اپنے ہاتھوں کے بھی میں زور کا دیوانہ ہوں
رات دن کشتی ہی رہتی ہے گریبان کے ساتھ
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
گلوں کی طرح چاک کا اے بہار
مہیا ہر اک یاں گریبان ہے
اے ضبط دل یہ کیسی قیامت گزر گئی
دیوانگی میں چاک گریبان ہو گیا
گلو گیر ہے ان بھوؤں کا تصور
گریبان میں اپنے کنٹھا نہیں ہے
اس پردے میں تو کتنے گریبان چاک ہیں
وہ بے حجاب ہوں تو خدا جانے کیا نہ ہو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere