چادر سے موج کے نہ چھپے چہرہ آپ کا
برقعہ حباب کا نہ ہو برقعہ حباب کا
اس کا چہرہ کب اس کا اپنا تھا
جس کے چہرے پر مر مٹے چہرے
چہرے پہ جو تیرے نظر کر گیا
جان سے وہ اپنی گزر کر گیا
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
اپنا بے خود مجھے للہ بنا لے ساقی
برقعہ’ پھر چہرۂ انور سے ہٹا لے ساقی