داور حشر یہ ہے حشر میں ارماں مجھ کو
بدلے جنت کے ملے کوچۂ جاناں مجھ کو
جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں
دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے
ساز و ساماں ہیں میری یہ بے سر و سامانیاں
باغ جنت سے بھی اچھا ہے یہ ویرانہ مرا
گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں
ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست
جذبۂ عشق میں جنت کی تمنا کیسی
یہ بلندی تو مری گرد سفر ہوتی ہے
در وارث پہ ہے بیدمؔ کا بستر
تری جنت تجھے رضواں مبارک
تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں
دنیا بھی مرے واسطے جنت سے کم نہیں
مبارک زاہدوں کو پھر باغ خلد کوثر
نہ جنت میرے قابل ہے نہ میں جنت کے قابل ہوں
حرم ہے جائے ادب کام دے گی جنت میں
فرشتو طاق سے بوتل ذرا اٹھا دینا
وہ اے سیمابؔ کیوں سرگشتۂ تسنیم و جنت ہو
میسر جس کو سیر تاج اور جمنا کا ساحل ہے
ملا کیا حضرت آدم کو پھل جنت سے آنے کا
نہ کیوں اس غم سے سینہ چاک ہو گندم کے دانے کا
حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی
ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے
حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد
جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا
ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے
کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے
ہم ایسے غرق دریائے گنہ جنت میں جا نکلے
توان لطمۂ موج شفاعت ہو تو ایسی ہو
تلاش بت میں مجھ کو دیکھ کر جنت میں سب بولے
یہ کافر کیوں چلا آیا مسلمانوں کی بستی میں
چمن سینۂ پر داغ میں تیرا جلوہ
یار قابل ترے گل گشت کے جنت بھی نہیں
جس دن سے میرے دل کو آباد کیا تم نے
انوار کی جنت ہے کاشانہ جسے کہئے
وہاں تو حضرت زاہد تمہیں اچھوں سے نفرت تھی
یہاں جنت میں اب کس منہ سے تم لینے کو حور آئے
وفاداری کی صورت میں جفا کاری کا نقشا تو
یہ نیرنگ محبت ہے کہ ایسا میں ہوں ویسا تو
بتوں کے لیے سب جلے آگ میں
جہنم پہ جنت فدا ہو گئی
اس دودھ کا خدا کرے کاسہ ہمیں نصیب
جنت میں پنج تن کی جو بہتی ہے جوئے شیر
خدا رکھے عجب کیف بہار کوئے جاناں ہے
کہ دل ہے جلوہ ساماں تو نظر جنت بہ داماں ہے
جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں
ہمیں نسبت ہے جنت سے کہ ہم بھی نسل آدم ہیں
ہمارا حصہ راقمؔ ہے ارم میں حوض کوثر میں
سکون مستقل دل بے تمنا شیخ کی صحبت
یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہو گا
اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں
ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے
کیوں نہ دوزخ بھی ہو جنت مجھے جب خود وہ کہے
اس گنہ گار کو لے جاؤ یہ مغفور نہیں
باغ و بہشت و حور و جنت ابراروں کو کیجیے عنایت
ہمیں نہیں کچھ اس کی ضرورت آپ کے ہم دیوانے ہیں
اب اجازت دفن کی ہو جائے تو جنت ملے
یار کے کوچے میں ہم نے جائے مدفن کی تلاش
بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا
ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے
ترا جام جام کوثر ترا مے کدہ ہے جنت
مرے حال پہ کرم کر مری تشنگی بجھا دے
یہ بت جب جہنم میں ڈالے گئے
تو پھر تیری جنت میں کیا رہ گیا
کوچۂ قاتل میں مجھ کو گھیر کر لائی ہے یہ
جیتے جی جنت میں پہنچا دے قضا ایسی تو ہو
گئے مے پیتے ہوئے عالم اسرار سے ہم
مست جنت میں گئے خانۂ خمار سے ہم
حامدؔ رہے آباد سدا شہر نبی کا
جنت سے بھی مرغوب مدینے کی فضا ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere