چادر سے موج کے نہ چھپے چہرہ آپ کا
برقعہ حباب کا نہ ہو برقعہ حباب کا
چہرے پہ جو تیرے نظر کر گیا
جان سے وہ اپنی گزر کر گیا
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
اس کا چہرہ کب اس کا اپنا تھا
جس کے چہرے پر مر مٹے چہرے
اپنا بے خود مجھے للہ بنا لے ساقی
برقعہ’ پھر چہرۂ انور سے ہٹا لے ساقی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere