ہم رنج بھی پانے پر ممنون ہی ہوتے ہیں
ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی
پلائے خم پے خم احسان دیکھو
مجھے ساقی نے خمخانا بنایا
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں
دل دیا جان دی خدا تو نے
تیرا احسان ایک ہو تو کہوں
یا تو نے نظر خیرہ کر دی اے برق تجلی یا ہم ہی
دیدار میں اپنی آنکھوں کا احسان اٹھانا بھول گئے
عذر کچھ مجھ کو نہیں قاتل تو بسم اللہ کر
سر یہ حاضر ہے مگر احسان میرے سر نا ہو
توبہ کا ٹوٹنا تھا کہ رخصت ہوئی بہار
احسان مند جرم و خطا بھی نہ ہو سکے
درد منت کش درمان مسیحا نہ ہوا
تیرا احسان ہے یا رب کہ میں اچھا نہ ہوا
ہوتا نہیں ہے سر سے میرے یہ کبھی جدا
احسان مانتا ہوں میں احسان پیر کا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere