Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

گلشن پر اشعار

زخم دل ہو گئے پھر انکی عنایت سے ہرے

میرے گلشن میں پھر اک تازہ بہار آئی ہے

کامل شطاری

ترا وجود ہے جان بہار گلشن

تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز

کامل شطاری

جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں

موسم نو بہار ہوتا ہے

پرنم الہ آبادی

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا

سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

آسی غازیپوری

الٰہی بندھ رہی ہے آج گلشن میں ہوا کس کی

لیے پھرتی ہے خوشبو دم بدم باد صبا کس کی

آسی غازیپوری

جس دن سے بوئے زلف لے آئی ہے اپنے ساتھ

اس گلشن جہاں میں ہوا ہوں صبا پرست

خواجہ رکن الدین عشقؔ

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا

ساغر صدیقی

رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا

بے چراغ آج ہے ہر ایک نشیمن کیسا

ریاض خیرآبادی

گلشن میں جا کے داغ جگر جب دکھا دیا

پھولوں کو ہم نے پیکر حیرت بنا دیا

ولی وارثی

اب اپنے تصور میں اڑا پھرتا ہے گلشن

تقدیر اسیری پر پرواز کہاں ہے

سلیمانؔ وارثی

افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں

جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

شاہ نصیر

تم نہ جاؤ زینت گلشن تمہارے دم سے ہے

تم چلے جاؤ گے تو گلشن میں کیا رہ جائے گا

پرنم الہ آبادی

دیدۂ بینا و نابینا کے تئیں روشن کیا

یک نگہ میں گلخن ویراں کوں او گلشن کیا

تراب علی دکنی

جی میں آتی ہے نئے فتنے اٹھاتے جائیے

دل کے ذرے خاک گلشن میں ملاتے جائیے

سلیمانؔ وارثی

کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن

جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن

فنا نظامی کانپوری

گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا

ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا

فنا نظامی کانپوری

نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی

کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی

سیماب اکبرآبادی

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن اپنا اپنا دامن

جگر مرادآبادی

جہاں ہیں محو نغمہ بلبلیں گل جس میں خنداں ہیں

اسی گلشن میں کل زاغ و زغن کا آشیاں ہوگا

عرش گیاوی

ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک

جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار

مرزا مظہر جان جاناں

ہم گلشن فطرت سے جینے کی ادا لیں گے

شاخوں سے لچک لیں گے کانٹوں سے انا لیں گے

فنا نظامی کانپوری

جب باغ جناں میں بو تیری اے رونق گلشن پھیل گئی

بلبل نے گلوں سے منہ موڑا پھولوں نے چمن کو چھوڑ دیا

احقر بہاری

گل ترے گلشن ہے تیرا سب بہاریں ہیں تیری

آشیان و برق سب کہتے ہیں افسانہ ترا

قیصرؔ شاہ وارثی

گلشن پہ اداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں

وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے

پرنم الہ آبادی

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن

غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی

کہوں کیا کہ گلشن دہر میں وہ عجب کرشمے دکھا گئے

کہیں عاشقوں کو مٹا گئے کہیں لن ترانی سنا گئے

اکبر وارثی میرٹھی

بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن

پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک

بیدم شاہ وارثی

دیکھنا ذرا ہمدم روشنی ہے گلشن میں

آشیانا جلتا ہے یا چراغ جلتے ہیں

سعید شہیدی

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ

دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

شاہ نصیر

گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں

ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست

امیر مینائی

ستاتا ہے مجھے صیاد ظالم اس لیے شاید

کہ رونق اس کے گلشن کی مرے شغل فغاں تک ہے

ولی وارثی

لگا دی آگ ان کے شعلۂ عارض نے گلشن میں

زر گل بن گئیں چنگاریاں پھولوں کے دامن میں

حسن امام وارثی

جب تک ایک حسیں مکیں تھا دل میں ہر سو پھول کھلے تھے

وہ اجڑا تو گلشن اجڑا اور ہوا آباد نہیں ہے

بیخود سہر وردی

رشک گلشن ہو الٰہی یہ قفس

یہ صدا مرغ گرفتار کی ہے

آسی غازیپوری

ہر ذرہ اس کی منزل صحرا ہو یا ہو گلشن

کیوں بے نشاں رہے وہ تیرا جو بے نشاں ہے

حیرت شاہ وارثی

مثل گل باہر گیا گلشن سے جب وہ گلعذار

اشک خونی سے میرا تن تر بہ تر ہونے لگا

کشن سنگھ عارفؔ

چشم نرگس بن گئی ہے اشتیاق دید میں

کون کہتا ہے کہ گلشن میں ترا چرچا نہیں

مرزا فدا علی شاہ منن

گلشن عالم کی میں نے ڈالی ڈالی دیکھ لی

پھول تو اچھے ہیں سب لیکن وفا کی بو نہیں

مضطر خیرآبادی

ہرے کپڑے پہن کر پھر نہ جانا یار گلشن میں

گلوئے شاخ گل سے خون ٹپکے گا شہادت کا

اکبر وارثی میرٹھی

سرو گلشن ہو صنوبر ہو کہ ہو فتنۂ حشر

سچ تو یہ ہے کہ غضب وہ قد بالا دیکھا

بہرام جی

اب دل کا ہے ویران چمن وہ گل ہیں کہاں کیسا گلشن

ٹھہرا ہے قفس ہی اپنا وطن صیاد مجھے آزاد نہ کر

محبوبؔ وارثی گیاوی

رفتار یار کا اگر انداز بھول جائے

گلشن میں خاک اڑاتی نسیم سحر پھرے

فنا نظامی کانپوری

سب تماشے آپ میں ہیں دیکھ لو اور چھوڑ دو

کوہ کی تفتیش بن کر فکر گلشن کی تلاش

اکبر وارثی میرٹھی

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی

اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے‌ ہم رنگی کرے

دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا

شاہ نصیر

کوئی رشک گلستاں ہے تو کوئی غیرت گلشن

ہوئے کیا کیا حسیں گلچھرہ پیدا آب و گل سے

شاہ اکبر داناپوری

اور ہیں جن کو ہے خبط عشق حوران جناں

ہم کو سودائے ہوائے گلشن جنت نہیں

عرش گیاوی

تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم

جوں شبنم چشم تر گئے ہم

میر محمد بیدار

بہار آئی ہے گلشن میں وہی پھر رنگ محفل ہے

کسی جا خندۂ گل ہے کہیں شورعنادل ہے

شمس فرنگی محلی

یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی

پھولوں سے جدا کلیاں کلیوں سے جدا ڈالی

بیدم شاہ وارثی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے