Sufinama

گلشن پر اشعار

زخم دل ہو گئے پھر انکی عنایت سے ہرے

میرے گلشن میں پھر اک تازہ بہار آئی ہے

کامل شطاری

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا

سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

آسی غازیپوری

الٰہی بندھ رہی ہے آج گلشن میں ہوا کس کی

لیے پھرتی ہے خوشبو دم بدم باد صبا کس کی

آسی غازیپوری

جس دن سے بوئے زلف لے آئی ہے اپنے ساتھ

اس گلشن جہاں میں ہوا ہوں صبا پرست

خواجہ رکن الدین عشقؔ

جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں

موسم نو بہار ہوتا ہے

پرنم الہ آبادی

ترا وجود ہے جان بہار گلشن

تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز

کامل شطاری

اور ہیں جن کو ہے خبط عشق حوران جناں

ہم کو سودائے ہوائے گلشن جنت نہیں

عرش گیاوی

تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم

جوں شبنم چشم تر گئے ہم

میر محمد بیدار

بہار آئی ہے گلشن میں وہی پھر رنگ محفل ہے

کسی جا خندۂ گل ہے کہیں شورعنادل ہے

شمس فرنگی محلی

یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی

پھولوں سے جدا کلیاں کلیوں سے جدا ڈالی

بیدم شاہ وارثی

کیوں کر نہ چلیں گلشن دنیا میں یہ لویں

ہو گئی ہے میاں آہ کی تاثیر ہوا پر

خواجہ رکن الدین عشقؔ

کب دماغ اتنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن

اور ہی گلزار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ

میر محمد بیدار

غضب کی چال گلشن میں چلا ہے باغباں محسنؔ

اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ پامال صعوبت ہوں

شاہ محسن داناپوری

ریاضؔ ایما ہے ان کا ہم نوا ہوں مرغ گلشن میں

ہوئی ہے منعقد بزم سخن صحن گلستاں میں

ریاض خیرآبادی

سیر کر دے اب کہ گلشن بیں ہے ہنگام بہار

ہم اسیروں کی رہائی اب تو اے صیاد ہو

اکبر وارثی میرٹھی

فریب رنگ و بوئے دہر مت کھا مرد عاقل ہو

سمجھ آتش کدہ اس گلشن شاداب دنیا کو

میر محمد بیدار

بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر

دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا

مردان صفی

ترابؔ ہوتا ہے اشک باراں اپس میں توں بول راز داراں

ہر ایک گلشن میں نو بہاراں گھڑی میں کچھ ہور گھڑی میں کچھ ہیں

تراب علی دکنی

نخل بند گلشن مضموں ہوں فیض فکر سے

ہر ورق دیواں کا میرے باغ ہے کشمیر کا

عرش گیاوی

آپ سے آئے نہیں ہم سیر کرنے باغباں

لائی ہے باد صبا گلشن میں لپٹا کر لگا

شاہ نصیر

اے اسیران قفس آنے کو ہے فصل خزاں

چار دن میں اور گلشن کی ہوا ہو جائے گی

ریاض خیرآبادی

کچھ اس عالم میں وہ بے پردہ نکلے سیر گلشن کو

کہ نسریں اپنی خوشبو رنگ بھولی نسترن اپنا

حسرت موہانی

اے بہار گلشن ناز و نزاکت ہر طرف

تیرے آنے سے ہوئی ہے اور بھی بستاں میں دھوم

میر محمد بیدار

یہ گلچیں نے کیوں پھول گلشن میں توڑا

کہ اس پر ہیں ٹوٹے عنا دل ہزاروں

ریاض خیرآبادی

جلوے سے ترے ہے کب خالی پھل پھول پھلی پتہ ڈالی

ہے رنگ ترا گلشن گلشن سبحان اللہ سبحان اللہ

اکبر وارثی میرٹھی

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ

دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

شاہ نصیر

گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں

ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست

امیر مینائی

ستاتا ہے مجھے صیاد ظالم اس لیے شاید

کہ رونق اس کے گلشن کی مرے شغل فغاں تک ہے

ولی وارثی

لگا دی آگ ان کے شعلۂ عارض نے گلشن میں

زر گل بن گئیں چنگاریاں پھولوں کے دامن میں

حسن امام وارثی

جب تک ایک حسیں مکیں تھا دل میں ہر سو پھول کھلے تھے

وہ اجڑا تو گلشن اجڑا اور ہوا آباد نہیں ہے

بیخود سہر وردی

رشک گلشن ہو الٰہی یہ قفس

یہ صدا مرغ گرفتار کی ہے

آسی غازیپوری

ہر ذرہ اس کی منزل صحرا ہو یا ہو گلشن

کیوں بے نشاں رہے وہ تیرا جو بے نشاں ہے

حیرت شاہ وارثی

مثل گل باہر گیا گلشن سے جب وہ گلعذار

اشک خونی سے میرا تن تر بہ تر ہونے لگا

کشن سنگھ عارفؔ

چشم نرگس بن گئی ہے اشتیاق دید میں

کون کہتا ہے کہ گلشن میں ترا چرچا نہیں

مرزا فدا علی شاہ منن

گلشن عالم کی میں نے ڈالی ڈالی دیکھ لی

پھول تو اچھے ہیں سب لیکن وفا کی بو نہیں

مضطر خیرآبادی

ہرے کپڑے پہن کر پھر نہ جانا یار گلشن میں

گلوئے شاخ گل سے خون ٹپکے گا شہادت کا

اکبر وارثی میرٹھی

سرو گلشن ہو صنوبر ہو کہ ہو فتنۂ حشر

سچ تو یہ ہے کہ غضب وہ قد بالا دیکھا

بہرام جی

اب دل کا ہے ویران چمن وہ گل ہیں کہاں کیسا گلشن

ٹھہرا ہے قفس ہی اپنا وطن صیاد مجھے آزاد نہ کر

محبوبؔ وارثی گیاوی

رفتار یار کا اگر انداز بھول جائے

گلشن میں خاک اڑاتی نسیم سحر پھرے

فنا نظامی کانپوری

سب تماشے آپ میں ہیں دیکھ لو اور چھوڑ دو

کوہ کی تفتیش بن کر فکر گلشن کی تلاش

اکبر وارثی میرٹھی

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی

اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے‌ ہم رنگی کرے

دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا

شاہ نصیر

کوئی رشک گلستاں ہے تو کوئی غیرت گلشن

ہوئے کیا کیا حسیں گلچھرہ پیدا آب و گل سے

شاہ اکبر داناپوری

رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا

بے چراغ آج ہے ہر ایک نشیمن کیسا

ریاض خیرآبادی

گلشن میں جا کے داغ جگر جب دکھا دیا

پھولوں کو ہم نے پیکر حیرت بنا دیا

ولی وارثی

اب اپنے تصور میں اڑا پھرتا ہے گلشن

تقدیر اسیری پر پرواز کہاں ہے

سلیمانؔ وارثی

افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں

جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

شاہ نصیر

تم نہ جاؤ زینت گلشن تمہارے دم سے ہے

تم چلے جاؤ گے تو گلشن میں کیا رہ جائے گا

پرنم الہ آبادی

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا

ساغر صدیقی

دیدۂ بینا و نابینا کے تئیں روشن کیا

یک نگہ میں گلخن ویراں کوں او گلشن کیا

تراب علی دکنی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے