Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عشق پر اشعار

مجھے عشق نے یہ پتا دیا کہ نہ ہجر ہے نہ وصال ہے

اسی ذات کا میں ظہور ہوں یہ جمال اسی کا جمال ہے

عزیز صفی پوری

ہر تمنا عشق میں حرف غلط

عاشقی میں معنیٔ حاصل فریب

ذہین شاہ تاجی

عشق ماہی دے لائیاں اگیں لگی کون بجھاوے ہو

میں کی جاناں ذات عشق جو در در جا جھکاوے ہو

سلطان باہو

اندر کلمہ کل کل کردا عشق سکھایا کلمہ ہو

چوداں طبقے کلمہ اندر چھڈ کتاباں علماں ہو

سلطان باہو

جس منزول نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو

عشق سلامت رکھیں باہوؔ دیاں ایمان دھروئی ہو

سلطان باہو

ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو

جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان خبر نہ کوئی ہو

سلطان باہو

مرشد مکہ طالب حاجی کعبہ عشق بڑایا ہو

وچ حضور سدا ہر ویلے کریے حج سوایا ہو

سلطان باہو

مضمون یہ عشقؔ دل میں میرے آیا

اس رمز رسالت کو نظر سے پایا

خواجہ رکن الدین عشقؔ

حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو

ہر گلستاں اس طرف ہے ہر بیاباں اس طرف

ذہین شاہ تاجی

عاشق عشق ماہی دے کولوں پھرن ہمیشہ کھیوے ہو

جندے جان ماہی نوں ڈتی دوہیں جہانیں جیوے ہو

سلطان باہو

دیوانہ شد زو عشق ہم ناگہ بر آورد آتشی

شد رخت شہری سوختہ خاشاک ایں ویرانہ ہم

امیر خسرو

بتوں کا عشق ہوا جب نصیب واعظ

کہ مدتوں کیا پہلے خدا خدا ہم نے

اوگھٹ شاہ وارثی

الروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جاں بھی پیارے جلا جانا

احمد رضا خاں

اندر بھائی اندر بالن اندر دے وچ دھوہاں ہو

شاہ رگ تھیں رب نیڑے لدھا عشق کیتام جد سوہاں ہو

سلطان باہو

عشق کو بے نقاب ہونا تھا

آپ اپنا جواب ہونا تھا

جگر مرادآبادی

عاشق ہو تے عشق کما دل رکھیں وانگ پہاڑاں ہو

سئے سئے بدیاں لکھ الاہمیں جانیں باغ بہاراں ہو

سلطان باہو

عشق میں ایسا اک عالم بھی گزر جاتا ہے

ذہن و ادراک کا احساس بھی مر جاتا ہے

عزیز وارثی دہلوی

عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق

آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق

بیدم شاہ وارثی

ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو

مانگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو

سلطان باہو

عشق خود مائل حجاب ہے آج

حسن مجبور اضطراب ہے آج

سیماب اکبرآبادی

عشق نے توڑی سر پہ قیامت زور قیامت کیا کہیے

سننے والا کوئی نہیں روداد محبت کیا کہیے

جگر مرادآبادی

دلبر میں دل یا دلبر دل میں ہے

عشقؔ اس کو بتا کس طرح سے غیر کہوں

خواجہ رکن الدین عشقؔ

پہنچا ہے جب سے عشق کا مجھ کو سلام خاص

دل کے نگیں پہ تب سے کھدایا ہے نام خاص

خواجہ رکن الدین عشقؔ

ترے عشق میں زندگانی لٹا دی

عجب کھیل کھیلا جوانی لٹا دی

بہزاد لکھنوی

عشق دی گل اولی جہڑا شرعا تھیں دور ہٹاوے ہو

قاضی چھوڑ قضائی جان جد عشق طمانچا لاوے ہو

سلطان باہو

ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج

عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں

جگر مرادآبادی

پاک بازی اپنی پیغام طلب تھی عشق میں

دھو کے داغ تہمت ہستی سفر درکار تھا

آسی غازیپوری

جنہاں عشق حقیقی پایہ موہوں نا الاوت ہو

ذکر فکر وچ رہن ہمیشہ دم نوں قید لگاون ہو

سلطان باہو

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو

عیش‌ و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو

شاہ نیاز احمد بریلوی

جس کی نظر عشقؔ کے اوپر پڑی

چشم کے تئیں اپنی وہ تر کر گیا

خواجہ رکن الدین عشقؔ

عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے

پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے

خواجہ میر درد

کوئی کیا سمجھے کہ کیا کرتا ہے عشق

ہر دم اک فتنہ بپا کرتا ہے عشق

عزیز صفی پوری

عشق آسانوں لسیاں جاتا کر کے آوے دھائی ہو

جت ول ویکھاں عشق دسیوے خالی جا نہ کائی ہو

سلطان باہو

اس چمن کی سیر میں اے گلعذار

عشقؔ کی آنکھوں میں طوفاں یا نصیب

خواجہ رکن الدین عشقؔ

یہ عشق کی ہے سرکار احقرؔ غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے

ہر زخم جگر کے پھاہے میں کافور بھی ہے زنگار بھی ہے

احقر بہاری

عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں

بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں

جگر مرادآبادی

چو نے خالی شدم از آرزوہا لیک عشق او

بگوشم می دمد حرفے کہ من ناچار می‌ نالم

خواجہ میر درد

منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو

عشق سلامت رکھیں باہوؔ دیاں ایمان دھروئی ہو

سلطان باہو

عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا

ایک پل دل کو مرے اس کے بن آرام نہیں

شاہ نیاز احمد بریلوی

سوچا کبھی نہ عشق میں کچھ پیار کے سوا

حسرت کوئی نہ کی تیرے دیدار کے سوا

غفور شاہ وارثی

مقدور کیا جو کہہ سکوں کچھ رمز عشق کو

جوں شمع ہوں اگرچہ سراپا زبان عشق

خواجہ رکن الدین عشقؔ

لیل و نہار چاہے اگر خوب گزرے عشقؔ

کر ورد اس کے نام کو تو صبح و شام کا

خواجہ رکن الدین عشقؔ

عشق تھا اپنے زعم میں عشق کو ضد بنی رہی

قصہ ہوا نہ مختصر عمر تمام ہو گئی

رشید وارثی

گر حقیقی نہیں بے لوث مجازی ہی سہی

رہ کئے عشق سے پیدا کسی بابت رہئے

شاہ امیرالدین فردوسی

عشق میں اس شعلہ رو کے ایسے بے خود ہو گئے

آپ بھی آنے نہ پائے تھے کی آخر کھو گئے

سنجر غازیپوری

گر طالب اللہ ہوا ہے عشق کو پہلے پیدا کر

پریم کی چکی میں دل اپنا پیس پسا کر میدا کر

کوی دلدار

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے

ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

جب عشق عاشق بے باک کرے تب پاوے اپنے مطلب کو

تن من کو مار کے خاک کرے تب پاوے اپنے مطلب کو

کوی دلدار

مرا عشق منظر عام پر ترا حسن پردۂ راز میں

یہی فرق روز ازل سے ہے ترے ناز میرے نیاز میں

قیصرؔ شاہ وارثی

عشق را با حسن یکجا کردہ اند

طرفہ سامانے مہیا کردہ اند

عزیز صفی پوری

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے