Sufinama

آنسو پر اشعار

وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں

نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں

مضطر خیرآبادی

ادھر تیرے آنسو ادھر میرے آنسو

وہ لائے ہوئے ہیں یا آئے ہوئے ہیں

آرزو لکھنوی

نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ

راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو

بیدم شاہ وارثی

ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں

ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

ذرا ٹھہرو مرے آنسو تو پورے خشک ہونے دو

ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی معلوم ہوتی ہے

کامل شطاری

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن

بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

جگر مرادآبادی

نہیں چلتی کوئی تدبیر غم میں

یہی کیا کم ہے جو آنسو رواں ہے

بے نظیر شاہ وارثی

جسے تو رائیگاں سمجھا تھا واصفؔ

وہ آنسو افتخار جام جم تھا

واصف علی واصف

انہیں آنسو سمجھ کر یوں نہ مٹی میں ملا ظالم

پیام درد و دل ہے اور آنکھوں کی زبانی ہے

جگر مرادآبادی

مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم

دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں

پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا

پرنم الہ آبادی

ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک

ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا

جگر مرادآبادی

وفائیں یاد کر کے وہ بہا جاتے ہیں روز آنسو

رہے گا حشر تک سرسبز سبزہ میری تربت کا

اکبر وارثی میرٹھی

محبت کے آنسو ہیں پی جائیے

کہیں کوئی طوفان آ جائے نا

کامل شطاری

آنسو سنبھل کے پونچھئے بیمار عشق ہوں

دل بھی لگا ہوا ہے میری چشم نم کے ساتھ

کامل شطاری

بے ارادہ کچھ ٹپک پڑتے ہیں آنسو بھی وہاں

زندگی کی جس روش پر مسکرا سکتا ہوں میں

کامل شطاری

وہ ستارا جو مرے نام سے منسوب ہوا

دیدۂ شب میں ہے اک آخری آنسو کی طرح

مظفر وارثی

نہ پوچھ حال شب غم نہ پوچھ اے پرنمؔ

بہائے جاتے ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں

پرنم الہ آبادی

وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں جو دل میں

تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینہ

حسرت موہانی

آپ آئیں تو سہی ٹھوکر لگانے کے لیے

میری تربت دیکھ کر آنسو رواں ہو جائیں گے

مضطر خیرآبادی

لگا کے زخم بہانے چلا ہے اب آنسو

رکا ہے خون کہیں پٹیاں بھگونے سے

مظفر وارثی

خون دل جتنا تھا سارا وقف حسرت کر دیا

اس قدر رویا کہ میری آنکھ میں آنسو نہیں

مضطر خیرآبادی

مشترک شب سے ہوا خون جگر اشکوں میں

رات سے رنگ بدلنے لگے آنسو اپنا

رند لکھنوی

چشم تر لخت دل سوزاں سے آنسو کو بجھا

طفل ابتر ڈال دے ہے ہاتھ اکثر ہاتھ میں

شاہ نصیر

درد کی صورت اٹھا آنسو کی صورت گر پڑا

جب سے وہ ہمت نہیں کسی بل نہیں طاقت نہیں

عرش گیاوی

میں اک آنسو ہی سہی ہوں بہت انمول مگر

یوں نہ پلکوں سے گرا کر مجھے مٹی میں ملا

مظفر وارثی

رک گئے آنسو مرے درد جگر کچھ کم ہوا

اس بت سیمیں بدن کا جب نظارہ ہو گیا

سنجر غازیپوری

کیا سرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے

کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا

ریاض خیرآبادی

میرے سوز دروں نے آنکھ میں آنسو نہیں چھوڑے

جہاں شعلے بھڑکتے ہوں وہاں شبنم نہیں ہوتی

صادق دہلوی

صیاد کی رضا یہ ہم آنسو نہ پی سکے

عذر غم بہار کیا ہائے کیا کیا

بہزاد لکھنوی

بیٹھ کر روئے جہاں غربت میں دریا ہو گیا

چار آنسو جب گرے آنکھوں سے چوکا ہو گیا

برق لکھنوی

شاید کہ یہی آنسو کام آئیں محبت میں

ہم اپنی متاع غم برباد نہیں کرتے

فنا نظامی کانپوری

موتی سی وہ آب کہاں آنسو کالا موتی ہے

شاید میری ہجر کی شب منہ کی سیاہی ہوتی ہے

ریاض خیرآبادی

مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں

آستیں آج کیوں تری نم ہے

میر محمد بیدار

اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی

سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی

صوفی تبسم

مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم

دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں

میں سمجھوں گا کہ میرے داغ عصیاں دھل گئے سارے

اگر آنسو تری چشم تغافل سے نکل آیا

مضطر خیرآبادی

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

حسرت موہانی

پرنمؔ اس بے وفا کے لئے

میرے آنسو دعا ہو گئے

پرنم الہ آبادی

لبوں پر نام نہ آنسو حکایت نہ شکایت ہو

اسیر زلف دیوانہ ہے دیوانہ یہ کیا جانے

بیخود سہر وردی

ادھر تو آنکھوں میں آنسو ادھر خیال میں وہ

بڑے مزے سے کٹی زندگی جدائی میں

قیصرؔ شاہ وارثی

برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو

لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے

آسی غازیپوری

بنے آنسو پھپھولے صورت شمع

جلائے ہیں ہم اپنی چشم تر کے

آسی غازیپوری

یہ دل میں ہے جو گھبراہٹ یہ آنکھوں میں ہے جو آنسو

اس احساں کو بھی بالائے کرم محسوس کرتا ہوں

بہزاد لکھنوی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے