا کرنا اور دوبارہ رکھنا چاہتی تھی جو میں کسی وجہ سے رکھ نہیں پائی تھی۔ اب میں زیادہ تر وقت ذکر و شغل، اوراحوال مشایخ کے مطالعہ میں صرف کرتی تھی اوراس طرح سفر کابل کی راہ ِ منزل بہ منزل طے ہورہی تھی۔

    میرے والد بزرگوار اوربرادر کامگار اس عظیم لشکر کی آسودگی کے خیال سے پیچھے چھوڑتے ہوئے جو آپ کے ہمراہ تھا، آگے بڑھ گئے۔ جب ہم کابل پہنچ گئے اوربرادر والا قدر بھی ایک قلیل مدت کے بعد ہمارے ساتھ آگئے تو کثرت افواج کے سبب شہر کابل میں قحط کے آثار پیدا ہوگئے۔ مجبوراً اس مہم اوراس مملکت کی تسخیر کا خیال ترک کردیا گیا جو اعلیٰ حضرت کے پیش نہاد خاطر تھا اورجس کی سربراہی برادر والا قدر کو سونپی گئی تھی اورلشکر ظفر اثر نے کابل کی طرف رُخ کیا تھا۔

    اس عطیہ غیب کی ظہور پذیری سے مجھے جس قدر مسرت و شادمانی حاصل ہوئی میں اسے بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے بارگاہ ایزدی میں ہزار دو ہزار سجدہ ہائے شکر ادا کئے اور جس بات کے لئے میں خدا سے دعا مانگتی تھی وہ مجھے اپنے برادر کامگار کی تھوڑے دنوں کی جدائی کے بعد مسیر آگئی۔

    اب اکثر میں اپنے اس برادر والا نژاد کے ساتھ بیٹھی رہتی اور ہم لوگ باہم حق شناسی وخدا جوئی کی باتیں کرتے رہتے تھے اوراس مراد کے حصول کے لئے میرا ذوق طلب ایک کے مقابلے میں ہزار گنا بڑھ گیا اورمعرفت الہٰی کی آتش شوق نے میرے دل کو بے طرح روشن کردیا۔

    کابل میں کچھ وقت گذارنے کے بعد اعلیٰ حضرت(شاہجہاں )جوعنایت ایزدی سے بے انتہا قریب ہیں، مراجعت لاہور پر آمادہ ہوگئے اور ایک ہزار وچہل و نہم ہجری النبوی میں ماہ رجب کی 14 تاریخ کو شہر مذکور میں داخل ہوئے ۔ادراک حقیقت و عرفان الہٰی کے لئے میرا شوق برابر بڑھتا جارہاتھا چونکہ شہر لاہور میں بہت سے مشایخ طریقت اوربزرگان دین سکونت پذیر و قیام فرما ہیں اورمجھے ایسے کسی مرشد کی جستجو تھی جومجھے معرفت الہٰی کی راہ راست پر لگادے اور رموزِ توحید سے آگاہی بخشے۔

    میں نے اپنے دل میں تہیہ کرلیا کہ جب تک مجھے کوئی مرشد کامل نہیں مل جائے گا اورمیں اسے پنی آنکھ سے نہ دیکھ لوں گی اور اس کے حالات، ومقامات، اچھی طرح ، میرے دل پر ظاہر نہ ہو جائیں گے، نیز جب تک میرے عالی قدر برادر شہزادۂ دارا شکوہ اس سے مطلع اورمطمئن ہوکر مجھے بیعت کی اجازت نہیں دیں گے میں چین سے نہ بیٹھوں گی۔

    میں خاص طورپر مشایخ چشت کی طلب و جستجو میں تھی اور جہاں بھی میں کسی گوشہ نشیں بزرگ یا کسی شیخ وقت کے بارے میں سنتی تھی اپنے آدمیوں کو بھیج کر اس کے حال و احوال کی جستجو کرتی تھی اوران کے حالات و کوائف سے مطلع ہوکر ان کے پاس نذر و نیا ز بھیجتی تھی اوران سے کسی شغل و ذکر کی خواہش کرتی تھی۔ بعض اکابر سے شغل و ذکر کے کچھ طریقے بھی معلوم ہوئے لیکن کوئی بھی دل نشین و خاطر نشان نہ ہوا اوراس سے مجھے کوئی روحانی فائدہ نہیں پہنچا۔

    مجھے حضرت میاں میر کے یاران طریقت و اہل ارادت کے بارے میں اکثر اطلاع یابی کی خواہش و کوشش رہتی تھی، میں نے خاص طورپر اس ضمن میں خواجہ بکھاری سے رجوع کیا (جو حضرت میاں جبو کے احباب اوروابستگانِ سلسلہ میں سے ہیں) اوربہت الحاح و زاری کے ساتھ ان سے التماس کیا۔ حضرت خواجہ بکھاری خود کسی کو مرید نہیں کرتے اوراب تک ان کا کوئی مرید ہے بھی نہیں۔ انہوں نے مجھ کو بھی ’’مشغول‘‘ نہیں فرمایا لیکن چونکہ وہ مجھ ضعیفہ پر مہر بانی فرماتے تھے، میں گاہ گاہ ان کی خبر گیراں رہتی تھی۔

    ایک مدت اسی جستجو اورگفتگو میں گذر گئی لیکن مجھے کوئی ایسا شیخ نہیں ملا، جس کے ارشاد و تلقین میں اپنے دل کو تسلی دے سکوں اور جس کی رہنمائی پر پوری طرح اپنی طمانیت خاطر کرسکوں۔ میری یہ نایافتگی اس لئے تو نہ تھی کہ آج دنیا ایسے اہل اللہ کے وجود سے خالی ہوگئی ہو۔ایسا نہیں اور ہوبھی نہیں سکتاکہ یہ دنیا اللہ کے نیک بندوں اورخدا رسیدہ اشخاص سے نہ پہلے خالی تھی نہ آج ہے نہ آئندہ ہوگی۔ یہ دنیا تو انہیں کے وجود مسعود سے قائم ہے۔

    اگر فی العقل یہ عالم ظاہر اولیا اللہ کے وجود سے ایک ساعت کے لئے بھی خالی ہو جائے جو اللہ کے نجیب و نقیب ہیں جو نیکیوں اوربھلائیوں کا سرچشمہ ہیں اورجن میں کوئی ابدال ہے، کوئی قطب ہے اورکوئی غوث وقت ہے (رضوان اللہ تعالیٰ، علیم اجمین ) یہ نہیں تو پھر مدار عالم بھی اپنی جگہ باقی نہیں رہے گا اوردنیا و مافیہا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔

    چونکہ شیخ کامل کی تلاش مالک کے لئے فرض عین اورعین فرض ہے اس لئے ایسے کسی بزرگ کے بارے میں خبر سننے کے لئے میں ہمیشہ گوش بر آواز رہتی تھی اوردیدۂ انتظار کو ایسے کسی بھی پیر کامل کی جستجو میں ہمیشہ کھلا رکھتی تھی، جب تک کوئی راہ حق کا جویا کسی عارف ذات تک نہیں پہنچتا عرفان حق کی منزل مراد تک اس کی رسائی امر محال تصور کرنا چاہئے کیوں کہ کسی پیر کی رہنمائی کے بغیر حقیقت الحقایق تک پہنچنا ناممکن ہے۔

    اگرچہ میری خواہش یہ تھی کہ اس طرح کا کوئی مرد کامل طریقہ ٔ چشتیہ میں میسر آجائے کہ یہی میرے حق میں سب سے بہتر ہوگا اوراس سلسلۂ عالیہ سے وابستہ ایسے بہت سے شیخ وقت اورپیر طریقت ہوں گے جن کو عارف حق، واصل بحق اوردانائے ذات مطلق کہا جاسکے اور اس سلسلہ ٔشریفہ کے رتبہ کی بلندی اوردرجات کی برتری اس سے کہیں زیادہ ہے کہ اس کی تعریف و توصیف کی جاسکے۔

    لیکن چونکہ اس فرقہ کے مشایخ مستور الاحوال رہتے ہیں اورخود کو دوسروں کی نگاہ سے پوشیدہ رکھتے ہیں میں یہ نہ کرسکی کہ ان میں سے کسی کے حال سعادت مآل کے بارے میں جلد سے جلد کوئی اطلاع پاسکوں اورمیری عمر عزیز ہے، کہ گذری جارہی ہے جس کا ہر لمحہ ایک متاعِ بے بہاہے،اور جب وقت کا کوئی حصہ گذر جاتاہے تو پھر وہ کسی طرح واپس نہیں ملتا اس پر بھی میری زندگی کے بیش قرار ساعتیں اورلمحے یوں ہی بے حاصل اوربےمصرف بیتے جارہے ہیں۔ میری عمر اس وقت 27برس ہوگئی ہے۔ اس لئے زندگی کا جو سانس آتا اورجاتا ہے اس کے ساتھ یہ خواہش اوربھی شدید ہوتی جاتی ہے کہ جس سلسلہ میں بھی کوئی عارف کامل اور مرشد طریقت مل جائے میں اس کا دامن تھام لوں۔

    چونکہ میں اپنی طلب میں صادق اوراپنے ارداہ میں ہر طرح مضبوط تھی اور اللہ جل شانہ بھی کہ معبود برحق اورخداوند مطلق ہے یہ چاہتاتھا کہ یہ ضعیفہ ٔ نحیفہ جو اس کی درگاہ ازلی و لم یزلی کی سوالی ہے، محروم و مغموم نہ رہے اوراپنی مراد کو پہنچے اورحقیقت الحقایق کی دریافت اور اسرار توحید و رموز یگانگت کی نکتہ شناسی کی سعاعت ( کہ زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے )سے بہرہ مند ہو۔

    بنابریں ان ہی ایام میں حضرت ظل سبحانی آئینہ ٔرحمت ربّانیٔ اعلی حضرت صاحب قران ثانی خطہ دلپذیر کشمیر کی سیر کی طرف توجہ فرماہوئے۔ یہ حسین و دلکش سرزمین اپنی آب و ہوا کی خوبی کے لحاظ سے کسی تعریف و تعارف کی محتاج نہیں۔ انہیں کے ساتھ یہ ضعیفہ بھی،ماہ ذی الحجہ سن مذکور کی 9تاریخ کو کشمیر جنت نظیر پہنچی۔ میں اس علاقہ کے مشایخ اوراہل اللہ کے احوال پر کوئی اطلاع نہ رکھتی تھی۔ کشمیر پہنچنے کے قریبی زمانے میں،میں نے سنا کہ شہر کشمیر آج حضرت ولایت پناہ برگزیدۂ الہٰ ملا شاہ بدخشی کے وجود مسعود سے رشک آسمان و زمین بناہوا ہے اوردعوے یکتائی رکھتا ہے اور حضرت والا حضرت میاں میر قدس سرہ الشریف کے سلسلۂ عالیہ سے وابستہ ہیں اورآپ کے بہترین دوستوں اوراہل ارادت میں سے ہیں۔ حضرت میاں میرکے بارے میں کون نہیں جانتاکہ حضرت والا قدر سر دفتر اولیا ئے کبار و مشایخ نامدار ہیں۔ آپ دلوں کا بھید جانتے اور ظاہر و باطن پر اطلاع رکھتے ہیں اور صغیر و کبیر کے پیشوا اورعرب وعجم کے مقتدا ہیں۔

    اور برادر عالی قدر، کامگار، صاحب کشف واسرار، حقیقت شناس وحق پژوہ شہزادہ محمد داراشکوہ بھی کہ دراصل اس ضعیفہ کہ مرشد و رہنما ہیں، حضرت میاں جبو سے نسبت ارادت رکھتے ہیں اور ان ایام سعادت فرجام میں لوگ حضرت ملاصاحب کی خدمت میں آمدورفت رکھتے ہیں۔ ان کو حضرت نے مشغول بحق فرمایا ہے۔ انہوں نے حضرت والا سے بہت کچھ کسب فیوض و برکات کیاہے جس سے وہ صاحب حالات عالیہ و مقامات علیا ہوگئے ہیں اورانہوں نے، تصور و حدت کے مرتبہ بلند اورمقام توحید کے مدارج ارجمند کی شناسائی میں رتبہ کمال حاصل کیا ہے اور قرب حضرت ذوالجلال کے روشن حلقہ تک ان کی رسائی ہوئی ہے۔

    اپنے برادر والا گوہر کی زبان حقیقت ترجمان سے بھی میں نے حضرت ارشاد پناہ سعادت د ستگاہ ملا شاہ کی بار بار تعریف سنی تھی نتیجہ یہ کہ میں بےحد صدق عقیدت اورعشق وارادت کے ساتھ دل و جان سے حضرت کی روحانی شخصیت کی طرف مائل ہوگئی اور اس حدیث نبوی کے مصداق کہ جس نے کسی شئے کو طلب کیااور اس کے حصول کے لئے جدوجہد کی اس نے اسے پالیا:

    ’’مَن طَلب شئیا وَجد َّوَجَدَ‘‘

    اور اس طرح میں اپنے مطلوب و مقصود پر فائز ہوگئی۔

    اور ایک معنی میں گستاخی کرکے چند روز کے اندر اندر میں نے دوتین عریضے اظہار عقیدت و اخلاص کے طورپر حضرت والا کی خدمت میں ارسال کیے اوران میں یہ شعر بھی لکھا ؎

    گو میسر شود آں روئے چو خورشید مرا

    بادشاہی چہ کہ دعوائے خدائی بکنم

    اورنذرو نیاز کی صورت میں کسی پیش کش کو بےادبی خیال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھ سے روٹی پکائی اورساگ تیار کیا اور اپنے معتمد خواجہ غریب کے ہاتھ اسے بھیجا۔

    شروع شروع میں حضرت نے بے نیازی کا اظہار کرتے ہوئے میرے عریضہ کا کوئی جواب مرحمت نہ فرمایا اوربڑے استغنا سے کام لیا۔ لیکن میرے عریضوں کو آپ ملاحظہ ضرور فرماتے تھے اوریہ کہتے تھے کہ ہمیں دنیاداروں اوربادشاہوں سے کیا واسطہ۔یہ ضعیفہ اس پر بھی عریضوں کی ارسال کردگی اورخدمت گذاری کے مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی اوربرادر والا قدر بھی جب بازیاب خدمت ہوتے تو میری اخلاص مندی اورحسن عقیدت کو ظاہر فرماتے رہتے۔

    جب حضرت والا نے اس ضعیفہ کو اپنے کشف باطن سے، صحیح معنی میں اپنا ارادت مند اورطلب حق میں سچا پایا اورانہیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ میرا مطلب تلاش حق کے ماسوا کچھ نہیں تو آپ آمادہ ٔ لطف و کرم ہوئے اورمیرے عریضوں کے جواب پر کم کم توجہ فرمانی شروع کی۔

    اورمجھے یہ پوری امید ہوئی کہ میں حضرت کے رشد و ہدایت کی بدولت اپنے مقصد اصلی و معرفتِ حقیقی میں کامیاب ہوں گی (ان شا ء اللہ تعالیٰ)

    اور جیسے جیسے برادر عالی قدر کی سچائی سے بھری ہوئی باتوں کے ذریعہ مجھے حضرت کے علوئے درجات اور مراتب عالیہ کے بارے میں میری معلومات بڑھتی گئیں حضرت کے جمال مبارک کو میں نے کچھ قریب سے اس وقت دیکھاتھا جب حضرت ظل سبحانی، کی حسب خواہش حضرت والا نے شاہی قیام گاہ پر اس آیت کریمہ کے بموجب تشریف لانا قبول کرلیاتھا۔

    اطیعواللہ واطیعو الرسول و اولی الامر منکم

    اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول (مقبول صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراس کی اطاعت کرو جو تم سے صاحب امر ہو۔ نیز اس حدیث نبوی کے مطابق’’اذا دعا فلیجب‘‘ کہ کوئی دعوت دے تو اسے قبول کرو۔

    جب حضرت رونق افزائے کاشانۂ علیا ہوئے تھے تو میں نے ایک دوسری جگہ سے آپ کو دیکھا تھا۔ آپ کی نورانی پیشانی سے جو شعائیں پھوٹ رہی تھیں دیدۂ حق بیں و چشم عقیدت آئین کے لئے وہ جلوے خیر گی پیداکرنے والے تھے اورحضرت کے اس دیدار کی برکت سے میرا اعتقاد حضرت کے بارے میں بہت بڑھ گیاتھا۔

    اب ایسی صورت میں ،میں نے جو اپنے دل میں شرطیں رکھی تھیں کہ جب تک ایسے کسی شخص کو اپنے آنکھ سے نہ دیکھوں گی اوراس کے احوال کو اپنے عالی قدر بھائی کی زبانی نہ سن لوں گی اب یہ شرطیں گویا پوری ہوگئیں اورفریب وشک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تو میں نے اپنے برادر والا گوہر کی وساطت سے حضرت کے دامن سعادت کو اپنے دست ارادت سے تھام لیا اورآپ کو اپنا مرشد حقیقی بنا لیا۔ اورحضرت نے بھی کمال عنایت اور مہر بانی کےساتھ (جواچھے اورسچے مرشدوں کا ایسے مریدوں کے سلسلہ میں جو طلب صادق رکھتے ہیں خاص شیوہ ہوتاہے ) مجھے اپنے دامن عاطفت کے سایہ میں لیا اور وہ اشغال و افکار جو [سلسلۂ قادریہ اورطریقۃ شابیہ میں معمولات کا درجہ رکھتے ہیں ] مجھے تلقین فرمائے، اورحضرت والا کے ارشاد و ہدایت کےمطابق برادر والا قدر نے وہ مجھ تک پہنچائے اورمجھے مشغول کیا۔

    اورجس روز کہ میرے برادر عالی قدر نے حضرت والا کے ارشاد کے بموجب اورطریقہ شابیہ اورسلسلۂ عالیہ قادریہ کے ضابطۂ روحانیت کے مطابق مجھے مشغول کیا اوراسی کے ساتھ اس کو بھی میرے لیے خاطر نشاں بنایا کہ میں حضرت والا، حضور رسالت پناہ، خلفائے راشدہ اوردوسرے اولیاء اللہ کا تصور کیسے کروں اسی روز میں نے غسل کیا اورپاکیزہ لباس پہن کر روزہ رکھا اورشام کے وقت اسی بہی کے پھل سے جو حضرت والا نے میرے لئے بھیجوایا تھا، روزہ افطار کیا اورتھوڑا ساوہ کھا ناکھایا جو صحیح معنی میں درویشانہ کھانا تھا، یہ ملا محمد سعید کے یہاں سے آیا تھا اورحضرت والا خود بھی اکثر ملا محمد سعید کے گھر سے آنے والا کھانا ہی تناول فرماتے ہیں۔

    بعد ازاں میں اس مسجد میں گئی جو میری رہائش گاہ کے ایک حصہ میں ہے اورنصف شب تک وہاں عبادت گذاری اوراوراد و وظائف میں مشغول رہی اور نماز تہجدادا کرکے وہاں سے اپنی خواب گاہ میں آئی، اورمیں ایک گوشہ میں قبلہ رو بیٹھ گئی اوراپنے مرشد کی شبیہ مبارک ، حضور ِ پُر نور و رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ذی قدر صحابہ اوراولیاء اللہ کی صحبت میں حاضر ہونے کا تصور کرکے ذکر و شغل میں محو ہوگئی۔

    جب میرے دل میں یہ خطرہ گزرتاہے کہ میں تو سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوئی ہوں اورذکر وشغل میں، طریقہ قادریہ کو اختیار کیا ہے ایسی صورت میں مجھے طمانیت خاطر اورکشایش احوال میسر آئے گی یا نہیں لیکن جیسے ہی میں متوجہ ہوئی مجھ پر ایک ایسی حالت طاری ہوگئی جسے نہ خواب کہا جاسکتاہے نہ بیداری، میں نے حضرت رسالت پناہ کی مجلس مقدس کو دیکھا جو آپ کے چہار یاروں، صحابۂ کرام اوراولیائے کبار سے اس طرح مزین تھی جیسے آسمان چاند ستاروں سے ہوتاہے اورمیرے مرشد والا حضرت ملا شاہ اورمیرے قابل احترام بھائی شہزادۂ داراشکوہ بھی اس میں موجود ہیں اورآں حضرت [صلی اللہ علیہ وسلم] اپنی زبان صدق ترجمان سےفرما رہے ہیں ’’ اے ملا شاہ تونے خاندان تیموریہ کا چراغ روشن کردیا ہے۔‘‘

    جب اس حالت سے واپس آئی تو میرا دل اس بشارت سے باغ باغ ہورہاتھا ،پھول کی طرح کھلا جارہاتھا۔ میں نے بارگاہ الہٰی میں سجدۂ شکر ادا کیا۔ اس رباعی کا مضمون میری زبان پر تھا۔

    شاہا توئی آنکہ می رساند ز صفا

    فیض نظرتو طالباں را بخدا

    بہ ہر کہ نظر کنی بہ مقصود رسد

    نور نظرِ تو شد مگر نورِ خدا

    اے بادشاہ وہ تو ہی ہے جس کا فیض نظر کمالِ صفا ونورانیت کے باعث طالبان حق کو ان کی منزلِ مراد تک پہنچادیتاہے تیری نگہ التفات جس پر پڑتی ہے وہ اپنے مقصود کو پہنچ جاتاہے گویا تیری آنکھوں کا نور خدا ہی کانور ہے۔

    اس وجہ سے کہ میں نے رسالت مآب اورآپ کے اصحاب و احباب کی زیارت کی تھی اورحضور کی زبان معجز بیان سے یہ کلمۂ بشارت بھی میں نے سنا تھا ( اے ملا شاہ تو نے خاندان تیمور کے چراغ کو روشن کردیاہے) اور میں یہ بھی جان چکی تھی کہ یہ ارشاد نبوت میرے دل میں پیدا ہوئے خطرات وخدشات کو دورکرنے کے لئے تھا۔

    اوریہ میرے امیرقابل صد احترام بھائی کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے اس لئے کہ خاندان تیموریہ کے ہمیں دو افراد ہیں میں اورمیرے برادر والا قدر شہزادۂ داراشکوہ، جنہوں نے طلب حق کی راہ میں قدم رکھاہے اوراپنے دستِ ارادت سے مرشد والا جاہ حضرت ملاشاہ کا دامن پکڑا ہے ،میرے اسلاف میں سے کوئی شخص بھی اس سعادت کو حاصل نہیں کرسکا اورکسی نے بھی ہم دونوں بہن بھائی کی طرح حق جوئی کی راہ میں، قدم نہیں رکھا۔ میں اللہ پاک کا ہزاران ہزار شکر اداکیا اوراس وقت میں اس قدر خوش تھی کہ میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کروں۔

    میرا اعتقاد اس دولت بیدار کے باعث ہزارگنابڑھ گیا، میں نے عقیدت کا یہ پٹکا گویا دس جگہ اپنی کمر سے باندھ لیا اور حضرت مرشد کہ حلقۂ ارادت کو گوش جاں میں پہن لیا اور صمیم قلب سے حضرت والا کو دین و دنیا میں اپنا مرشد و مقتدا بنا لیااوراپنے لیے اس شرف و امتیاز کا خیال کرکے اللہ پاک کی بارگاہِ رحیمی اوردرگاہِ کریمی میں بہت بہت شکر بجا لائی اوراپنے دل میں کہا کہ یہ کتنی بڑی سعادت اورموجب صد برکت ہے جو اس ضعیفۂ بے بضاعت کے حق میں ظہور پذیر ہوئی اوریہ بہترین دولت ہے جو میرے برادر والا قدر کے حصہ میں آئی اورمیرے اس بھائی کی توجہ اورتوسط سے مجھ فقیرۂ راہ طلب کو نصیب ہوئی وہ اس سے پہلے تیموری خاندان کے افراد میں سے کسی کے حصہ میں نہیں آئی تھی۔

    اور دو روز کم چھ ماہ شہر کشمیر جنت نظیر (سری نگر) میں میرا مقام رہا اور اس اثنا میں، میں نے اپنے مرشد کی خدمت میں بہت سے نیاز نامے اورعقیدت سے بھرے ہوئے خط ارسال کیے ۔حضرت والا نے بھی از راہ عنایت بے نہایت اکثر راقمہ عاصمہ کو اپنے جواب باصواب سے سر بلندی بخشی۔

    اگر چہ حضرت والا کو اس دنیائے فانی کی لذتوں اورفائدوں کی طرف سے کمال بے نیازی وبے احتیاطی حاصل ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ آپ آخرت کی نعمتوں سے بھی [خوشنودی باری تعالیٰ کے سوا ]بے توجہی واستغنیٰ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ضعیفہ حصول سعادت دارین کی غرض سے اپنے مرشد کامل حضرت ملاشاہ کو کبھی خوشبوؤں کا تحفہ بھیجواتی اورکبھی طرح طرح کے کھانے اپنے ہاتھ سے تیار کرکے حضرت کی خدمت میں روانہ کرتی، اگرچہ میں خلاف سنت باتوں سے اجتناب کو ضروری خیال کرتی رہی ہوں پھر بھی میں نے اپنے مرشد کے دیدار پُر انوار سے اپنی آنکھوں کو روشن کیا۔

    ہزاراں ہزار تعریفیں ذات باری کے لئے ہیں جو اپنے مرتبۂ احدیت میں فرد ہے اوراس کی الوہی صفات ہر طرح کے شرک اورتشبیہ وتمثیل کے رشتے سے بالا تر ہیں کہ یہ فقیرہ بے بضاعت کہ جس نے اپنے سنین عمر کو فضول باتوں میں ضائع اوراپنے اوقات شریف کو بے مصرف سرکیا، یہ محض اس کا کرم اوراس کی غیبی تائید تھی کہ اپنی طلب اورترک علائق کے اس درجہ عالی سے سرفراز کیا اوراس کی وحدت کے ادراک کی دولت سے مجھے دین و دنیا میں ارجمند کیا اورمیری تشنگی کو بحر حقیقت کی موج زلال اورسرچشمہ معرفت کے جرعۂ شیریں سے سیراب کیا۔ اورمیں امیدرکھتی ہوں کہ اللہ پاک اپنے کرم بے حساب اورلطف بے پایاں سے اس دولت لازوال اوراس نعمت غیر مترقبہ سے کہ مجھے حاصل ہوئی ہے تادم واپسیں مجھ ضعیفہ کو خوش حال اوراس فقیرہ کو مالا مال رکھے گا اوراس صراط مستقیم پر کہ جو حضرت حق تک رسائی کا سب سے قوی وسیلہ ہے، مجھے چلتے رہنا نصیب ہوگا۔ اورمجھے ان تمام اشغال و اذکار کی توفیق ، اس کمترین خلایق کو اس کی بارگاہ سے کی جاتی رہے گی جو اس سلسلۂ شریفہ اور طریقۂ شابیہ کے معمولات میں سے ہیں۔ اوراپنی یاد کی لذت کو اس بے بضاعت کے کام جاں کے لئے شریں بنائے گا اوراپنی بخشش لازوال کے طور پر اپنے ذوق طلب کو میرے اخلاص نشاں دل میں دن بدن بڑھاتارہے گا۔

    اورمیرے مرشد والا حضرت ملا شاہ [کہ میری جان آپ کے نام پر فدا ہو ]اپنے مریدوں اورراہ حق کے طلب گاروں پر بے انتہا لطف و شفقت فرماتے ہیں اورآپ کی مہر بانیاں مجھ ضعیفہ پر تو بے حد اور لانہایت ہیں اورجو کرامات حضرت والا نے مجھ فقیرۂ نحیف کے حال پر توجہ فرماتے ہوئے لکھے ہیں وہ آپ کی بے پایاں توجہات و عنایات کے آئینہ دار ہیں۔ اور ان کی سطر سطر حکیمانہ نکات وعارفانہ ارشارات سے مزین اورتوحید و رموز معرفت کو اس صراحت و وضاحت کے ساتھ مجھے سمجھایا ہے جس کی توقع کسی بھی بڑے مرشد سے کسی ادنیٰ مرید کی تربیت کے سلسلہ میں کی جاسکتی ہے اوراس سے مجھ ضعیفہ کو بے شمار فائدے میسر آئے ہیں۔

    میرے مرشد کا طریق حق حقِ معرفت کو دل نشیں و خاطر نشاں بنانے میں بے نظیر و بے مثال ہے اورحضرت والا کی نظر کیمیااثر میں تاثیر کا یہ روشن عنصرعطیۂ خداوندی ہے۔ آپ نے اکثر تبرکات بھی اس فقیرہ کے لئے بھیجے ہیں۔

    اور کشمیر سے واپسی میں جب دو تین دن رہ گئے تھے، پنجشنبہ کی رات کو میں حضرت کی صورت مبارک کا تصور کرکے مراقبہ میں بیٹھی اورمیں نے دل کی آنکھوں سے حضرت والا کی شبیہ مبارک کو دیکھا ۔اس حالت میں حضرت کے دوش مقدس پر جو دوپٹہ پڑا رہتاہے میں نے اس کے لئے التماس کیا کہ وہ مجھے عنایت کیا جائے۔ صبح کے وقت میں یہ چاہتی تھی کہ حضرت والا کی خدمت میں عریضہ لکھ کر یہ درخواست کروں کہ وہ دوپٹہ مجھے عنایت کیا جائے۔اتنے میں میرا خواجہ سرا جس کا نام پران ہے اورجو حضرت کی خدمت اقدس میں آتاجاتا رہتاہے وہ آیا اوراس نے کہا کہ میں کل شام حضرت کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ آپ نے نماز مغرب کے بعد دوپٹہ اتارا اورمجھے عنایت کیا اورفرمایا کہ اسے فلاں عزیزہ کو دے دیا جائے میں نے فوراً وہ دوپٹہ خواجہ سرا سے لے لیا، اپنی آنکھوں سے لگایا اور سر پر رکھا۔ مجھے بے حد سرور و حضور حاصل ہوا۔

    اگرچہ یہ بھی حضرت والا کی ایک کرامت تھی مگر حضرت کی ذات والاصفات سے ایسے خوارق عادت کا ظہور کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اللہ پاک نے مرتبہ ولایت اوردرجۂ کرامت میں جو قوت و قدرت میرے مرشد کو عطا فرمائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ آپ جو چاہیں وہ کرسکتے ہیں۔اوراس مرتبہ پرفائز ہوکر آپ کی ذات سے خوارق کی نمودایک معنی میں دون ہمت اورآپ کے درجات عالیہ سے فرو تر ہے ۔میرے اشارے پر ایک شاعر نے حضرت کے بارے میں یہ رباعی لکھی ہے:

    اے ہستی تو ہستی مطلق گشتہ

    اسرار نہاں برتو محقق گشتہ

    حاجت ز تو خواستن ز حق خواستن است

    چوں جملہ صفاتت، صفت حق گشتہ

    اے کہ تیری ہستی گویا ہستی مطلق بن گئی ہے اوراسرار الہٰیہ تجھ پر محقق ہوگئے (یہ تحقیق تجھے معلوم ہوگئے ہیں ) تجھ سے کچھ مانگنا گویا خدا سے مانگنا ہے اس لئے کہ تیری تمام صفات حق تعالیٰ کی صفات بن گئی ہیں۔

    یہ ضعیفہ دوبار حضرت مرشد کی زیارت سے فیض یاب ہوئی ہے اوراپنے دیدہ و دل کو حضرت والا کے جمال باکمال سے روشن کیا ہے ۔ایک بار اپنے بھائی کے ساتھ اوردوبارہ جب میں سری نگر سے سفر لاہور پر روانہ ہوئی تھی۔ میں نے عریضہ لکھ کر حضرت سے التماس کیا تھا ،کہ چونکہ اب روانگی طے ہوچکی ہے اس لئے درخواست ہے کہ حضرت والا کرم فرما کر مجھے اپنے دیدار فیض آثار سے مشرف فرمائیں جس سے مجھے ظاہر و باطن کے فائدے حاصل ہوں۔

    حضرت والا نے اس فقیرہ کی درخواست کو کمال شفقت و عنایت کے ساتھ قبول فرمایا۔ میری جان اس خاک پر فدا ہو جو آپ کے گھوڑے کے سموں سے اڑتی ہے۔

    اس فقیرۂ ضعیف کی پیش کش قبول فرما کر اورمیری روانگی کے موقع پر اس راہ کے نزدیک جہاں سے مجھ ناچیز کو گزرنا تھا ایک توت کے درخت کے نیچے سُرخ رنگ کا پٹو بچھا کر آپ بیٹھ گئے۔ میں خود ہاتھی پر سوار تھی اورعماری میں بیٹھی تھی۔

    جب میں اس درخت کے قریب پہنچی تو ہاتھی کو ٹھہرایا گیا تاکہ میں اس مرشد مہربان کے جمال جہاں آرا کو دیکھ سکوں، جو آسمان کے چاند اورچمکتے ہوئے سورج کی طرح دنیا کو فیض پہنچانے والا تھا۔پردہ عماری سے میں نے اپنے آرزوے دید اورجذبۂ عقیدت سے بھری ہوئی خواہش کے ساتھ حضرت کے چہرۂ پر نور کا دیدار کیااورفیوض و برکارت سے اپنا دامن بھرا۔

    حضرت کے علو شان کا میرے دل پر بہت اثر ہوا اورآپ کی روشن پیشانی سے جو شعائیں نکل رہی تھیں ان سے میری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اورغلبۂ شوق کی وجہ سے میرا رونگٹا رونگٹا جیسے کانپ رہاتھا جیسا کہ اس رباعی سے بھی ظاہر ہوتاہے جو ایک شخص نے مجھ خاکسار بے حقدار کے کہنے کے مطابق لکھی تھی۔

    اے شاہ کہ ملک عافیت کشور تست

    ہر بخیۂ دلق تو، صف لشکر تست

    آئینہ حق نما بے روئے تو بود

    خورشید خجل زپا کی گوہر تست

    اے بادشاہ ملک عافیت تیری مملکت ہے اورتری گڈری کا ہر بخیہ تیرے شکر فقر ودرویشی کی ایک صف ہے، تیرا چہرۂ مبارک آئینہ حق نما ہے اورتیرے گوہر ذات کی پاکیزگی و درخشانی کے مقابلہ میں آفتاب صبح خجل نظر آتاہے۔

    اور اس وقت حضرت والا کی خدمت میں تین شخص حاضر تھے۔ ایک محمد حلیم جسے آپ نے اپنی فرزندی کے خطاب سے ارجمند و سربلند فرمایاہے اوروہ آپ کی توجہات کی برکت سے کمال عرفان اورتوحید کے مرتبۂ بلند تک پہنچا ہے اوراسی کے ساتھ وہ کشمیری خادم جن میں ایک کا نام حسن اوردوسرے کا خضر تھا۔ یہ دونوں حضرت کے عقب میں تھے اورحضرت والا کے گھوڑے کی لگام ان میں سے ایک کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے بعد میں نے ایک شیشۂ گلاب اورپان کے چند بیڑے خواجہ سرا کے ہاتھ حضرت کی خدمت میں بھیجے اوریہ خواہش کی کہ شیشہ حضرت والا سے الوش کراکے میرے لیے واپس لے آئیں کہ وہ میں میرے دل کو صفائے تازہ بخشے۔ عالم ظاہر میں حضرت کی خدمت سے جدا ہوکر میں چشم گریاں اوربیقرار دل کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوئی۔

    اس کے بعد حضرت والا بھی اپنے گھوڑے پر سوارہوکر اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اوریہ فقیرۂ ضعیف اپنے عقیدہ کی اس درستی کے ساتھ جو ایمان مجمل و ایمان مفصل میں بیان ہوئی ہے، اللہ کی وحدت اوراس کی یکتائی پر ایمان کامل رکھتی ہے اورجو تشبیہ و تمثیل کے رشتے سے آزاد ہے جو پاک ہے، مطلق ہے، لامحدود ہے، محیط ہے، علیم ہے، قدیر ہے، سمیع و بصیر ہےوہی اول ہےوہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے اوروہی باطن ہے اوراپنی تمام الوہی صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا، اس حقیقت کو برحق مانتے ہوئے اپنے پیر دستگیر کی رہنمائی پر اعتقاد راسخ رکھتی ہے۔

    اوراللہ پاک کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اپنے پیر دستگیر اورمرشد کامل کی توجہ کی برکت سے مجھے ایمان حقیقی کی دولت میسر آگئی۔ اورحق شناسی و عرفان ذات کی منزل مل گئی جس کا مطلب خداوند قدوس کی ذات کویکتا و مطلق ماننا اوراس کی ازلی وابدی صفات کو لانہایت و نامحدود تصور کرنا اوریہ سمجھ لینا کہ ایک دن یہ تمام کائنات اسی کی ذات واحد میں سمٹ جائے گی اوراسی کی ہستی باقی رہے گی جو واجب الوجود ہے۔

    اس کے ساتھ مجھ پر یہ حقیقت بھی روشن ہوئی کہ انسان کو جنوں اورفرشتوں پر اس لئے فضیلت دی گئی ہے کہ وہ ذات باری کی شناخت اوراس کی الوہی صفات کی دریافت کی صلاحیت رکھتاہے اب جو انسان اس صلاحیت سے عاری اورشناخت کی اس قابلیت سے محروم ہے وہ انسان نہیں بلکہ قرآن پاک کے الفاظ میں وہ کالانعام میں سے ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔

    اولئک کالانعام بل ھم اَضل

    اوراس کی زندگی ہیچ ہے اوراس کا انسانی وجود لایعنی ،اس کے مقابلے میں جو ذات حق کی شناخت کے اس مرتبہ پر فائز ہوگیا اوراس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوا وہی افضل موجودات اوراشرف مخلوقات بن گیا۔ اس کی ہستی ہستی ٔ مطلق میں گم ہوئی، قطرہ سمند میں مل گیا اورذرہ آفتاب کا حصہ بن گیا اورجز وکل میں بدل گیا۔ پس اس حالت میں وہ حدوث، تصور عذاب، سوال و جواب اوربہشت و دوزخ سے چھوٹ گیا، سبحان اللہ امتِ سید خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اولیائے کرام اورفقرائے ذوی الاحترام کا مرتبہ کتنا بلند ہے جن کے لئے کہا گیا ہے ’’یُحببھم و یحبونہ‘‘ میں ان سے محبت کرتاہوں اوروہ مجھ سے محبت کرتے ہیں،۔اب اس میں عورت مرد کی کوئی تشخیص نہیں۔

    ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

    یہ اللہ پاک کا فضل ہے وہ جس کو چاہے عطا کردے اورجو شخص کہ ذات مطلق سے عشق و محبت کا رشتہ رکھتاہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت حضرت شیخ فرید الدین عطا رقدس سرہ نے حضرت رابعہ بصری کے لئے فرمایا ہے وہ ایک عورت ہوتے ہوئے بھی ہزار مردوں سے بہتر ہیں کہ وہ سر سے پاؤں تک درد عشق میں ڈوبی تھیں اوراس سعادت عظیٰ اور نعمت عالی کو اس فقیرہ ضعیف نے اپنے برادر عالی قدر،عارف ذات و دانائےصفات، محمد داراشکوہ کے وسیلہ سے حاصل کیا ہے۔

    یہ عاجزہ لطف خداوندی سے یہ آرزو رکھتی ہے کہ میرے دل میں عشق و محبت کا یہ جذبہ بڑھتا رہے گا۔ یہ چند شعراس ضعیفہ نے بنا کسی فکر و تامل کے انہیں دنوں میں موزوں کئے تھے جن کو اس رسالہ میں تحریر کیاگیاہے۔

    اینہا ہمہ را ظہور حق می بینم

    دانستہ یکے جملہ صفت می بینم

    نقش فنا بقاست بے رنگی یار

    بے رنگ بشورنگہا را مشمار

    باد آمد در بغل بے محنت شبہائے ہجر

    عاشق و دیوانہ بودم اشتیاقم داد اجر

    شوق تو مرا دربر، می گیرد و می مالد

    ہر لحظہ و ہر لمحہ ایں ذوق تو می بالد

    پیر من و خدائے من دین من وپناہ من

    نیست کسے بغیر تو، شاہ من وا لٰہ من

    امروز ندیدیم کسے ثانی تو

    مائیم بروز عید، قربانی تو

    اے شاہ زیک نظر بکر دی کارم

    شاباش بتو چہ خوش نمودی، یارم

    خو شاہجرے کہ باشد آخرش وصل

    خوشا فرعے کہ گردد عین آن ا صل

    تاثیر زبان خاصۂ شاہ من است

    تقدیرعیان خاصۂ ماہ من است

    دریاب رہ کوچۂ آں ملا شاہ

    کوہست، خزینۂ دار توحید الہٰ

    (ترجمہ)

    میں ظہور اشیاء کو ظہور حقیقت سمجھتی ہوں و اصل حقیقت تو ایک اورواحد ہے اورباقی جو کچھ ہے اس کی الوہی صفات کا پرتو ہے اوربس۔

    تو [رنگین پر چھائیوں کی صورت] یار کی قامت بے رنگی پر نقش فنا کی مثال ہے خود [پانی کی طرح ] بے رنگ ہو جا اور [دھنک کے سے ] ان رنگوں کو مت شمار کر۔

    شب ہجر کی بے قراریوں کے بغیر میرا محبوب میرے آغوش میں آگیا میں عشق میں دیوانہ ہورہاتھا ۔میرے اس شوق فراواں اوردل بے تاب نے مجھے یہ اجر عطا کیا۔

    تیرا شوق مجھے اپنی آغوش میں لیتاہے اورمجھے چھیڑتاہے اوراس کے ہر لمحہ وہر ثانیہ میں تیرے جذب وشوق کی بے قراریاں بڑھتی جاتی ہیں۔

    وہ میرے پیر ہیں۔میرے خداوند ہیں اورمیری پناہ ہیں اوران کے ماسوا میرا نہ کوئی شاہ ہے ،نہ خداوند ہے۔

    آج مجھے کوئی تیرا ثانی نظر نہیں آتا، ہم آج جانورانِ عید قرباں کی طرح سر جھکائے ہوئے تیرے سامنے کھڑے ہیں۔

    اے بادشاہ تونے ایک نظر میں میری دنیا بدل دی تم پر ہزار آفریں کہ تم نے اپنی توجہ خاص کی بدولت مجھے میرے پیر روشن ضمیر کی شکل دکھلا دی۔

    وہ جدائی کتنی مبارک ہے کہ جس کا انجام وصل ہے اورکیسی مبارک ہےوہ شاخ کہ وہ فرع ہوکر بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین شجر ہو۔

    تاثیر زبان میرے حضرت ملا شاہ کی خصوصیت ہے اورتقریر کو تصویر بنا دینا ان کے ماسوا کس کو آتاہے کہ ان کا پرتو جمال ماہ دو ہفتہ کی طرح میرے دل کو روشن کئے ہوئے ہے۔

    حضرت ملا شاہ کے کوچہ کی راہ تلاش کرو کہ آج وہی تو ہیں جو توحید ذات اوراسرار الٰہہ کے خزینہ دار ہیں۔

    سن ایک ہزار اکیاون ہجرا لنبوی میں ماہ رمضان المبارک کی 27ویں تاریخ کو اس مختصر رسالہ نے جس کا نام ’’صاحبیہ ‘‘ ہے صورت اتمام پائی۔

    اگر چہ اس رسالہ کی مولفہ یہ فقیرہ بے بضاعت، اورحقیرۂ بے استطاعت ہے لیکن اس حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے کہ اس میں حضرت قطب آفاق، ہادی سبیل طریقت و دلیل راہ حقیقت مرشد والا دستگاہ برگزیدۂ بار گاہ الٰہ حضرت ملا شاہ کا احوال سعادت آمال ہے [اللہ پاک ان کو سلامت باکرامت رکھے ] اس لیے کہنا چاہئے کہ اس کا حرف حرف گوہر یکتا ہے اورفقرہ فقرہ بیش قیمت موتیوں کی لڑی ہے جو معرفت الہٰی کے راستے پر چلنے والوں کے سینہ و گردن کو زینت بخشتی ہے۔

    میں امیدوار ہوں کہ اہل مطالعہ کو اس رسالہ کے صفحات کی سیر سے فائدہ تمام حاصل ہوگا اوراس ضعیفہ نحیفہ اوراس فقیرۃ حقیر کو جس نے اپنی عمر بے مقصد ضایع کی ہے اس طرح نوازا جائے گا۔ اللہ پاک کے سب پیغمبروں ، تمام صحابیوں اورجمیع اولیا اللہ نیز میرے مرشد والا نژاد، شیخ الاسلام ، سلطان مشایخ محبوب الہٰی حضرت ملا شاہ کی برکت سے دن بدن وساعت بہ ساعت میرے دل کا ذوق و شوق اورمعرفت حق کے لئے میری لگن بڑھتی رہے گی اورہمہ وقت اسی خیال و حال میں مستغرق رہوں گی۔ [آمین یا رب العالمین ]

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے