میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
کھلی آنکھ تو نا خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
ہے وجہ کوئی خاص مری آنکھ جو نم ہے
بس اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا کرم ہے
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
شب وصل کیا مختصر ہو گئی
ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی
سپنے میں آنکھ پیا سنگ لاگی
چونکی پڑی پھر سوئی نہ جاگی
جس آنکھ نے دیکھا ہے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت
لگا کر آنکھ اس جان جہاں سے
نہ ہوگا اب کسی سے آشنا دل
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں
وہ چھپ گئے تو آنکھ سے تارے نکل پڑے
دل گم ہوا تو اشک ہمارے نکل پڑے
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے
اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے
آنکھ ملتے ہی کسی معشوق سے
پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
کہیں ہے آنکھ عاشق کی کہیں دیدار جاناں ہے
بہار حسن تاباں میں تو ہی تو ہے تو ہی تو ہے
سییاں سنگ کس مورا لاگو نینوا
آنکھ لغت نہیں نیند پڑت نہیں
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی
دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے
آنکھ ان کی پھر آلودہ نم دیکھ رہا ہوں
خود پر انہیں مائل بہ کرم دیکھ رہا ہوں
ہر آنکھ کی تل میں ہے خدائی کا تماشہ
ہر غنچہ میں گلشن ہے ہر اک ذرہ میں صحرا
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں
گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا
اس در فیض سے امید بندھی رہتی ہے
اور مدینہ کی طرف آنکھ لگی رہتی ہے
ازل سے ابد تک کبھی آنکھ دل کی
نہ جھپکے جھپکنے نہ پائے تو کیا ہو
کھول آنکھ اپنی دیکھ عیاں حق کا نور ہے
ہر برگ و ہر شجر میں اسی کا ظہور ہے
لینے والے اپنی آنکھوں سے لگا لیتے ہیں اسے
آنکھ کا تارہ ہے صندل حضرت مخدوم کا
تو اسی کی آنکھ کا نور ہے تو اسی کے دل کا سرور ہے
کہ جسے بلند نظر ملی کہ جسے شعور ولا ملا
اس سے پہلے آنکھ کی پتلی کی کیا اوقات تھی
تیرے نقطہ دیتے ہی کیا کیا نظر آنے لگا
ملاکر آنکھ دل لینا ہے بائیں ہاتھ کا کرتب
سوا اس کے بھرے ہیں بے شمار اسرار آنکھوں میں
ایسے نٹھر سے کام پڑو ہے
آنکھ لگائے میں جی سو گئی
نہیں آنکھ جلوہ کش سحر یہ ہے ظلمتوں کا اثر مگر
کئی آفتاب غروب ہیں مرے غم کی شام دراز میں
کاہے تو موسے آنکھ چراوت
سن مکھ تورے میں آپے نہ ہونگی
طوفان تنک سمن کی بو میں
سمدر ایک آنکھ کے انجو میں
آنکھ کھول دکھتے کاظمؔ کاں
اٹھ گرے لاگو کنور کنہائی
جب سے لگی ہے آنکھ بھی میری لگی نہیں
یہ آتش فراق ہے رہتی دبی نہیں
کیا مری آنکھ عدم بیچ لگی تھی اے چرخ
کیا اس خواب سے تو نے مجھے بیدار عبث
جب سو گئے تم آنکھ لگائے
کیسے ترابؔ پیا کو بھولوں
نہیں کھولتے آنکھ کیوں بے نظیرؔ
وہ آتا ہے کوئی ادھر دیکھیے
ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی
بڑی چیز آنکھ ہے انسان پہلے آنکھ پہچانے
نظر کا تاڑ جانا بھی تو آدھی عیب دانی ہے
شری ورشبھانو کشوری رے لوگو
موری تو آنکھ تراب سو لاگی
کتنے کم ظرف دنیا میں وہ لوگ ہیں اک ذرا غم ملا آنکھ نم ہو گئی
غم بھی اللہ کی اک بڑی دین ہے حوصلا چاہیے ضبط غم کے لیے
نگاہ والوں میں اس کا کوئی شمار نہیں
غم حسین میں جو آنکھ اشک بار نہیں
ہر آنکھ کو ہے تری تمنا
ہر دل میں تری ہی آرزو ہے
آنکھ جو دیکھ ہو گئے مغرور
دل پکارا ہنوز دلی دور
وہ آنکھ کیا ہے جس کو تری جستجو نہ ہو
وہ دل ہی کیا ہے جس میں تری آرزو نہ ہو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere