وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں
نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں
ذرا ٹھہرو مرے آنسو تو پورے خشک ہونے دو
ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی معلوم ہوتی ہے
نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ
راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو
بے ارادہ کچھ ٹپک پڑتے ہیں آنسو بھی وہاں
زندگی کی جس روش پر مسکرا سکتا ہوں میں
نہیں چلتی کوئی تدبیر غم میں
یہی کیا کم ہے جو آنسو رواں ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے
آنسو سنبھل کے پونچھئے بیمار عشق ہوں
دل بھی لگا ہوا ہے میری چشم نم کے ساتھ
محبت کے آنسو ہیں پی جائیے
کہیں کوئی طوفان آ جائے نا
وفائیں یاد کر کے وہ بہا جاتے ہیں روز آنسو
رہے گا حشر تک سرسبز سبزہ میری تربت کا
ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک
ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا
مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم
دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں
جسے تو رائیگاں سمجھا تھا واصفؔ
وہ آنسو افتخار جام جم تھا
انہیں آنسو سمجھ کر یوں نہ مٹی میں ملا ظالم
پیام درد و دل ہے اور آنکھوں کی زبانی ہے
وہ ستارا جو مرے نام سے منسوب ہوا
دیدۂ شب میں ہے اک آخری آنسو کی طرح
پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ
اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا
رک گئے آنسو مرے درد جگر کچھ کم ہوا
اس بت سیمیں بدن کا جب نظارہ ہو گیا
میں اک آنسو ہی سہی ہوں بہت انمول مگر
یوں نہ پلکوں سے گرا کر مجھے مٹی میں ملا
آپ آئیں تو سہی ٹھوکر لگانے کے لیے
میری تربت دیکھ کر آنسو رواں ہو جائیں گے
لگا کے زخم بہانے چلا ہے اب آنسو
رکا ہے خون کہیں پٹیاں بھگونے سے
خون دل جتنا تھا سارا وقف حسرت کر دیا
اس قدر رویا کہ میری آنکھ میں آنسو نہیں
وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں جو دل میں
تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینہ
نہ پوچھ حال شب غم نہ پوچھ اے پرنمؔ
بہائے جاتے ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں
کیا سرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے
کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا
میرے سوز دروں نے آنکھ میں آنسو نہیں چھوڑے
جہاں شعلے بھڑکتے ہوں وہاں شبنم نہیں ہوتی
پرنمؔ اس بے وفا کے لئے
میرے آنسو دعا ہو گئے
لبوں پر نام نہ آنسو حکایت نہ شکایت ہو
اسیر زلف دیوانہ ہے دیوانہ یہ کیا جانے
ادھر تو آنکھوں میں آنسو ادھر خیال میں وہ
بڑے مزے سے کٹی زندگی جدائی میں
برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو
لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے
بنے آنسو پھپھولے صورت شمع
جلائے ہیں ہم اپنی چشم تر کے
شاید کہ یہی آنسو کام آئیں محبت میں
ہم اپنی متاع غم برباد نہیں کرتے
موتی سی وہ آب کہاں آنسو کالا موتی ہے
شاید میری ہجر کی شب منہ کی سیاہی ہوتی ہے
مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں
آستیں آج کیوں تری نم ہے
مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم
دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں
میں سمجھوں گا کہ میرے داغ عصیاں دھل گئے سارے
اگر آنسو تری چشم تغافل سے نکل آیا
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere